سانحہ نیوزی لینڈ، مسلمانوں کے خلاف سازش یا کچھ اور؟۔

599

محمد انور
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں 15 مارچ کو دو مساجد مسجد النور اور لِن ووڈ مسجد میں نماز جمعہ کے وقت ہونے والی دہشت گردی جس میں 50 نمازی شہید اور48 شدید زخمی ہوگئے، دراصل ایسا سانحہ تھا جس کا ذکر ہم برسوں کرتے رہیں گے، اور شاید اس دردناک واقعے کو کبھی نہ بھلا سکیں گے۔
دہشت گرد برینٹن ہیریسن ٹیرنٹ جو بھی تھا، جس مذہب اور ملک سے تھا، وہ ذہنی طور پر بڑا جرائم پیشہ تھا۔ اس نے نیوزی لینڈ کی زمین پر مسلمانوں پر براہِ راست گولیاں برساکر اس بات کا اظہار کیا کہ اس کی لڑائی صرف مسلمانوں سے ہی ہے۔ وہ نمازی مسلمانوں پر جس بے دردی اور اطمینان سے فائرنگ کرتا رہا اس سے محض یہی تو ظاہر ہورہا تھا کہ اس کی پشت پر بااثر ساتھی ہی نہیں بلکہ ایک پورا نظام ہوگا… وہ نظام جس کے تحت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں گڑبڑ پھیلا کر کشیدگی پیدا کرنا ہے۔ نیوزی لینڈ کا سیکورٹی سسٹم تو اس واقعے سے آشکار ہوچکا۔ یہ نظام جس کی ذمے داری جرائم پیشہ لوگوں کو پکڑنا اور قبل از واردات اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں کا پتا لگانا تھا، وہ تو اپنے ٹاسک میں ناکام قرار پا چکا ہے، اس میں خامیوں کی موجودگی ثابت ہوچکی ہے۔ نیوزی لینڈ کے سیکورٹی سسٹم میں موجود ان نقائص کی وجہ سے بزدل عیسائی دہشت گرد نے نہتے اور عبادت میں مصروف مسلمانوں پر مسجد کے اندر گھس کر حملہ کیا اور بلا خوف اپنا ہدف پورا کیا۔
لیکن سلام ہے شہیدوں کے رشتے داروں، دوستوں اور سبھی مسلمانوں پر، جنہوں نے اپنے غم و غصے کو قابو میں رکھا۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی تربیت ہی یہ ہے کہ انہیں ’’صبر اور درگزر ‘‘کا مظاہرہ کرنا ہے۔
نیوزی لینڈ کے سانحے کے بعد وہاں کی حکومت خصوصاً خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی ہمت اور حوصلہ دلانے والی تقاریر اور اقدامات قابلِ تعریف ہیں۔ ملک کے حاکم کو ایسا ہی کرنا چاہیے۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ نے اس واقعے پر پانچ مرتبہ خصوصی خطاب کیا اور ہر خطاب میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ مسلمانوں سے بہت شرمندہ ہیں۔ نیوزی لینڈ حکومت کی جانب سے واقعے کے شہدا کے خاندانوں کی ہر طرح کی مدد، انہیں سٹیزن شپ دینے اور اپنے پیاروں کی کہیں بھی تدفین کے لیے تمام اخراجات برداشت کرنے کے اعلانات یقیناً بہت اہم ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں اسپیکر ٹریور مالارڈ کی قیادت میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں تمام مذاہب کے رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔ کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملے کے بعد پارلیمنٹ کے اس خصوصی اجلاس کا آغاز قرآن پاک کی سورۃ البقرہ کی آیات 153-156 (جس میں ایمان والوں کو صبر کی تلقین کی گئی ہے) سے ہوا۔ یہ تلاوت پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا احترام الحق تھانوی نے کی۔ تلاوتِ قرآن پاک کے بعد وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے اجلاس سے خطاب کا آغاز السلام علیکم سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلوی دہشت گرد کو اس دہشت گردی سے بہت سی چیزیں مطلوب تھیں، وہ شہرت کی تلاش میں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپ مجھے کبھی اس دہشت گرد کا نام لیتے ہوئے نہیں سنیں گے، وہ ایک دہشت گرد ہے، مجرم ہے اور ایک انتہا پسند ہے، لیکن جب میں اس کے حوالے سے بات کروں گی تو وہ بے نام ہوگا‘‘۔ جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ ’’اُن کا نام لیں جنہیں اس حادثے میں کھودیا، نہ کہ اُس شخص کا جو اس کا ذمہ دار ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’اسے شاید شہرت کی تلاش ہوگی، لیکن ہم نیوزی لینڈ میں اسے کچھ نہیں دیں گے، اس کا نام بھی نہیں‘‘۔ انہوں نے مزیدکہا کہ حملہ آور آسٹریلیا میں پلا بڑھا، اس کا نیوزی لینڈ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران دوسروں کی جان بچاتے ہوئے شہید ہونے والے بہادر پاکستانی شہری نعیم راشد کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ جیسنڈا نے کہا کہ نعیم راشد کو جن کا تعلق پاکستان سے ہے، جو مساجد پر اندھا دھند فائرنگ کرنے والے حملہ آور سے بندوق چھیننے کے دوران شہید ہوگئے، زبردست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں، نعیم راشد نے مسجد کے اندر عبادت کرنے والے لوگوں کی جان بچانے کے لیے اپنی جان قربان کردی۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ!

یہ بات درست ہے کہ وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی پوری تقریر اس بات کی غمازی کررہی تھی کہ وہ صدمے میں ہیں اور واقعے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والوں اور ان کے خاندان والوں سے بحیثیت وزیراعظم شرمندہ ہیں۔ ان کے الفاظ اس بات کا بھی اشارہ کررہے تھے کہ قاتل برینٹن ہیریسن ٹیرنٹ کا بنیادی تعلق چونکہ آسٹریلیا سے ہے اور اس نے وہیں تعلیم و تربیت حاصل کی، اس لیے نیوزی لینڈ کا اس کی تربیت سے کوئی تعلق نہیں۔ تاہم جیسنڈا آرڈرن کو یہ ماننا پڑے گا کہ ان کے ملک کے امیگریشن قوانین کی خامیوں کے باعث برینٹن کو نیوزی لینڈ کی شہریت کے ساتھ اسلحہ رکھنے کا اجازت نامہ بھی ملا تھا۔ اگرچہ وزیراعظم جیسنڈا کا یہ کہنا کہ’’ہم قاتل کو اس کا نام بھی نہیں دیں گے، وہ دہشت گرد تھا، ہے، ہم اسے اسی شناخت سے جاننا چاہیں گے‘‘ ملزم سے بھرپور نفرت کا اظہار ہوگا، مگر نفرت کا تقاضہ یہ تو نہیں ہوتا کہ نام اور شناخت ہی کو چھپا دیا جائے۔ نفرت کے اظہار کے لیے کم ازکم اسے بدنام تو کرنا چاہیے، اور بدنام کرنے کے لیے نام اور شناخت ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ نام اور شناخت کو چھپانے کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس سے منسلک تمام باتوں پر پردہ ڈال دیا جائے۔

وزیراعظم عمران خان اور مسلمانوں کی اکثریت کا مؤقف

نیوزی لینڈ میں بغیر کسی ردعمل یا اشتعال کے، ہونے والی دہشت گردی کے اس واقعے کو وزیراعظم پاکستان عمران خان ’’اسلام فوبیا‘‘ کا شاخسانہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی اکثریت اسے عالمی سازش قرار دے رہی ہے تو یہ سراسر غلط تو نہیں۔لوگ اس واقعے کو بھارت کی فوجی کارروائی پر پاکستانی فضائیہ کی جوابی کارروائی کا ردعمل خیال کررہے ہیں، تو یہ شبہ بھی درست ہی ہوگا۔ کیونکہ پاکستانی فوج نے اپنی سرزمین کی حفاظت کی صلاحیت کا اظہار کرکے دراصل مسلمانوں کی بھی صلاحیت کا اظہار کیا تھا۔ یقیناً یہ عمل دنیا کی دوسری بڑی آبادی اور واحد ہندو اکثریت والے ملک کو برداشت نہیں ہورہا ہوگا، تب ہی اُس نے اس کا جواب مسلمانوں کے خلاف عالمی سازش کے تحت نیوزی لینڈ میں نہتے مسلمانوں پر حملہ کرکے دیا ہوگا۔ نیوزی لینڈ کی حکومت نے اس سانحے کے بعد جو بھی اقدامات اور اعلانات کیے وہ قابلِ قدر ضرور ہیں لیکن کافی نہیں۔ جیسنڈا آرڈرن کو اپنے ملک میں مسلمانوں کی حفاظت کے لیے مزید سخت اقدامات کرنے ہوں گے، جبکہ اپنے ملک میں اسلحہ رکھنے اور قتل سمیت دہشت گردی کے قوانین میں ترامیم کرنی ہوں گی۔ قتل کے الزام میں صرف دس سال کی سزا کسی بھی مجرمانہ ذہنیت کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اس لیے ان قوانین کا جائزہ لے کر ان میں بھی ترمیم کرنی چاہیے۔

حصہ