روداد مشاعرہ جوہر ادب فیملی مشاعرہ

1338

محمد حسان
کراچی کی مصروف ترین مشینی زندگی میں اگر آپ محض شاعری کی بنیاد پر لوگوں کواکٹھا کرنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے یہ خیال اپنے دل سے نکال دیں، اس لئے کہ یہ شوق انتہائی دقت طلب مشق بن سکتا ہے، اور خاص کر ایسے ماحول میں جب کراچی میں دنیائے کرکٹ کا ایک شاندار ٹورنامنٹ PSL کا بخار (Fever) ایک وبا کی صورت میں پھیل چکا ہو – لیکن کراچی کے ادبی نامے میں گزشتہ پانچ سالوں سے محنت کرتے ہوئے چند ادب دوستوں کی ادبی تنظیم ” جوہر ادب ” نے9 مارچ اپنے روایتی” سا لانہ – جوہر ادب فیملی مشاعرہ -2019 ” کے انعقاد کا اعلان کیا – سوشل میڈیا پر دعوتی کارڈ اور شعراکرام تعارف اچھے انداز سے مشتہر کیا جاتا رہا – ایسا لگتا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ میڈیا مارکیٹنگ پر خصوصی توجہ دی گئی ہے، مشاعرے میں مدعو شعرا کی تصا ویر، ویڈیوز اور منتخب کلام سوشل میڈیا پر خوب گردش کرر ہے تھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ شہر قائد کا ایک بہت بڑا ایونٹ بننے جارہا ہے (اس پیشگی حسن اہتمام پر منتظمہ و میڈیا کمیٹی بھرپور مبارکباد کی مستحق ہے)
اس تنظیم کے منتظم اعلی جناب نجیب ایوبی صاحب نے ہمیں بتایا کہ ” ہم یہ مشاعرہ موسم بہار کی آمد پر ہر سال باقاعدگی سے منعقد کرواتے ہیں اور اس میں بالتزام کوشش ہوتی ہے کہ شرکاء اپنے اہل خانہ کے ساتھ مشاعرے میں شرکت کریں تاکہ ہم سامعین اور ان کے اہل خانہ کو اردو ادب کی اصل روایات سے روشناس کروانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں – اور الحمداللہ ہما رے فیملی مشاعرے میں شرکا اپنے اہل خانہ کے ساتھ آنا ہی پسند کرتے ہیں -”
کراچی کے گنجان آباد علاقے گلستان جوہر میں جا معہ کراچی کے عین سامنے انتہائی پر فضا ہل اسٹیشن(پہاڑی) پر اس مشاعرے کا انعقاد کیا گیا – محل و وقو ع کے اعتبار سے یہ مقام مشاعرے کیمخصوص ماحول کو بنانے میں انتہا ئی سازگار ثابت ہوا – شرکا ? بجے وہاں پہنچنا شروع ہوگئے تھے جن کے استقبال کے لئے استقبالیہ کمیٹی کے اراکین موجود تھے – مشاعرہ گاہ کو انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا – پنڈال میں تہنیتی بینرز آویزاں تھے اور اسٹیج بھی انتہائی دلکش لگ رہا تھا –
ہم جیسے ہی بل کھاتی ہوئی لمبی راہداری نما سڑک کی چڑھائی پر پہنچے تو سا منے ہی جگ مگ کرتا پنڈال دکھائی دیا جو برقی قمقموں ا سے روشن تھا، جہا ں کچھ شعرا کرا م اور سامعین کی بڑی تعداد پہلے ہی سے موجود تھی، ساؤنڈ سسٹم پر اساتذہ شعرا کا کلام سنائی دیا جس نے مشاعرے سے پہلے ہی مشاعرے کا ماحول بنا دیا تھا – مشاعرہ گاہ میں داخل ہوئے تو استقبالیہ کمیٹی کے اراکین نے ہمیں انتہائی تپاک سے ہمارا خیر مقدم کیا جیسے ہم سے برسوں کی شناسائی ہو، کیونکہ جوہر ادب کے مشاعرے میں شرکت کا اس سے پہلے موقع نہیں ملا تھا اس لئے منتظمین سے میرا تعارف بھی نہیں تھا مگر اس کے باوجود جس اپنائیت کے ساتھ ہمارا استقبال کیا گیا وہ کم از کم میرے حیرت انگیز تجربہ تھا –
کھانے کے لئے سلیقے کے ساتھ ایک علیحدہ حصے میں انتظام تھا – نہایت مستعد رضاکار اپنی ذمہ داری ہنستے مسکراتے ادا کرتے دکھائی دے، دیکھتے ہی دیکھتے پنڈال بھر گیا ایسے میں ناظم مشاعرہ نجیب ایوبی صاحب نے اسٹیج پر صدر مشاعرہ جناب محترم انور شعور صاحب کو مسند صدارت پر آنے کی درخواست کی اور پھر دیگر شعرا کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی – مہمان خصوصی سابق ممبر صوبائی اسمبلی اور شہر کی معروف سماجی رہنما جناب یونس بارائی صاحب تھے – مہمان خصوصی نے اپنے خطاب میں جوہر ادب کی ادبی سرگرمیوں کی تعریف کرتے ہوئے اسے مزید آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ نوجوانوں کو آگے بڑھ کر ان معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینا چاہیے، اور جو شمع اردو ادب کے اساتذہ اور ان کے بعد آنے والے شعراء جلائی اور آج کے ادبی حلقوں نے اسے روشن رکھا ہے، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ادب کی مضبوط بنیادوں پر قائم مشاعرے کو چھوٹے بڑے ہر علاقے میں پھیلایا جائے –
پنڈال کے ساتھ لگی کیاری میں رات کی رانی کی بھینی خوشبو نے ماحول کو معطر کر دیا تھا – ایک اور نئی بات یہ تھی کہ مشاعرے سے پہلے سینیر شاعر جناب خالد معین صاحب کا نام پکارا گیا، ایسا لگا کہ ابتداء میں ہی خالد معین صاحب اپنا کلام پیش کردیں گے، مگر جب وہ اسٹیج پر آئے تو اعلان ہو اکہ ہمارے مشاعرے میں سب سے پہلے شرکا کو اردو ادب میں مشاعرے کی روایت، اور آداب مشاعرہ کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی – جناب خالد معین صاحب نے انتہائی اختصار کے ساتھ مشاعرے کی تاریخ اور روایت پر گفتگو کی جو بے حد پسند کی گئی – انھوں نے کہا کہ اردو میں مشاعرے کی تاریخ بہت قدیم ہے، میر سے لیکر غالب اور جدید دور کے شعرا سب مشاعرے کی روایت سے جڑے رہے ہیں، اور وہ ان میں اپنا کلام پیش کرتے اور داد وصول کرتے – مشاعرہ کا دائر? ہماری تھذیب اور معاشرے سے جڑا ہوا ہے – انھوں نے کہا کہ یہ دوطرفہ عمل ہے جس میں ایک طرف شاعر اپنے احساسات اور معاشرے میں موجود مسائل کو اپنے انداز میں بیان کرتا ہے اور دوسری جانب حاضرین ا پنے جذبات کی ترجمانی محسوس ہوتا دیکھ کر اپنے رد عمل کا داد کی صورت میں اظہار کرتے ہیں، جناب خالد معین صاحب نے اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ تابش دہلوی صاحب تالیوں کی بدعت کو ناپسند کرتے تھے لیکن بعد میں ا نہوں نے بھی اس نئی روش کو قبول کرلیا – مشاعرے کی ایک روایت تہذیب کے دائرے میں داد و تحسین بھی ہے – اسی طرح ہوٹنگ اگر تھذیب کے دائرے میں ہو تو بھلی لگتی ہے – مشاعرے کے مقابلے میں دیگر عام مشا غل انسان کی صلاحیتوں کو سلا دیتے ہیں، جیسے ٹی وی، فلم وغیرہ، اس کے برعکس مشاعرہ انسان کی علمی و تھذیبی صلاحیت اور قدیم روایت کو جلا بخشتا ہے – اور علمی تشنگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے –
یہاں میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کراچی کے دیگر منتظمین مشاعرہ بھی اگر اس روایت کو آگے بڑھائیں تو یہ ایک اچھا قدم ثابت ہوگا
خالد معین صاحب کی گفتگو کے بعد مشاعرے کا باقاعدہ آغاز ہوا اور مشاعرے کے پہلے حصے میں میزبان شعرا اور جونئیر شعراء نے اپنا کلام پیش کیا جن میں نوجوان شاعر جنید حسن جنیدی، حکیم عسکری، سید شائق شارق امریکہ سے تشریف لائے ہوئے جناب کوثر فاروقی، جناب را شد مننان اور جناب غازی بھوپالی صاحب نے اپنا کلام پیش کیا اور سامعین سے داد وصول کی –
اب مرحلہ تھا مشاعرے کے دوسرے حصے کا جس کا سب کو بے چینی سے انتظار تھا – نا ظم مشاعرہ جناب نجیب ایوبی نے اپنے تازہ کلام سے مشاعرے کا آغاز کیا اور بالترتیب محترمہ گل افشاں صاحبہ، زاہد عباس، شاہدہ عروج صاحبہ، کامران نفیس، عمران شمشاد، سیما ن نوید، محترمہ یاسمین یاس، خلیل اللہ فاروقی، علا الدین ہمدم، سحر تاب رومانی، خالد معین، جناب را شد نور اور صاحب صدر جناب انور شعور صاحب نے اپنا تازہ کلام اور فرمائشی غزلیں سنا کر محفل کو بام عروج پر پہنچا دیا – اس دوران سامعین کا ذوق و شوق دیدنی تھا – معیاری ہوٹنگ اور اچھے جملے بازی بھی سننے کو ملی –
اسطرح یہ یادگار اور خوبصورت محفل رات گئے تقریبا ایک بجے اپنے اختتا م کو پہنچی – چند گھنٹوں کیلئے قائم اردو ادب کی اس روایت کو جس محبت اور سلیقہ مندی سے سجایا گیا اسے مدتوں یاد رکھا جائے گا – تین گھنٹوں سے زیادہ جاری رہنے والا یہ مشاعرہ ناظم مشاعرہ کے دلچسپ جملوں سے مزید شاندار ہوگیا تھا – مشاعرے کے اختتام پر صدر جوہر ادب جناب خالد خان صاحب نے شعرا کرم اور شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آئندہ کے لئے ششماہی مشاعروں کا اعلان بھی کیا اس موقع پر انہوں نے جوہر ادب کی تمام ٹیم کو اتنا اچھا مشاعرہ منعقد کرنے پر مبارکباد بھی پیش کی – بعد ازاں مہما ن خصوصی یونس بارائی صاحب، انور شعور صاحب اور دیگر شعرا کو گلدستے اور تحائف پیش کے گئے –
مشاعرے کو فیملی ایونٹ بنانے میں منتظمین نے خاص توجہ دی تھی،اس بات کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب اسٹیج پر ” سالگرہ کا کیک ” کاٹا گیا -اور شرکاء میں سے جناب عمران شاہد صاحب اور نوید علی بیگ صاحب کے ناموں کا اعلان ہوا جن کی آج ہی کے دن سالگرہ تھی، اسطرح اس قیمتی دن کو شعرا اور سامعین کی موجودگی میں مزید یادگار بنا د یا گیا –

انتخاب کلام

صاحب صدر جناب انور شعور
چار دن کی حیات ہے میری
کل یہی کائنات ہے میری
میری ساری خرابیوں کی جڑ
ذات بالا صفت ہے میری
راشد نور
دور کھڑا جو دیکھ رہا ہے رستے میں
شاید اس کی آنکھ کا منظر بن جاؤں میں
خالد معین
نہیں دور تک جیت کا شائبہ
مگر ہم سے ہارا نہیں جا رہا
سحر تا ب رومانی
یہ ایسے تو نہیں ہیں دشت آباد
کسی نے زندگی برباد کی ہے
خلیل اللہ فاروقی
یار دیرینہ کوئی دور سے آواز ہی دے
دل کی گلیوں میں بہت دیر سے سناٹا ہے
محترمہ یاسمین یاس صاحبہ
جنہیں بیچ راہ میں چھوڑ کر کیا در بدر،مرے بے خبر
تیری واپسی کے ہیں منتظر تجھے کیا خبر، مرے بے خبر
سیمان نوید
اب ہوا چیختی پھرے شب بھر
شہر تو شام ہی سے خالی ہے
عمران شمشاد
یہ جو تدبیر کر رہا ہوں میں
یہ بھی تقدیر میں لکھا ہے کیا؟
کامران نفیس
عشق ہے کار مالیات جنوں
عمر بھر قرض بے وفا کے بھر
محترمہ شاہدہ عروج صاحبہ
بے تقدس نہیں کیا آنچل
گھر سے باہر بھی جیسے گھر میں رہے
محترمہ گل افشاں
میں کہاں کب کسی سے ڈرتی ہوں
جس کی ہوں بس اسی سے ڈرتی ہوں
زاہد عباس
ہما را نام تھادنیا میں کل تک
جہالت کی بدولت اب نہیں ہے
نجیب ایوبی
میں نے تو بس یونہی کاغذ پہ نظر ڈالی تھی
خود بخود بن گئی تصویر مجھے حیرت ہ

حصہ