خاتونِ کربلا زینبؓ بنتِ علی ؓ

1524

افشاں نوید
آخری قسط

تاریخ کی درد ناک تقریر:

ابن زیاد نے شہداء کے سروں اور اسیرانِ اہلِ بیت کو فوج کے پہرے میں یزید کے پاس دمشق روانہ کردیا۔ تھکا دینے والے سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے اہل بیت دمشق پہنچے تو انہیں یزید کے دربار میں پیش کیا گیا۔ جب امام حسین کا سرِ اقدس سیدہ زینبؓ نے یزید کے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو اہل دربار کو مخاطب کرکے ایک درد ناک تقریر کی۔
ترجمہ: ’’اے یزید: گردشِ افلاک اور ہجوم آفات نے مجھے تجھ سے مخاطب ہونے پر مجبور کردیا۔ یاد رکھ اللہ رب العزت ہمیں زیادہ عرصے تک اس حال میں نہ رکھے گا۔ وہ ہمارے مقاصد کو ضائع نہ کرے گا۔ تو نے ہمیں نہیں اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے۔
آہ! تیرے آدمیوں نے دوشِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوار، اس کے بھائیوں، فرزندوں اور ساتھیوں کو نہایت بے دردی سے ذبح کیا ہے۔ انہوں نے پردہ نشین اہل بیت کی بے حرمتی کی۔ اے کاش تو اس وقت شہیدانِ کربلا کو دیکھ سکتا تو اپنی ساری دولت و حشمت کے بدلے ان کے پہلو میں کھڑا ہونا پسند کرتا۔ ہم عنقریب اپنے ناناؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان مصائب کو بیان کریں گے جو تیرے بے درد ہاتھوں سے ہمیں پہنچے ہیں اور یہ اس جگہ ہوگا جہاں اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے ساتھی جمع ہوں گے۔ ان کے چہروں کا خون اور جسموں کی خاک صاف کی جائے گی۔ وہاں ظالموں سے بدلہ لیا جائے گا۔ حسینؓ اور ان کے ساتھی مرے نہیں ہیں اپنے خالق کے پاس زندہ ہیں اور وہی ان کے لیے کافی ہے۔ وہ عادل حقیقی نبیؐ کے اہل بیت اور ساتھیوں کو قتل کرنے والوں سے ضرور بدلہ لے گا۔ وہی ہماری اُمید گاہ ہے اور اسی سے ہم فریاد کرتے ہیں‘‘۔ سیدہ زینب جنہوں نے رنج و الم کی انتہا دیکھی ہے لیکن ان کا لفظ لفظ ایمان و یقین سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے قریبی عزیزوں اور روئے زمین کی عظیم ترین ہستیوں کو انہوں نے بے دردی سے قتل ہوتے نیز ان کے لاشے تک پامال ہوتے دیکھے ہیں لیکن ان کے خطبات ان کے یقین کا سرمایہ ہیں۔ وہ امت کو بتارہی ہیں کہ دنیا کی زندگی محض امتحان گاہ ہے۔ اور سیدہؓ کا خاندان اس امتحان میں پورا اُتر چکا ہے۔ وہ اپنے نانا کے دین اور ان کے چھوڑے ہوئے مشن کے سامنے سرخرو ہیں کہ گردنیں تو کٹادیں مگر باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ رہتی دُنیا تک مسلمانوں کے لیے یہ پیغام چھوڑ گئے کہ اگر اللہ کی زمین فتنہ و فساد کی زد میں ہو، ریاستی ادارے کو بے توقیر کیا جارہا ہو تو اجتماعیت کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی پیش کرکے اپنے ایمان کی گواہی پیش کرنا چاہیے۔ ایمان کو بچانے کے لیے جان کو قربان کیا جاسکتا ہے۔ وہ سر جس میں لاالٰہ کا سودا سمایا ہوا ہو باطل کے سامنے کٹ تو سکتا ہے جھک نہیں سکتا، بک نہیں سکتا۔
حضرت زینبؓ کی رگوں میں بھی وہی پاکیزہ لہو تھا، ان کی تربیت بھی اسی عظیم الشان گہوارے سے شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے پورے شعور کے ساتھ اس راستے کا انتخاب کیا جس کو جنت کے شہزادے سیدنا امام حسینؓ نے چنا تھا۔ پورے قافلے کے لٹ جانے کے باوجود نہ وہ خوف زدہ ہوئیں، نہ دھمکیاں ان کو مرعوب کرسکیں۔ وہ جب تک زندہ رہیں حق کی گونج بن کر زندہ رہیں۔ وہ اُمت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اہل بیت کی ان عظیم الشان قربانیوں سے اُمت کو نئی زندگی ملی اور وہ نقوش پاملے جن پر چل کر ہی انسانیت فلاح یاب ہوسکتی ہے۔

سفرِ مدینہ منّورہ:

شیر خدا کی بیٹی کی گرج چار سو سُنی اور محسوس کی جارہی تھی۔ یزید خوف زدہ تھا کہ خاندان رسالتؐ کی حمایت میں لوگ اس کے خلاف نہ سربکف ہوجائیں چنانچہ اس نے حضرت نعمان بن بشیر کی حفاظت میں اس قافلہ کو مدینہ منورہ روانہ کرنے میں ہی عافیت جانی۔ سیّدہ زینب کے یہ تاریخی الفاظ روایات میں محفوظ ہیں کہ جب قافلہ چلنے لگا تو انہوں نے فرمایا:
’’محملوں پر سیاہ چادریں ڈال دو تا کہ دیکھنے والوں کو پتہ چل جائے کہ یہ سیدہ النساءؓ کی دل فگار اولاد کا قافلہ ہے‘‘۔
جس روز یہ قافلہ مدینہ منورہ میں پہنچا اس روز مدینہ کی ہر گلی سوگوار تھی۔ ہزاروں لوگ آنسوئوں کے نذرانے لیے سیدہ زینب کے استقبال کو موجود تھے۔ ان مصیبت زدہ مسافروں کی پیشانیوں پر ایک تاریخ درج تھی۔ وہ سراپا الم تھے۔ سیدہ نے بے تابانہ روضہ رسولؐ پر حاضری دی۔ ناناؐ کے روضہ کی چوکھٹ پر سر رکھا تو دل کے بوجھ نے آنسوئوں کی شکل اختیار کرلی۔ ایک نواسی محترم نانا جانؐ کو رستوں کی نہیں منزلوں کی کہانی سنا رہی تھی۔ جنہیں منزلوں کا یقین تھا منزلوں نے خود بڑھ کر راستوں کو سمیٹ دیا تھا اور ان کے قدم چوم لیے تھے۔ سیدہ نے اس وقت صبر کیا تھا جب پتھروں کے کلیجے پانی ہوچکے تھے۔ آپ غم سے نڈھال اہل مدینہ منورہ کو بار بار صبر کی تلقین کرتیں اور آخرت کے گھر کی یاد دلاتیں۔

سفر آخرت:

کربلا کی شہزادی سیدہ زینب بنت علی کے سفر آخرت سے متعلق مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ مدینہ منورہ میں انتقال ہوا جب کہ ایک روایت مصر اور ایک دمشق میں ان کے انتقال سے متعلق ہے۔ مختلف روایات سے ثابت ہے کہ وہ جب تک زندہ رہیں واقعہ کربلا کے مصائب اور درسِ نصیحت کو نہایت فصاحت و بلاغت سے بیان کرتی تھیں۔ وہ مرجع خلائق رہیں۔ لوگ دور دور سے ان کے پاس آتے۔ عامل مدینہ نے اس کی خبر یزید کو دی تو اس نے حکم دیا کہ زینب کو کسی دوسرے شہر میں بھیج دو۔ روایات میں ہے کہ بہی خواہوں کے بے حد اصرار پر وہ مصر تشریف لے گئی تھیں۔
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکمران وقت ایک تنہا عورت سے کیا خوف محسوس کرتا ہے کہ اس کو ملک بدری پر مجبور کرتا ہے۔ ایمان کی طاقت صنف قوی یا صنف نازک نہیں دیکھتی۔ جہاں ایمان ہوتا ہے لازمی اظہار ہوتا ہے۔ سیدہ زینبؓ کا جس درجہ کا ایمان تھا وہ حکمرانِ وقت کی نیندیں اُڑانے کے لیے کافی تھا۔ وہ حق کی للکار تھیں۔ صبر و عزیمت کا پہاڑ تھیں۔ شہداء کے قافلے کی علامت تھیں۔
اسی ایمان کی ایک چنگاری آج چودہ سو برس بعد ڈاکٹر عافیہ کے خاکستر میں ہے تو وقت کی سپر پاور اس ایک عورت سے خوف زدہ ہو کر اس کو کبھی 86 برس کی سزا سناتی ہے تو کبھی جیل خانے کی سختیوں میں اضافہ کردیتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ بھی اسی حسینی قافلے کی للکار ہیں اور وقت کی پیشانی پر رقم ہے کہ اسلام کی تاریخ ہزیمتوں سے عبارت ہے۔ یہاں عورت اور مرد کی تخصیص نہیں ہے۔ اُمت کے سارے مرد بھی رہتی دنیا تک حضرت حاجرہؓ کے نقش پا پر دوڑتے رہیں گے اور طبقہ نسواں کے جذبہ ایمانی کو خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ اُمت کی ان عظیم خواتین کو رہتی دنیا تک کی مسلمان عورتوں کا سلام۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہھم

حصہ