حضرت ہودؑ اور قومِ عاد۔۔۔

2842

سید مہرالدین افضل
انسان کی غلط فہمی اور نادانی: عام طور پر انسان جب خدا کے بارے میں سوچتا ہے، تو سمجھتا ہے کہ وہ بھی انسانوں کی طرح اپنے فیصلے کرتا ہوگا…کیونکہ انسان جب دیکھتا ہے کہ کسی صاحبِ اقتدار و اختیار کو چیلنج کیا جاتا ہے، یا اُس کے حکم کی نافرمانی کی جاتی ہے، تو وہ فوراً نافرمانوں پر اپنے عذاب کا کوڑا برسا دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ کرے تو کمزور سمجھا جاتا ہے اور بالآخر اس کا اقتدار ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن جب لوگ خدا کی نافرمانی کرتے ہیں، اور رسول کی بات نہیں مانتے، تو کچھ نہیں ہوتا بلکہ دعوت دینے والا اکثر زیادہ مشکل اور پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے… اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی عذاب آنے والا نہیں، کوئی سزا ملنے والی نہیں، یہ صرف ڈراوے اور دھمکیاں ہیں جو ہمیں دی جارہی ہیں۔ حضرت ہود علیہ السلام کو ایک عرصہ گزر گیا دعوت دیتے ہوئے، لیکن قوم ہے کہ اُس پر اثر ہی نہیں ہوتا، الٹا وہ پیغمبر سے کہتی ہے ’’کیا تُو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں بہکا کر ہمارے معبودوں سے برگشتہ کردے… اچھا! تو لے آ اپنا وہ عذاب جس سے تُو ہمیں ڈراتاہے اگر واقعی تُو سچا ہے‘‘ (سورۃ الاحقاف آیت 22)۔ حضرت ہود علیہ السلام نے انہیں جواب دیا ’’اس کا علم تو اللہ کو ہے، میں صرف وہ پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں جسے دے کر مجھے بھیجا گیا ہے۔ مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ جہالت برت رہے ہو‘‘(سورۃ الاحقاف آیت 23)۔ نوٹ کیجیے، جواب میں یہ نہیں کہا کہ تم عذاب ہی کے لائق ہو! اور یہ کہ ابھی تم پر عذاب آتا ہے!!! بلکہ حضرت ہودؑ نے انہیں جواب دیا کہ اس کا فیصلہ کرنا میرا کام نہیں ہے کہ تم پر کب عذاب نازل کیا جائے اور کب تک تمہیں مہلت دی جائے۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے… البتہ تم نادان ہو جو میری اس تنبیہ کو مذاق سمجھ رہے ہو، اور کھیل کے طور پر عذاب مانگ رہے ہو۔ افسوس!!! تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ خدا کا عذاب کیا چیز ہوتی ہے… اور تمہاری حرکتوں کی وجہ سے وہ تمہارے کتنے قریب آ چکا ہے۔ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کو اس بات کی کوئی جلدی نہیں ہوتی کہ نافرمانوں پر عذاب آئے، بلکہ وہ ان لوگوں پر افسوس کرتے ہیں اور انہیں نادان ہی سمجھتے ہیں، اور اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ ’’پھر جب انہوں نے اس عذاب کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھا تو کہنے لگے ’’یہ بادل ہے جو ہم کو سیراب کر ے گا‘‘… نہیں، بلکہ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔ یہ ہوا کا طوفان ہے جس میں دردناک عذاب چلا آرہا ہے، جو اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر ڈالے گا۔ آخرکار ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے رہنے کی جگہوں کے سوا وہاں کچھ نظر نہ آتا تھا۔‘‘ (سورۃ الاحقاف آیت 24۔25)
قوم ِعاد پر عذاب: اس ہوا کے لیے جو قومِ عاد پر چلی، قرآن میں ’’ریح صرصر‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ لفظ بہت تیز طوفانی ہوا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ دوسرے مقام پر اس ہوا کے لیے لفظ ’’عقیم‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بے خیر ہوا تھی… نہ خوشگوار تھی، نہ بارش لانے والی، نہ درختوں کو پھل دینے والی تھی، بس اچانک زور کی آندھی اُٹھی۔ یہ لوگ دور سے اس کو اپنی وادیوں کی طرف آتے دیکھ کر سمجھے کہ گھٹا چھائی ہے۔ خوشیاں منانے لگے کہ اب خوب بارش ہوگی۔ مگر وہ اللہ کا عذاب تھا۔ آٹھ دن اور سات راتوں تک مسلسل ایسی طوفانی ہوا چلتی رہی جس نے ہر چیز کو تباہ کرڈالا۔ اس کے زور کا یہ عالم تھا کہ اس نے آدمیوں کو اُٹھا اُٹھا کر پھینک دیا۔ اس کی گرمی و خشکی کا یہ حال تھا کہ جس چیز پر گزر گئی اسے بوسیدہ کرکے رکھ دیا۔ اور یہ طوفان اُس وقت تک نہ تھما جب تک اس ظالم قوم کا ایک ایک متنفس ختم نہ ہوگیا۔ بس ان کی بستیوں کے کھنڈر ہی ان کے انجام کی داستان سنانے کے لیے کھڑے رہ گئے۔ اور آج کھنڈر بھی باقی نہیں ہیں۔ پورا علاقہ ایک خوفناک ریگستان بن چکا ہے جہاں کسی کو آج بھی جانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ قرآن مجید میں اس عذاب کی جو تفصیل آئی ہے وہ یہ ہے کہ: ’’یہ ہوا مسلسل سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی۔ اس کے زور سے لوگ اس طرح گر گر کر مرگئے اور مر مر کر گر پڑے جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے گر پڑے ہوں‘‘ (الحاقہ آیت 7)۔ ’’جس چیز پر سے بھی یہ ہوا گزر گئی، اس کو بوسیدہ کرکے رکھ دیا‘‘ (الذاریات، 42)۔ ’’جس وقت یہ ہوا آرہی تھی اُس وقت عاد کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے کہ خوب گھٹا گِھر کر آئی ہے، بارش ہوگی اور سوکھے دھانوں میں پانی پڑ جائے گا۔ مگر وہ آئی تو اس طرح آئی کہ اس نے ان کے پورے علاقے کو تباہ کرکے رکھ دیا۔‘‘ (الاحقاف، 24۔25)
مشہور یہ ہے کہ جس دن یہ عذاب شروع ہوا وہ بدھ کا دن تھا۔ اسی سے لوگوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ ’’بدھ کا دن منحوس ہے اور کوئی کام اس دن شروع نہ کرنا چاہیے‘‘۔ علامہ آلوسی کہتے ہیں ’’سارے دن یکساں ہیں، بدھ کی کوئی تخصیص نہیں۔ رات دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں ہے جو کسی کے لیے اچھی اور کسی دوسرے کے لیے بری نہ ہو۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کسی کے لیے موافق اور کسی کے لیے ناموافق حالات پیدا کرتا رہتا ہے‘‘۔
ذرا تصور کیجیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہ زمانہ کیسا سخت تھا جب کفارِ مکہ انکار پر ڈٹ گئے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے جھٹلا دیا، اب ہم پر عذاب کیوں نہیں آتا؟ اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے بار بار تنبیہات نازل ہورہی تھیں۔ ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وقت یہ اندیشہ گھلائے دیتا ہوگا کہ کہیں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم نہ ہوجائے اور وہ آخری گھڑی نہ آجائے جب کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب میں پکڑ لینے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ’’میں دیکھتا ہوں کہ آپؐ بوڑھے ہوتے جارہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے‘‘؟ جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھ کو سور ۃہود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے‘‘۔ آج بادل آتے ہیں تو ہم خوشی سے جھوم جاتے ہیں، ہمیں یہ خوف ہی نہیں ہوتا کہ اس میں اللہ کا عذاب بھی ہوسکتا ہے۔ ایک تابعی کی روایت ہے کہ: حضرت انسؓ کے زمانے میں ایک کالی آندھی آئی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ اے ابوحمزہؓ کیا ایسی کالی اور اندھیری آندھیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی آپ لوگوں پر آتی تھیں؟ انہوں نے فرمایا ’’اللہ کی پناہ، وہاں تو یہ حال تھا کہ ذرا ہوا تیز ہوجاتی تو ہم قیامت کے خوف سے مسجد کی طرف دوڑ پڑتے تھے۔‘‘
اس غفلت اور نادانی میں فرد بھی مبتلا ہوتا ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ نافرمانیاں کیے چلا جارہا ہے اور اس کی کوئی پکڑ نہیں ہوتی، بلکہ بعض اوقات نافرمانیوں کی راہ ہموار ہوتی چلی جاتی ہے، اور یہ کسی فرد کے لیے انتہائی بدبختی کی علامت ہے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 83 میں ارشاد ہوا ’’انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دوچار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ یہ سب کچھ اسے اس کی اہلیت کی وجہ سے ملا ہے اور اس کا حق یہی ہے کہ یہ سب کچھ اس کو ملے… اور پھر وہ اللہ کی اطاعت و بندگی سے منہ موڑتا ہے اور اس کے آگے جھکنے کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔
سورہ ہود آیت نمبر10۔ 11 میں ارشاد ہوا: ’’اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کردیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اُسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دِلَدّرپار ہوگئے، پھر وہ پھُولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔‘‘
انسان کی سطحی سوچ، غور و فکر کی کمی اور آج سے آگے نہ دیکھنے کی کمزوری کو ہم روزانہ کی زندگی میں ہر وقت دیکھتے ہیں۔ دور کیوں جائیں اسے ہم اپنے نفس کا احتساب کرکے خود اپنے اندر بھی محسوس کرسکتے ہیں۔آج خوش حال اور طاقتور ہیں تو اکڑ رہے ہیں اور فخر کررہے ہیں۔ ہر طرف ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے، اور خیال تک نہیں آتا کہ کبھی اس بہار پر خزاں بھی آسکتی ہے۔ کل کسی مصیبت کے چکر میں پھنس گئے تو بلبلا اُٹھے، حسرت اور ناامیدی کی تصویر بن کر رہ گئے، اور خدا سے شکوہ اور شکایت کرکے غم غلط کرنے لگے۔ پھر جب برا وقت گزر گیا اور اچھے دن آئے تو وہی اکڑ، وہی ڈینگیں اور نعمت کے نشے میں وہی سرمستیاں پھر شروع ہوگئیں… جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا تو انسان کی گمراہیوں اور بدکاریوں کے باوجود صرف اپنے رحم و کرم سے سزا میں تاخیر کررہا ہے تاکہ انسان کسی طرح سنبھل جائے۔ مگر وہ اس مہلت کے زمانے میں یہ سوچتا ہے کہ میری خوش حالی پائیدار ہے… اور میرا گلشن سدا بہار ہے… اب اس پر خزاں آنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں۔
اور مشکل حالات بھی اس لیے آتے ہیں کہ انسان ہوش کے ناخن لے اور سنبھل جائے، لیکن انسان اس موقع پر اپنی غلط کاریوں پر نظرثانی اور نئی امید کے ساتھ اپنی اصلاح کرنے کے بجائے… مایوس ہوکر ناشکر ی کرنے لگتا ہے۔ اس عیب سے بچے ہوئے وہی لوگ ہیں جو صبر سے کام لیتے ہیں، جو زمانے کے بدلتے ہوئے حالات میں اپنا ذہنی توازن برقرار رکھتے ہیں۔ اچھے حالات ہوں اور انہیں دولت، اقتدار اور نام وری حاصل ہو تو بڑائی کے نشے میں بہکتے نہیں… اور اگر مشکلات آئیں تو اپنی انسانی خوبیوں کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔ خدا کی طرف سے آزمائش خواہ نعمت کی صورت میں آئے یا مصیبت کی صورت میں، دونوں صورتوں میں بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پْورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ