تتلی اور شاہ جی

665

قسط نمبر 3۔
پہلے تو انھوں نے باندی کو خوب ڈرایا دھمکایا پھر اس سے ہار بھی لے لیا، لائے ہوئے زیورات بھی قبضے میں کئے اور نقدی بھی۔ سب کو بستر کے نیچے دبا دیا اور پھر جو سکون کی نیند آئی ہے تو کوئی ڈھول بھی پیٹے تو آنکھ نہ کھلے۔
صبح چار بجے سے کچھ پہلے باد شاہ کے حکم کے مطابق سپاہی انھیں لینے پہنچے تو پورا کمراہ ان کے خراٹوں سے گونج رہا تھا۔ سپاہی الٹے قدموں لوٹ گئے اور بادشاہ سے سارا احوال کہہ سنایا۔ باد شاہ نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے شاہ صاحب کو علم ہوگیا ہے کہ چور کون ہے ورنہ جس کو صبح ہی صبح پھانسی کی سزا دی جانی ہو وہ کیسے سو سکتا ہے لہٰذا شاہ صاحب کو سونے دو یہاں تک کہ وہ خود نہ اٹھ جائیں۔
شاہ جی بیدار ہو چکے تھے۔ ان کے بیدار ہوتے ہی خدمتگار حاضر ہو گئے۔ شاہ جی کو ایک ہی دھن سوار تھی کہ وہ اپنی تتلی سے جاملیں۔ اللہ نے نہ صرف جان بچا لی تھی بلکہ چندیا نے ان کو بہت کچھ دیا تھا۔ ہاتھ جوڑ کر جان کی امان مانگی تھی۔ شاہ جی وعدہ کر چکے تھے کہ اس کا نام تک نہ آئے گا۔ نہادھونے اور تاشتے سے فارغ ہو کر وہ دربار کی جانب چل دیئے۔ وہ اتنی آندھی طوفان کے ساتھ دربار میں داخل ہوئے کہ محافظوں نے تلواریں سونت لیں لیکن باد شاہ نے سب کو اشارے سے منع کیا کہ وہ شاہ جی کو کچھ نہیں کہیں گے۔ شاہ جی عین بادشاہ کے سامنے رکے، چوغے سے ہار نکالا اور شاہ کی گود میں پھیک دیا۔ بادشاہ حیرانی کے عالم میں کھڑا ہو گیا۔ اس کے خواب و خیال میں بھی یہ نہیں تھا کہ شاہ جی اپنے علم کے ذریعے ہار بھی حاصل کر لیں گے۔ سارا دربار حیرت کی تصویر بنا ہوا تھا۔ بادشاہ کا خیال تھا کہ شاہ جی کسی کا نام لیں گے لیکن یہاں تو کرشمہ ہی کچھ اور تھا۔ فرط عقیدت میں بادشاہ نے شاہ جی کے ہاتھ چومنا شروع کردیئے اور پورے دربار میں اعلان کیا شاہ جی انعام کے تو مستحق ہیں ہی، لیکن یہ ایک ہفتے میرے مہمان رہیں گے۔ دربار بے شک داد تحسین سے گونج اٹھا لیکن شاہ جی پر تو جیسی آسمان کی بجلی گرگئی۔ وہ شادی کے بعد سے اب تک ایک رات بھی اپنی تتلی سے دور نہیں رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ اس کارنامے کے بعد انھیں گھر جانے کی اجازت مل جائے گی۔ باد شاہ کا حکم تھا اس لئے شاہ جی کر بھی کیا سکتے تھے۔
شاہ جی نے کہا کہ وہ ان کی تتلی تک یہ پیغام پہنچادیں اور جو کچھ میں گھر پہنچانے کیلئے دوں اسے دیکھے بنا تتلی کے حوالے کیا جائے۔ بادشاہ تو ان کا مرید بن چکا تھا۔ چنانچہ ان کی خواہش کی تعمیل کی گئی۔
ہفتہ تو صدیوں سے بھی بڑا لگنے لگا تھا۔ شاہ جی کو تتلی کے علاوہ کچھ بھی تو یاد نہیں تھا۔ شاہی عیش و آرام کانٹوں کی سیج لگتا تھا۔ پانچویں دن ہی کھوپڑی گھوم گئی۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، ایک موٹا سا ڈنڈا ہاتھ میں پکڑ کر دربار کی جانب یہ کہتے ہوئے بڑھیکہ دیکھتا ہو بادشاہ مجھے تتلی کے پاس جانے سے کیسے روکتا ہے۔ آج تھا بھی دربار خاص۔ غیر ملکی وفود بھی آئے ہوئے تھے۔ شاہ جی کو اس سے کیا مطلب ہو سکتا تھا۔ انھیں تو تتلی کے پاس جانے کی پڑی تھی۔ شاہ جی ایک لٹھ ہاتھ میں تھامے دربار میں داخل ہوئے تو سارے محافظ کھڑے ہوگئے۔ اپنی اپنی تلواریں میان سے نکال کر راہ روکنے کی کوشش کی تو باد شاہ نے گرجدار آواز کے ساتھ سب کو بٹھا دیا۔ شاہ صاحب کا عالم یہ کہ جیسے وہ آج شاہ کا ہی خاتمہ کر کے رکھ دیں گے۔ اس سے پہلے کہ بادشاہ اور درباری کچھ سمجھ سکیں، شاہ جی نے پوری قوت کے ساتھ ڈنڈا گھمادیا۔باد شاہ نے اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کی۔ ڈنڈا بادشاہ کے بیش قیمت تاج پر پڑا۔ اور تاج دور جا پڑا۔ جونہی تاج زمین پر گرا ایک نہایت زہریلا سانپ جو تاج پر موجود تھا وہ دور جاکر گرا۔ بادشاہ کی تحسین آمیز آواز دربار میں گونجی۔ دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ شاہ جی یونہی ڈنڈا لیکر دربار میں نہیں آئے ہیں۔ ان پر آشکار ہوچکا تھا کہ ایک نہایت زہریلا سانپ میرے تاج میں چھپا ہوا ہے۔ وہ اگر دربار میں داخل ہوکر بتاتے تو کسی کو کیا یقین آتا۔ یقین کرتے کرتے وہ سانپ مجھے ڈس لیتا۔ واہ شاہ جی آپ تو واقعی روشن ضمیر ہیں۔ صورت حال ایسی ہوگئی تھی کہ شاہ جی تھوڑی دیر کیلئے یہ بات ہی بھول چکے تھے کہ وہ دربار میں آئے ہی کیوں تھے۔ اس سے قبل کہ شاہ جی کچھ کہتے باد شاہ نے فرط خوشی میں اعلان کیا کہ اب تو میں شاہ جی کو ایک ہفتے کیلئے اور مہمان رکھوں گا۔ شاہ جی کیلئے بڑی مشکل صورت حال تھی لیکن بادشاہ کی مرضی کے آگے وہ کر ہی کیا سکتے تھے۔
جاری ہے

حصہ