برصغیرمیں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

947

قسط نمبر 181
نواں حصہ
اب آئیے اس نکتے کی جانب کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ آج دورِ حاضر کے مجدد کہے جاسکتے ہیں کہ نہیں؟ یہ بحث اپنی جگہ ایک طویل گفتگو کی متقاضی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے اب تک لکھے جانے والے مضامین میں ہی اس ’’اہم نکتے‘‘ کا جواب بھی موجود ہے۔ اگر آپ ابتدائی مضامین کو ازسرنو اپنے ذہن میں تازہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنے سلسلۂ مضامین کے آغاز میں حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ کا تذکرہ کیا ہی اس لیے تھا کہ شہنشاہ اکبر کے دور کی تمام خرافات اور اسلام کی تعلیمات میں بگاڑ کی تفصیل آپ کے سامنے رکھی جائے، اور پھر وہ حالات آپ کے سامنے تازہ رہیں جب کہ اسلام واقعتاً اجنبی ہوچکا تھا، یا اگر موجود بھی تھا تو صرف کچھ عبادات کی حد تک! (اور ان عبادات کا مجموعی معاملہ بھی ہندوستانی معاشرے میں رچ بس کر اصل تعلیماتِ اسلامی سے یکسر مختلف ہوچکا تھا) ایسے نازک ترین دور میں حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ نے اسلام کی اصل تعلیمات کو ازسرنو تازہ کرنے کی جدوجہد شروع کی اور قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، اور یہ ان ہی کی تعلیمات اور جدوجہد کا اثر تھا کہ خاندانِ مغلیہ ہی سے اسلام کو اسلامی تعلیمات کے محافظ بھی ملے اور مجاہدین بھی میسر آئے۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دور میں ’دینِ اکبری‘ کے نام پر بہت سے ہندوانہ رسوم و رواج اور بدعتی و لادین عقائد کو اسلام میںگڈمڈ کردیا گیا تھا، جس نے اسلام کا اصل تصور ہی ختم کردیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام اور ہندومت میں تفرق مشکل ہوگئی۔ مجدد الف ثانیؒ کے مطابق دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔ آپ اپنے ایک مکتوب میں بدعات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’لوگوں نے کہا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ۔ بدعت دافع سنت ہے، اس فقیر کو ان بدعات میں سے کسی بدعت میں حسن و نورانیت نظر نہیں آتی، اور سوائے ظلمت اور کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔‘‘
جہانگیر کے دور تک صورتِ حال یہ ہوچکی تھی کہ السلام علیکم کی جگہ ’’آداب‘ نے لے لی تھی، جبکہ حکمرانوں کی تعظیم کے لیے تعظیمی سجدہ لازم تھا۔ تعظیمی سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں آپ کو گوالیار کی جیل میں قید بھی کردیا گیا تھا، مگر آپ اپنے مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے اور جہانگیر کو اپنی غلطی پر نادم ہوکر آپ کو رہا کرنا پڑا۔
مجدد الف ثانیؒ کے بعد جو پونے چار سو سال گزرے، اُن میں بھی اسلام دوبارہ بدعتوں اور ہندوانہ رسومات کی زد میں آنا شروع ہوا، مگر نظریاتی محاذ پر اسلام شدید ترین خطرے سے دوچار رہا۔ اگرچہ نماز روزے کی اجازت تھی مگر طاغوتی نظام کو چیلنج کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ ایسے میں 1903 عیسوی میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس دنیا میں آئے۔ بیسویں صدی کی ابتدا میں اسلامی تعلیمات کو ایک نئے مجدد و مصلح کی ضرورت تھی جو قدرتِ الٰہی نے مولانا مودودیؒ کی صورت میں فراہم کیا۔ آپ بیسویں صدی کے مؤثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ آپ کی فکر، سوچ اور علمی محاذ پر اپنی تصانیف و دلائل کی بنیاد پر کیے جانے والے کام سے عالمِ اسلامی میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ بلاشبہ آپ بیسویں صدی کے عظیم دانشور اور مجدد کے روپ میں سامنے آئے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتیؒ (جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے) کے سلسلے سے ہیں۔ اسی لیے آپ کا خاندان ’خواجہ مودود چشتی‘ کے نام سے منسوب ہوکر مودودی کہلایا۔
انیسویں صدی میں جب انگریز کے قدم ہندوستان میں پہنچے اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کی ریاستوں میں قدم جمانے شروع کیے تو وہ اپنے ساتھ وہاں کی تہذیب اور مغربی افکار بھی لائے۔ یونانی نظریات اور فلسفے نے برصغیر میں اپنا کام دکھانا شروع کیا۔ ہرچند کہ دینِ اسلام میں یونانی فلسفے اور الحادی نظریات کے مقابلے میں مکمل دلائل موجود تھے، مگر ان کو بیان کرنے والی زبانیں اور ذہن مفقود تھے۔ اسلامی تعلیمات اپنی اصل روح میں موجود ہی نہیں تھیں۔
خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوچکا تھا، جابرانہ نوآبادیاتی نظام نے انسانی ذہنوں کو غلامی کا عادی بنا ڈالا تھا۔ ایسے میں1857ء کی جدوجہدِ آزادی شروع ہوئی جس کے اثرات بہت دیر تک قائم رہے، اور پھر اسی جدوجہدِ آزادی کے بطن سے انگریز سے آزادی کا شرارہ پھوٹا۔ عالمی جنگوں نے پوری دنیا کی معاشیات و سماجیات کو بد ل کر رکھ دیا، ہندوستان بھی اس کا نشانہ بنا۔ نئے نظریات در آئے، بادشاہت کی جگہ جمہوری نظام نے لے لی، معاشیات میں سرمایہ داری نے قدم جمائے، اور پھر عالمی معاشی بحران کے اثرات نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مغربی دنیا سرمایہ دارانہ نظام کی پناہ میں آگئی۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ اسی سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی اقدار اور سماجیات کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔
انیسویں اور بیسویں صدی اسلام کے لیے عظیم چیلنجز لے کر آئی۔ ان حالات میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے سامنے ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ محض اسلامی عبادات کے تصور کی بات کرتے جیسے کہ ماضی کے کچھ علماء کرام نے کی۔ لیکن مولانا مودودیؒ نے دورِ حاضر کے تمام چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے بیک وقت کئی محاذوں پر کام کیا۔
آپ نے سب سے پہلے اپنے اردگرد اُن صالح افراد کو جمع کیا جن کو بنیاد بناکر صحیح اسلامی سوچ و عقائد پر مبنی ’جماعت الٰہیہ‘ کی تشکیل کی۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی جماعت اور عوام الناس کی فکری رہنمائی بھی کرتے رہے۔ معاشی، اقتصادی، تہذیبی و تمدنی اور جدید نظریات کے مقابلے پر دلائل کے ہتھیار سے لیس ہوکر مغربی چیلنجز کا جواب اپنی تصانیف کے ذریعے دیتے رہے۔ اس دوران آپ اس بات سے بھی غافل نہ تھے کہ اس سوچ کو عالم اسلام کے کونے کونے تک پھیلایا جائے، چنانچہ اپنے رفقاء میں سے ایسے افراد تیار کیے جو اسلام کی حقیقی دعوت کو لے کر دنیا کے مختلف علاقوں میں جاکر کام کرسکیں۔
اور پھر انتہائی قلیل دستیاب وسائل کے باوجود اس کام کو سرانجام دیا۔ پچھلے تمام مضامین میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ان کارناموں کو خاصی تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔
آپ محض 18سال کی عمر میں مدرسہ دیوبند کے رسالہ ’الجمیعہ‘ کے ایڈیٹر بنے، آپ کے مضامین ’الجہاد فی الاسلام‘ قسط وار الجمیعہ میں شایع ہوتے رہے۔ ان مضامین نے علماء دیوبند سے خوب داد حاصل کی۔ پھر ایک وقت ایسا آیا جب 1928ء میں دیوبند کے کچھ علماء نے کانگریس اور گاندھی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو مولانا مودودیؒ نے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے الجمیعہ کی ادارت سے معذرت کرلی۔
اب آپ کے ذہن میں وسیع تر بنیاد پر تحریک بپا کرنے کا منصوبہ تھا، جس کو روبہ عمل لانے کے لیے 1932ء میں ’ترجمان القرآن‘ کا آغاز کیا۔ اس رسالے کی بدولت آپ پڑھے لکھے طبقے میں اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی اسلامی انقلاب کا پیغام عام کرتے رہے۔
آپ نے نہ صرف اسلام کو ہر دور کے لیے ایک مکمل نظام زندگی کے طور پر پیش کیا، بلکہ ناقابلِ تردید دلائل سے اس بات کو ثابت کیا کہ فریضۂ اقامتِ دین مسلمان کی زندگی کا اہم ترین فریضہ ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم کو عامۃ الناس اور خاص کر مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے آسان ترین اسلوب میں قرآن کی تفسیر لکھی، اور پھر ایک ایسی اسلامی جماعت تشکیل دی جس نے طاغوت کے نظام کو برملا چیلنج کیا۔
مغربی نظریات کے مقابلے میں دلائل کی بنیاد پر اسلامی ریاست اور حکومت کے خدوخال کو بیان کیا اور درجنوں کتابیں تحریر کرکے دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کروا کر دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دیں۔
معاشیات و اقتصادیات کے انسانی نظام کے رد میں اسلامی معاشی نظام کے متعلق بنیادی اسلامی فکری مواد پیش کیا۔ ان کارہائے نمایاں کی بنیاد پر آپ نے مسلم تعلیم یافتہ طبقے کو مغربی تہذیب کی یلغار سے بچاکر الحادی قوتوں کے مقابل کھڑا کردیا، جس کے نتیجے میں عالم اسلام میں فکری کشمکش کی ابتدا ہوئی۔ (الحمدللہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پورے عالم اسلام میں مولانا مودودیؒ کی فکری رہنمائی کی بدولت اعلائے کلمۃ الحق بپا ہوچکا ہے)
مولانا مودودیؒ کے کارناموں کے حوالے سے میاں طفیل محمد مرحوم کا جواب بہت اہم ہے۔ جب اُن سے سوال کیا گیا کہ آپ کے نزدیک مولانا کا سب سے اہم کارنامہ کیا تھا؟
میاں صاحب جواب دیتے ہیں کہ ’’میرے نزدیک مولانا کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے شخصیت پرستی کی جڑ کاٹ کر رکھ دی‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’امر واقع یہ ہے کہ مجھے بھی مولانا مودودی سے جو تعلق ہے وہ اُن کی فکر اور اُن کی ذات سے ہے، ان کی مجسم شخصیت سے نہیں! اسی چیز کا نتیجہ تھا کہ ان کی زندگی میں بھی اگر کوئی چیز مجھے کھٹکتی تو اس پر جتنا شدید ردعمل میرے اندر پیدا ہوا ہے، شاید کسی اور میں نہ پیدا ہوا ہوگا۔ میں نے بسا اوقات ایسی چیزوں پر بڑی شدت کے ساتھ اُن کے سامنے اظہار بھی کیا۔ اپنے طرزعمل کے بارے میں مجھے بعد میں ندامت بھی محسوس ہوئی کہ میں نے اپنے حقِ اختلاف کے اظہار میں ضرورت سے زیادہ شدت برتی، لیکن فی الحقیقت یہ اظہار، اُن کی دی ہوئی تربیت اور میری اُن سے محبت اور اخلاص ہی کا نتیجہ ہوتا تھا‘‘۔
حوالہ: مشاہدات۔ صفحہ 314: از میاں طفیل محمد
حوالہ: مضمون سید مودودی… شخصیت، یادیں اور کارنامے۔ از پروفیسر غلام اعظم (جاری ہے)

حصہ