وادی مہران سے وادی بولان تک

807

شیخ محمد انور
زندگی کی ہزاروں خواہشوں میں سے ایک خواہش یہ بھی تھی کہ وطن عزیز کی قدرتی حسن اور معدنیات سے مالامال وادی بولان کی سیر کی جائے، اور پھر اللہ ربُ العزت کے فضل و کرم سے بالآخر وہ دن آپہنچا جس کا ایک طویل عرصے سے انتظار تھا۔ مجھے ریلوے کی اجتماعی سوداکار پریم یونین کے ایک پروگرام میں مدعوکیاگیا تھا۔ میں اپنے دوستوں ملک محمد جمیل، چودھری خالد محمود، فیاض شہزاد، اشرف علی، طارق نیاز، صوفی رمضان باوا، محمد انور خان، ڈاکٹر اشتیاق، دائود الرحمن اور تبریز عباسی کے ہمراہ جعفر ایکسپریس سے لاہور سے کوئٹہ جانے کے لیے ٹھیک 14:50 بجے روانہ ہوا۔ مقررہ وقت پر گارڈ نے وسل دی اور انجن فراٹے بھرتا ہوا روانہ ہوگیا۔ لاہور ریلوے اسٹیشن پر ساتھیوں نے بہت محبت کے ساتھ ہم سب کو رخصت کیا۔ ہماری ٹرین مختلف اسٹیشنوں سے ہوتی ہوئی صبح 6 بجے کے قریب وادی مہران کے آخری اسٹیشن جیکب آباد ریلوے اسٹیشن پہنچی۔ سورج ابھی آسمان سے جھانک رہا تھا، ہر طرف خاموشی طاری تھی۔ جیکب آباد ریلوے اسٹیشن پر لگے بینر اور کتبے دیکھ کر ہم سب دنگ رہ گئے۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ صبح6 بجے ہمیں اتنی پذیرائی ملے گی۔ پورے پلیٹ فارم پر ملازمین کا سیلاب اُمڈ آیا تھا۔ فلک شگاف نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ پلیٹ فارم پر کھڑے سیکڑوں ملازمین کے جم غفیر نے ہمیں گھیرے میں لے لیا اور پھر وہاں کے لوگوں نے ڈھول کی تھاپ پر سندھی رقص کرنا شروع کردیا۔ ملازمین اور پریم یونین کے کارکنان فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ ہر آنکھ میں ایک اُمید اور عزم کی جھلک نظر آرہی تھی۔ خصوصاً پی ایم پیکیج میں کام کرنے والے نوجوانوں اور ٹی ایل اے ملازمین نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ سب کا ایک ہی نعرہ تھا کہ ہمیں انصاف کب ملے گا؟ ہمیں کب مستقل کیا جائے گا؟ ہم ہر روز جب گھر جاتے ہیں تو ہماری بوڑھی ماں ایک ہی سوال کرتی ہے کہ بیٹے تم کب پکے ہوگے؟ سکون اس گھر کا مقدر کب بنے گا؟ دوسری جانب ریلوے کے گینگ مینوں کا سوال تھا کہ اس جدید دور میں بھی ہمارے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کیوں ہورہا ہے؟ ہمیں کیوں بھیڑ بکریوں کی طرح ایک سیکشن سے دوسرے سیکشن میں بھیج دیا جاتا ہے؟ نہ ہمیں معقول معاوضہ ملتا ہے، نہ ہی ٹی اے ڈی اے دیا جاتا ہے، اور نہ ہی دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ اپنی بساط کے مطابق بڑی حکمت اور دانائی کے ساتھ ان لوگوں کو سمجھایا کہ ان شاء اللہ وہ صبح جلد طلوع ہوگی جس دن آپ لوگوں کے مسائل حل ہوں گے۔ ہم انہی مسائل کے حل کے لیے نکلے ہیں، کل کوئٹہ میں ایک تاریخی پروگرام ہوگا۔
اب ہماری اگلی منزل سبی ریلوے اسٹیشن تھی۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ٹرین تقریباً 07:30 بجے جیکب آباد سے سبی کے لیے روانہ ہوئی تو وہاں کے مزدوروں نے طمطراق سے رخصت کیا۔ ٹریک کے دونوں جانب ریلوے پولیس اور ایف سی کے جوان ہاتھوں میں جی تھری رائفلیں لے کر ٹرین کے ساتھ ساتھ پٹرولنگ کررہے تھے، جبکہ ٹرین کے ڈبوں کے دروازوں پر مسلح ایف سی اور ریلوے پولیس کے جوان کھڑے تھے۔ جگہ جگہ گینگ مین اور گینگ پٹرولر اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے تھے اور ٹرین پر پھول بھی نچھاور کررہے تھے۔ ان سب کا یہی مقصدِ حیات تھا کہ پاکستان ریلوے کے مسافروں اور اس ٹرین کو بحفاظت منزلِ مقصود تک پہنچانا ہے۔ جیسے ہی ٹرین سبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچی، ایسا محسوس ہوا کہ ریلوے ملازمین کے ساتھ ساتھ سبی شہر کے عوام بھی اسٹیشن پر اُمڈ آئے ہیں۔ ہر کوئی پاکستان زندہ باد، پریم یونین زندہ باد، حافظ سلمان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ نہ جانے سبی کے عوام اس شدید گرمی میں پھولوں کی تازہ پتیاں اور ہار کہاں سے لے آئے! ہمارا اس اسٹیشن پر استقبال دیدنی تھا۔ جیسے ہی ہم سبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچے، لوگ دیوانہ وار ہماری کوچ کی طرف لپکے، ہمیں کوچ سے نکال کر سرخ گلاب کے لمبے لمبے ہاروں سے لاد دیا۔ ہر شخص ہمیں ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے ہم کوئی بہت بڑی مہم سرکرنے جارہے ہیں۔ ٹی وی چینلز اور میڈیا والے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ وہ ہم سب کے تاثرات لے رہے تھے، ویڈیو بنا رہے تھے جیسے ہم کسی بڑے معرکے کے ہیرو ہیں۔ ہمیں سبی میں جیکب آباد کی نسبت بہت بڑا خیرمقدم نظر آیا۔ سبی ریلوے اسٹیشن پر ریاض باڑہ، مجیب سنجرانی، عبداللہ بھٹو اور ایوب باڑہ مزدوروں اور عوام کی قیادت کررہے تھے۔ دُکھ کی بات یہ کہ اسی دوران مجھے کچھ خواتین نے آکرکہا کہ میرا خاوند ڈیوٹی کرتے ہوئے اسی ٹریک پر شہید ہوگیا لیکن ابھی تک مجھے وزیراعظم اسکیم کے تحت پلاٹ کی رقم ادا نہیں کی گئی اور نہ ہی ہمارے بچوں کو نوکریاں ملیں، ہم اپنی فریاد لے کر کس کے پاس جائیں، ہماری فریاد کون سنے گا؟ استقبال کا ماحول یکدم غمگین ہوگیا، بہنوں کو تسلی دی۔ ریلوے اسٹیشن پر ہمیں ایف سی کے مسلح جوانوں نے گھیرے میں لے لیا اور ان کے ساتھ ہم نے پلیٹ فارم پر دوستوں سے ملاقات کی، اور آخر میں ریاض باڑہ کا حکم ملا کہ تقریر بھی کرنا پڑے گی۔ اُن کی محبت اور جذبات دیکھ کر میری آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ میرے یہی آنسو اُن کی محبت کا جواب تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ملک بھر میں پی ایم پیکیج میں 2005ء اور 2015ء میں وزیراعظم نے ملازمین کی بیوائوں اور بچوں کے لیے جن حقوق کا اعلان کیا تھا ان پر ابھی تک صرف اس وجہ سے پوری طرح عمل درآمد نہیں ہورہا کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے ہمارے ادارے کو اس مقصد کے لیے مطلوب اضافی بجٹ نہیں دیا۔ اس طرح بیوائوں کو امداد نہیں دی جاسکی۔ اور آج صورت حال یہ ہے کہ پاکستان ریلوے دو ارب روپے کا یتیم بچوں اور بیوائوں کا مقروض ہے۔
آرمی کے مسلح جوانوں نے 11 بجے کے قریب ہمیں پوری محبت اور پیار کے ساتھ سبی سے روانہ کیا۔ سبی پاکستان کا تاریخی شہر ہے، آثارِ قدیمہ میں شمار کیا جانے والا یہ شہر ساڑھے دس ہزار برس قدیم بتایا جاتا ہے۔ اس شہر کو بلوچستان میں ریلوے کا پہلا جنکشن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جیسے ہی گاڑی وادی بولان کی طرف روانہ ہوئی تو تھوڑی دیر بعد سنگلاخ پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور موسم میں بھی یکدم تبدیلی آگئی اور ٹھنڈک کا احساس شروع ہوگیا۔ ٹرین کے ہر ڈبے میں پاکستان ریلوے پولیس کے ساتھ ساتھ ایف سی کے جوان بھی موجود تھے۔ سبی سے کوئٹہ ریلوے لائن کی لمبائی تقریباً142کلومیٹر ہے۔ سبی سے مچھ کے قریب تک کا علاقہ دنیا کے گرم ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں جون، جولائی اور اگست میں درجہ حرارت 50 درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے، اور بعض اوقات دن اور رات میں درجہ حرارت یکساں رہتا ہے۔ جیسے ہی ٹرین مشکاف ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو سرنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مشکاف اور کولپور ریلوے اسٹیشن تک 20 سرنگیں ہیں جن کی مجموعی لمبائی تقریباً 12704 فٹ ہے، اور پلوں اور پلیوں کی تعداد 396 ہے۔ 1885ء سے 1897ء بلکہ اس کے بعد بھی سبی سے کوئٹہ سیکشن پر کام جاری رہا۔ اُس وقت اس سیکشن پر 3 کروڑ سے زائد لاگت آئی۔ یہاں بیک وقت پندرہ سے بیس ہزار مزدور اور ہزاروں اونٹ لائن بچھانے کے لیے کام کرتے رہے، جبکہ کھانے پینے کا تمام تر سامان سبی سے سیکڑوں اونٹوں پر آتا تھا۔ جیسے ہی ٹرین سرنگوں میں داخل ہوئی تو لوگوں نے پھر فلک شگاف نعرے لگانا شروع کردیے کہ ’’مسائل کے حل تک جنگ رہے گی جنگ رہے گی‘‘۔ ’’مزدوروں کا چارٹر آف ڈیمانڈ فی الفور منظور کیا جائے‘‘۔ کولپور سطح سمندر سے 6500 فٹ بلند ہے، جبکہ اس سے آگے کوئٹہ سطح سمندر سے 5500 فٹ بلندی پر ہے۔ جیسے ہی ٹرین آبِ گم اسٹیشن سے چلی، غیر معمولی بلندی پر چڑھنے کے لیے ٹرین میں مزید ایک انجن کا اضافہ ہوگیا جسے بنکر بھی کہتے ہیں۔ اس ریلوے لائن کا موازنہ صرف بھارت کی ریلوے لائن نیل گری اور سوئٹزرلینڈ کی ریلوے لائنوں سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کا شمار دنیا کی دشوار ترین ریلوے لائنوں میں ہوتا ہے۔ ایک انجن ٹرین کو آگے سے کھینچتا ہے اور دوسرا انجن ٹرین کو پیچھے سے دھکیلتا ہے، لیکن پھر بھی ٹرین آہستہ آہستہ جھومتی جھامتی چلتی ہے۔ کولپور سے آبِ گُم تک تین مقامات ایسے ہیں جن کو ریلوے کی تکنیکی زبان میں کیچ سائیڈنگ کہتے ہیں، لیکن ریلوے کے عام ملازمین اس کو جہنم لائن کہتے ہیں۔ ان تین مقامات پر ڈھلوان اچانک بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔ جہاں تک ٹرین کا تعلق ہے اس کے پہیے بھی لوہے کے ہوتے ہیں اور ٹریک بھی لوہے کا ہوتا ہے، اور دونوں چکنے ہوتے ہیں۔ پھر اتنی ڈھلوان پر بھاری بھرکم انجن کے پیچھے بوگیوں اور ڈبوں کا بھاری وزن بھی دبائو بڑھا رہا ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں پر مین لائن کے ساتھ ایک لائن پہاڑ پر بلندی کی طرف مڑتی ہے جو کہ دوسوفٹ بلند ہے۔ یہاں آکر ڈرائیور گاڑی کو روک لیتا ہے۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کے بریک کو چیک کیا جاتا ہے، اور اگر خدانخواستہ بریک فیل ہوجائیں تو ٹرین کی رفتار اتنی ہوسکتی ہے کہ اس کو کہیں بھی روکنا تقریباً ناممکن ہوگا۔ یوں ایسی اوورشوٹ ٹرین آگے اور زیادہ دور تک تباہی کا سبب بنے گی۔ اس لیے کولپور سے آبِ گُم تک تین مقامات پر دیکھا جاتا ہے کہ کہیں گاڑی اوورشوٹ تو نہیں کرگئی ہے، اور اطمینان کے بعد جب ٹرین رُک جاتی ہے تو پھر اس ٹرین کو آگے جانے دیا جاتا ہے، ورنہ دوسری صورت میں ٹرین جہنم لائن پر چڑھتی اور رُک جاتی ہے۔ دشوارگزار راستہ ختم ہوا، انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کس طرح اُس زمانے میں بغیر ٹیکنالوجی ان سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چاک کیاگیا ہوگا! جبکہ نہ تو مشینری تھی اور نہ ہی کیمرے، اس کے باوجود انسانوں نے پہاڑوں کا سینہ چیرکر رکھ دیا۔ میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ دنیا بھر کے سیاحوں کو، اور بالخصوص پاکستان کے عوام کو بذریعہ ٹرین ان محفوظ ترین اور خوبصورت ترین مناظر کی سیر ضرور کرنی چاہیے۔ اللہ ربُ العزت نے اس ملک کو کس قدر خوبصورت بنایا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی پہلی ترجیح میں سبی، ہرنائی اور بوستان سیکشن کو دوبارہ بحال کرنا رکھے۔
حُسن اور معدنیات سے مالامال بیروکنٹری سے دوبارہ سنگلاخ پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پنیر ریلوے اسٹیشن سے چلنے کے بعد دوبارہ پھر سرنگوں کا سلسلہ تھا۔ جب ہم آب گم پہنچے تو ریلوے ملازمین کی خاصی تعداد موجود تھی جنہوں نے بھرپور استقبال کیا۔ بالآخر ٹرین کولپور سے ہوتی ہوئی دوپہرساڑھے تین بجے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو ایسا لگا کہ بلوچستان کے غیور بلوچ اور پختون محنت کش پنجاب، سندھ اور پشاور سے آئے ہوئے اپنے بھائیوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں۔ ایک بار پھر کوئٹہ ریلوے اسٹیشن زوردار نعروں سے گونجنے لگا۔ موسم خوبصورت تھا اورآہستہ آہستہ سردی بڑھتی جارہی تھی۔ اسٹیشن پر کوئٹہ ڈویژن کے صدر ارشد خان، نسیم گشکوری، قدرت اللہ، فتح اللہ، عطااللہ بنگلزئی، عبدالمالک اچکزئی، ملک اکرم بنگلزئی، ساجد انور شیرازی، عبدالحکیم خلجی، سید علی افغان، سید عمران، حضرت علی کاکڑ اور شاہ محمد بہڑائچ سمیت سیکڑوں ملازمین موجود تھے۔
کوئٹہ پلیٹ فارم پر پاکستان کی تمام اکائیوں کی موجودگی پاکستان کی وحدت اور سلامتی کا منظر پیش کررہی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس وقت کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کا پلیٹ فارم منی پاکستان کا منظر پیش کررہا تھا، جس میں سب سے بڑا کردار بلوچستان کے پختون اور بلوچ بھائیوں کے ساتھ قومی سلامتی کے اداروں کی قربانیوں کا تھا، جنہوں نے جانوں کے نذرانے پیش کرکے بلوچستان میں امن قائم کیا۔ پریم یونین پاکستان کی وحدت اور سلامتی کی مظہر ہے جس پر پاکستان ریلوے کے مزدوروں کو فخر ہے۔ لاہور سے کوئٹہ کا سفر بذریعہ ٹرین پاکستان کی خوبصورتی کو اُجاگر کرتا اور یہ احساس بیدار کرتا ہے کہ میرا دیس کس قدر خوبصورت ہے۔ حُسن کے گہوارے بلوچستان کے اس دورے کا مقصد جہاں کوئٹہ ڈویژن کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت تھی، وہیں پر مزدوروں کے مسائل کو اُجاگر کرنا بھی تھا۔ کوشش تھی کہ کسی طرح دنیا بھر میں پُرامن بلوچوں اور پختونوں کو اُجاگر کروں۔ حکومت کو چاہیے کہ ریلوے کے ذریعے سیاحت کو فروغ دے۔ کوئٹہ ڈویژن کی ہر ٹرین کے ڈبوں پر بلوچستان کے خوبصورت مقامات کی تصویروں کو آویزاں کیا جائے۔ یقین مانیں کہ دنیا بھر کا سیاح ان شاء اللہ معدنیات کے ذخائر سے بھرپور ان سنگلاخ پہاڑوں کو دیکھنے ضرور آئے گا۔
دوسرے دن کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر محنت کش ساتھیوں نے ایک بہت بڑا پروگرام منعقد کیا ہوا تھا جس سے پریم یونین کے مرکزی صدر حافظ سلمان بٹ، سابق سینیٹر عبدالرحیم میردادخیل، سیکریٹری جنرل خیرمحمد تونیو، راقم الحروف، کراچی ڈویژن کے صدر راجا عبدالمناف، سکھر ڈویژن کے صدر زاہد، ہیڈ کوارٹر ڈویژن کے صدر صوفی رمضان باوا، جنرل اسٹور کے صدر طارق نیاز، راولپنڈی ڈویژن کے صدر ڈاکٹر اشتیاق، پشاور ڈویژن کے سیکریٹری محمد انور خان، لاہور ڈویژن کے سیکریٹری فیاض شہزاد اور میزبان ڈویژن کے صدر ارشد خان نے جلسے سے خطاب کیا۔ حافظ سلمان بٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مزدوروں نے شب و روز محنت کرکے ڈوبتی ہوئی ریلوے کو بحال کردیا ہے۔ وہ ریلوے جو آج سے پانچ سال قبل سترہ ارب روپے کی سالانہ آمدن کما رہی تھی، آج اس کی آمدن الحمدللہ پچاس ارب روپے سالانہ سے زیادہ ہے، لیکن انتظامیہ کا مزدوروں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہے۔ نہ تو پی ایم پیکیج اور ٹی ایل اے میں کام کرنے والے جوانوں کو مستقل کیا جارہا ہے، اور نہ ہی پی ایم پیکیج کے واجبات بیوائوں اور یتیم بچوں کو ادا کیے جارہے ہیں۔ منظورِ نظر 43کیٹگریز کو اپ گریڈ کردیا گیا ہے۔ ہم چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرنے جارہے ہیں اور اس سلسلے میں ہم نے 23-22 مارچ کو جنرل کونسل کا اجلاس بھی طلب کرلیا ہے، جس میں منظوری لی جائے گی کہ اگر انتظامیہ نے بجٹ سے پہلے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عمل درآمد نہ کیا تو پھر ہم راست اقدام اُٹھانے پر مجبور ہوں گے۔

حصہ