میڈیا بنائے معاشرہ

685

فرحی نعیم
میڈیا مملکت کے چوتھے ستون کی حیثیت سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ میڈیا کے مقاصد میں باخبر رکھنا اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ میڈیا کے معاشرے پر مثبت اثرات کسی شبنم کی مانند اسے تروتازگی بخشتے ہیں، اور منفی اثرات دیمک کی طرح اس کے تہذیبی و اخلاقی ڈھانچے کو چاٹ جاتے ہیں۔ گویا صحت مند معاشرہ میڈیا کی دی ہوئی صحت بخش خوراک کا مرہونِ منت ہے۔
میڈیا کے اسی کردار اور ذمے داری کو محسوس کرتے ہوئے جماعت اسلامی حلقہ خواتین کراچی کے تحت اصلاحِ معاشرہ مہم کے سلسلے میں الخدمت کے مرکزی دفتر کے دیدہ زیب ہال میں ’’میڈیا بنائے معاشرہ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا، جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے شرکت کرکے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
محترمہ عالیہ منصور صاحبہ جو کہ مرکزی میڈیا سیل کی نگراں ہیں، اور محترمہ ثمرین احمد نائب نگراں نشرو اشاعت کراچی نے تلاوتِ کلامِ پاک اور نعتِ رسولؐ کے بعد باقاعدہ پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے اپنے سوالات کی ابتدا کی۔
محترمہ تنویر عشرت صاحبہ جو کہ جامعہ کراچی میں شعبہ سائیکالوجی میں پروفیسر ہیں، محترمہ عالیہ منصور کے اس سوال پر کہ آج کا ڈراما ہماری نئی نسل کی تربیت اور ان کی پسند ناپسند پر کس طرح اثرانداز ہورہا ہے؟ کیا میڈیا صرف نوجوان نسل ہی کو نہیں بلکہ پورے کرۂ ارض پر بسنے والے لوگوں کو متاثر کررہا ہے؟ کہا کہ یوں سمجھ لیں ہماری حیثیت اس وقت جہادی کی سی ہے، کیوں کہ اب جنگیں میدانوں میں نہیں بلکہ میڈیا کے ذریعے ہورہی ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ چینل کی کیا پالیسی ہے؟ اور اس کا کردار کیا ہے؟ آیا وہ اپنے فرائض ادا کررہا ہے؟ چونکہ یہ سب نہیں ہے تو ہمیں اس پر اصولی فیصلہ کرنا ہوگا، ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر حکمتِ عملی تیار کرنی ہوگی اور اس کے لیے ہمیں منظم ہونا ہوگا۔
اس سوال کے جواب میں کہ اس کے نفسیاتی طور پر کیا اثرات ہیں؟ محترمہ تنویر نے کہا کہ انسان کی شخصیت دیکھنے سے ہی بنتی ہے۔ جو چیز ہمیں پہلی دفعہ دیکھنے سے بری لگتی ہے وہ پھر بار بار دیکھنے سے کم سے کم بری لگتی ہے اور ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ ہم اس کے عادی ہوکر اسے اپنی تہذیب میں ضم کرلیتے ہیں۔ ہماری خاندانی قدریں اسی طرح ختم کی جارہی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق ایشیا کے روزمرہ کے کھانے سب سے صحت مند کھانے تھے، لیکن اب دیکھ لیں کہ ہمارے کھانے پینے کے انداز بھی مکمل طور پر تبدیل ہوچکے ہیں۔
محترمہ ثمرین احمد نے معاشرتی و خاندانی اقدار کے حوالے سے ہی سوال کیا کہ ہماری معاشرتی روایت مسخ ہورہی ہیں، آپ نے اُس وقت سے لے کر اب تک کیا تبدیلی دیکھی؟ کیا میڈیا ہماری ثقافت کے تحفظ کا علَم بردار ہے؟ کیا یہ اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کررہا ہے؟ سوال کا جواب محترمہ شاہینہ فلک صدیقی نے دیا جو پاکستان ٹیلی ویژن سے چالیس سال وابستہ رہیں اور بحیثیت پبلک ریلیشنز آفیسر ریٹائر ہوئیں۔ محترمہ کا شعری مجموعہ بھی منظرعام پر آچکا ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے چار دہائیاں پی ٹی وی میں گزاریں، پی ٹی وی کے ماضی کے پروگرام جن میں ڈراما، کوئز اور مزاحیہ پروگرام شامل ہیں، ہر ایک میں اصلاح کا پہلو مقدم تھا۔ ہمارے میڈیا کی ذمے داری ہے اور وہ پابند ہے اقدار کے تحفظ کا۔ آج آزادیِ رائے کے نام سے جو یلغار ہوچکی ہے اس میں علم اور احساس کا دور دور تک پتا نہیں، صرف پیسہ بنانا مقصد ہے جس کی وجہ سے معیار کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ کوئی نگرانی نہیں ہے جس کا نقصان نسلوں کو پہنچ رہا ہے۔ ہر اشتہار میں ناچ ضروری ہے، حالانکہ چیزیں پہلے بھی فروخت ہوتی تھیں لیکن جو گراوٹ اب آچکی ہے اس کا مقابلہ نہیں۔ چینلوں کی بھرمار سے سفارشی بھی بھرتی ہورہے ہیں۔ نااہل لوگ جب میڈیا کی اہمیت سمجھیں گے ہی نہیں، انہیں اس کا ادراک ہی نہ ہوگا تو وہ کیا اقدار کو تحفظ دے سکیں گے! پی ٹی وی کے پروگراموں کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے، جب کہ آج جو کچھ نشر ہورہا ہے وہ پانی کے بلبلے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، جس کی زندگی لمحاتی ہوتی ہے۔
محترمہ شاہینہ کی اثرانگیز گفتگو کے بعد ثمرین احمد کا سوال اب محترمہ سمعیہ شعوانہ سے تھا کہ اس وقت میڈیا جو کچھ دکھا رہا ہے کیا اسے قوم کی رہنمائی کہہ سکتے ہیں؟ کیوں کہ پہلے تو مزاح میں بھی اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا تھا لیکن آج جو کچھ دکھایا جارہا ہے کیا اسے معاشرتی اقدار بننے سے روکا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر سمعیہ شعوانہ صاحبہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ڈپارٹمنٹ آف پیتھالوجی، بحریہ یونیورسٹی، میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ آج تعلیمی ادارے مخلوط ہوچکے ہیں اور ہمارے نوجوانوں کا رویہ یہ ہے کہ ’’میری زندگی، میری مرضی‘‘، یا پھر ’’کوئی ہمیں کچھ نہ کہے‘‘۔ چوں کہ میں ایک استاد ہوں تو پڑھائی کے دوران اگر اصلاح یا تربیت کے حوالے سے کچھ کہوں تو میرے ساتھی بھی مجھے یہی کہتے ہیں کہ ان کو کچھ نہ کہیں۔ آج یوٹیوب، فیس بک اور اسی طرح کی دوسری چیزیں بچوں پر بڑے گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔ ہم میڈیا کو تو برا کہتے ہیں لیکن آج لوگوں کے رویّے بھی حیران کن ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم یہ تربیت گھر سے شروع کریں تبھی معاشرہ صحیح خطوط پر پروان چڑھے گا۔
آج ہم اپنی قدروں کی ناقدری کے دور سے گزر رہے ہیں۔ کیا ایسی آگاہی دینا جس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہو، ٹھیک ہے؟ کیا یہ ہماری تہذیب کی صحیح عکاسی کررہا ہے؟ ضروری ہے کہ دیوار کے دوسری جانب جو کچھ ہو اُسے دیوار کے اِس جانب بھی دکھایا جائے۔ محترمہ عالیہ منصور نے اپنے اس سوال کے جواب کے لیے محترمہ حافظہ حمنیٰ خان کو دعوت دی۔
محترمہ حمنیٰ جیو ٹی وی سے منسلک ہیں، صحافی ہیں، سماجی کارکن ہیں اور ایک سماجی تنظیم ’’ایکٹو یوتھ پاکستان‘‘ کی بانی بھی ہیں۔ گورنمنٹ آف سندھ سے انعام بھی وصول کرچکی ہیں۔ اپنی ایک کمپیئن کے سلسلے میں انہوں نے کہا کہ آج کا ہمارا کرنٹ ایشو ہماری یوتھ ہے جو ہر چیز شیئر کررہی ہے، اس کے پاس جو معلومات آتی ہیں وہ انہیں آگے بڑھا دیتی ہے، چینل پر ہمارے تجزیہ نگار بے قابو ہوجاتے ہیں، وہ ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جس سے ہماری ملکی سالمیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ فالو شپ کے چکر میں کہ جس میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو، وہ اپنی ذمے داری بھول جاتے ہیں۔ محترمہ حمنیٰ صاحبہ نے بڑی اہم طرف توجہ دلائی۔
محترمہ ثمرین احمد نے اس پر سوال اٹھایا کہ میڈیا آج ہمارے نوجوانوں کو جو کچھ دے رہا ہے، کیا وہ دینا ضروری ہے؟ اس سوال کے جواب میں محترمہ عنبرین الطاف… جو کہ گزشتہ آٹھ سال سے مختلف نیوز چینلز پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور بین الاقوامی نیوز چینل پر بھی کام کرچکی ہیں، صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ انعام یافتہ سماجی کارکن بھی ہیں… فرمایا کہ میڈیا کے دو پورشن ہیں: خبریں اور تفریح۔ اگر نیوز چینلز کی بات کریں تو سارے ہی غلط نہیں ہیں، کچھ بڑے ادارے ایسے بھی ہیں جو اپنی ساکھ اور ذمے داری کا احساس رکھتے ہیں۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ آج جس کے پاس وافر پیسہ ہے وہ بھی چینل کھول لیتا ہے لیکن معیار کا خیال نہیں رکھتا۔ اسی میڈیا کی وجہ سے نچلے اور مجبور طبقے کی بھی عکاسی ہوتی ہے اور ان کے حالات عام لوگوں تک بآسانی پہنچتے ہیں، جس کے بعد بہت سے ضرورت مند لوگوں کا علاج ہوجاتا ہے، بے بسوں کی دادرسی ہوجاتی ہے، جانیں بچ جاتی ہیں، مستحق خواتین کی امداد ہوجاتی ہے۔ ہم نے بہت سے ایشوز کو ہائی لائٹ کیا جس پر حکومت ایکشن لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اگر برائی ہے تو اچھائی بھی ہے، ہاں اس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
امبرین کے بعد محترمہ عالیہ صاحبہ کا سوال محترمہ رفیعہ تاج صاحبہ سے تھا کہ اگرچہ ہمارے میڈیا نے بہت حساس کردار بھی ادا کیا ہے، لیکن ریاست کا اہم ستون ہونے کی وجہ سے اس کے مقاصد اور ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟
محترمہ رفیعہ تاج نے جو کہ جامعہ کراچی میں شعبہ ابلاغ عامہ کی پروفیسر ہیں، فرمایا: پہلے تو ہم یہ تعین کرلیں کہ میڈیا مشن ہے یا بزنس؟ ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میڈیا بزنس ہے، اب اگر وہ کاروبار ہے تو وہ کاروبار ہی کرے گا اور منافع کمائے گا۔ لہٰذا اس سے شکایت عبث ہے۔ لیکن ہمیں یہ ضرور دیکھنا ہے کہ وہ کس کو ہائی لائٹ کرتا ہے۔ کہیں بھی، کسی حادثے کی صورت میں اینکر وہاں گھس جاتے ہیں۔ آگ، خون، آنسو دکھاتے ہیں، اور یہ سب وہ اپنے ناظرین کی توجہ کھینچنے کے لیے کرتے ہیں، ان کا مقصد سنسنی پھیلانا ہے۔ ہمارے عوام یہ دیکھنا نہیں چاہتے لیکن میڈیا یہ سب دکھا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کا اسٹریس لیول مسلسل بڑھ رہا ہے جو کہ غیر صحت مندانہ روش ہے۔ خبر کی سچائی ضرور دکھائیں لیکن اس کے طریقہ کار کو درست کریں، اپنی ذمے داری محسوس کریں۔ ہمارا کلچر اور سوچ جو بدل رہی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنی ذمے داری بھی میڈیا پر ڈال دی ہے۔ ہمیں معاشرے کی اچھی اقدار کو سامنے لانا ہوگا، منصوبہ بندی کرنی ہوگی، پھر ضرور نتائج مثبت آئیں گے۔
ثمرین احمد کا سوال اب محترمہ ناہید عزمی سے تھا کہ چوں کہ آپ کا تعلق ادب سے ہے، کیا آپ محسوس کرتی ہیں کہ کتب بینی کا رجحان آہستہ آہستہ کم ہوگیا ہے؟ کیا ادب اور اس کا وجود اس طرح باقی رہے گا؟ اس کی بقا اور اس کی حفاظت ہم کس طرح کر سکتے ہیں؟
محترمہ ناہید عزمی جو کہ شاعرہ، مصنفہ، مدیر، ڈراما نویس ہیں، ان کی شاعری کا مجموعہ ’’پوروں پر آسمان‘‘ منظرعام پر آچکا ہے، انہوں نے کہا کہ مصنف معاشرہ نہیں بدلتا بلکہ اپنے پڑھنے والوں کو ایک سوچ دیتا ہے، وہی سوچ معاشرے کو بدلنے کی بنیاد بنتی ہے۔ ماضی میں صرف ایک چینل تھا لیکن اب صورت حال بالکل مختلف ہے۔ سوشل میڈیا منفی اور مثبت دونوں کردار ادا کررہا ہے۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مذہب اور ملک کے خلاف ہے۔ جہاں تک بات ڈرامے کی ہے، تو یہاں موضوعات مختلف ہوچکے ہیں۔ دوسری شادی کا ٹرینڈ، بہنوئی کے ساتھ افیئر وغیرہ، اس طرح کے حساس شرعی موضوعات کو چھیڑا جاتا ہے۔ آج فیملی کے ساتھ ڈراما نہیں دیکھا جاسکتا، اس کے علاوہ پڑھنے کا رجحان بھی کم ہوچکا ہے، نثر اگرچہ اپنا کردار ادا کررہی ہے لیکن میڈیا جو تبدیلی لا رہا ہے وہ اچھی نہیں۔
معاشرے کی بنیادی اکائی ’’خاندان‘‘ کیا متاثر ہورہا ہے؟ ثمرین احمد کا یہ سوال محترمہ افشاں نوید سے تھا جو کہ صدر ہیں ویمن اینڈ فیملی کمیشن کی، اور جامعۃ المحصنات کی پرنسپل ہیں۔ انہوں نے میزبان اور مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بحیثیت ماں ہم سب میڈیا کی اس بے راہ روی اور بے لگامی سے مضطرب ہیں، ہم اتنا بڑا سرکل رکھتے ہیں اور اب تک کی گفتگو سے یہی حاصل ہوا ہے کہ ہم سب کی سوچ ایک ہی سمت ہے، وہ خیر چاہتی ہے۔ جب ہمارا مقصد ہی خیر کا پھیلائو ہے تو ہم ضرور اپنے دائرۂ کار میں خیر کے کام ہی کریں گے، ہماری تحریر و تقریر میں خیر ہی ہوگا، اور جب معاشرے میں اتنا زیادہ خیر ہوگا تو پھر ہمارا میڈیا کس کا ترجمان ہے۔ ہمارے نوجوان تعلیمی میدان میں اتنے باصلاحیت ہیں لیکن ہمارا میڈیا ان کا ترجمان نہیں۔ ہاں رقص و موسیقی کو ضرور نمائندگی دی جاتی ہے۔ زینب کے کیس کو بھرپور کوریج دی گئی۔ کیا اس کے بعد ایسا کوئی کیس نہیں ہوا؟ میڈیا معاشرے میں جنسی آلودگی کو پروان چڑھا رہا ہے، سب سے زیادہ اس سے خاندان متاثر ہوا۔ لہٰذا بحیثیت ماں ہماری ذمے داری اب مزید بڑھ گئی ہے۔ ایک ماں گھریلو عورت ہو یا ورکنگ وومن، اس کی ذمے داری دوچند ہوچکی ہے۔ ہم نے اس ذمے داری کو بااحسن نبھانا ہوگا۔
محترمہ افشاں نوید کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے محترمہ ہما بیگ نے جو ہمدرد یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور شاعرہ بھی ہیں، کہا کہ ہمارے چینل اپنے ناظرین کو ڈپریشن کا مریض بنا رہے ہیں۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کی پیروی کرلیں تو ہماری بہت سی مشکلات ختم ہوجائیں۔ موبائل فون کی صورت میں آج ہر ایک کے ہاتھ میں ٹریننگ سینٹر موجود ہے۔ یہ ضرورت نہیں ہے، میں اسے عیاشی کہوں گی۔ اگرچہ یہ خود غلط نہیں لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ کن ہاتھوں میں ہے۔ میڈیا کا نظام اگر میچور ہاتھوں میں ہوگا تو وہ خودبخود بہتری کی طرف جائے گا۔
محترمہ ڈاکٹر سائرہ بانو جو ہومیو ڈاکٹر اور حجامہ بھی کرتی ہیں، اس سوال کے جواب میں کہ میڈیا پر چیک اینڈ بیلنس ضروری ہے؟ کہا کہ ہمیں پیمرا کے قوانین کے بارے میں علم ہی نہیں ہے۔ مختلف علاقوں کے کیبل آپریٹرز کے ہاتھوں میں ٹی وی چینل ہوتے ہیں، وہ اپنے دیکھنے والوں کو بھارتی چینلز دکھاتے رہتے ہیں جس سے ہندو تہذیب پھیل رہی ہے، تو یہ بلاک ہونا چاہیے۔ ہم ایک اسلامی ملک میں رہتے ہیں، ہمیں تو صحیح غلط، جائز ناجائز سب کا علم ہونا چاہیے۔ ملک سے جس طرح مختلف شعبوں میں کرپشن ختم کی جارہی ہے اسی طرح اِس شعبے سے بھی ختم ہونی چاہیے۔ میرا واسطہ چونکہ مریضوں سے رہتا ہے تو میں دیکھ رہی ہوں کہ میرے مریض اسٹریس میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اپنی بات کے اختتام پر انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ایسے فورم کے تحت اتنی برکت دے کہ ہم اپنے معاشرے سے برائیوں کو ختم کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری ان کوششوں کو قبول کرے۔ یہاں انہوں نے تعلیمی چینل کی ضرورت پر زور دیا۔
میڈیکل کی طالبہ ڈاکٹر حبہ عالم نے بھی اس بات کی تائید کی کہ ہماری طالبات میڈیا سے اتنی متاثر ہیں کہ اپنی اسلامی و تہذیبی اقدار کو پسِ پشت ڈالتی جارہی ہیں۔ وہ پُراعتماد ضرور ہوں لیکن اپنی حدود کا بھی خیال رکھیں۔
جماعت اسلامی شعبہ خواتین کی ناظمہ محترمہ اسماء سفیر صاحبہ نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ لوگ یہاں آئے اور اس حساس موضوع پر غور و فکر کیا۔ یقینا میڈیا معاشرے کو بگاڑ رہا ہے، ضروری ہے کہ ہم سب مل کر اس بگاڑ کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ ہمارا یہاں بیٹھنا بامقصد ہو۔ انہوں نے مہمانانِ گرامی سے بھی اس سلسلے میں تجاویز مانگیں اور اربابِ اقتدار اور پیمرا سے مطالبہ کرتے ہوئے اپنی سفارشات پیش کیں کہ میڈیا کو تعلیم اور معلومات کا مؤثر ذریعہ بنایا جائے، اسے سماجی مسائل کے حل کے حوالے سے رہنمائی اور نوجوان نسل کی مثبت تخلیقی صلاحیتوں کی تربیت کا ذریعہ بنایا جائے، ڈراموں کی کہانیوں میں استحکامِ خاندان، رشتوں میں محبت، حُسنِ سلوک اور مثبت سوچ کو پروان چڑھایا جائے، اشتہارات کو ضابطۂ اخلاق کا پابند بنایا جائے۔
شعبہ آئی ٹی کراچی کی انچارج محترمہ سعدیہ حمنہ نے کہا کہ معاشرے کا وہ طبقہ جو اَن پڑھ ہے اُس پر ہمارا میڈیا کس طرح اثرانداز ہورہا ہے، اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے میڈیا اور انٹرنیٹ کوکنٹرول کرنے پر بھی زور دیا۔
محترمہ عالیہ شمیم نے جو کہ صدر حریم ادب بھی ہیں، معاشرے میں میڈیا کے منفی کردار پر اپنی فکر کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ اس طرح کے فورم کے ذریعے ہم ضرور اپنی آواز حکام بالا تک پہنچا سکیں گے۔ آخر میں انہوں نے دعا کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کیا۔

حصہ