مچھروں کی یلغار

1076

زاہد عباس
اسلام وعلیکم امی جان
وعلیکم اسلام بیٹا! آ گئے،،
جی امی جان
کیسا رہا آج کا دن،،
کوئی خاص نہیں سارے ٹیچر پکنک پر گئے ہوئے تھے صرف سائنس کی کلاس ہوئی میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ پکنک کی وجہ سے آج کوئی بھی نہیں آئے گا چھٹی کر لیتا ہوں لیکن آپ نے زبردستی بھیج دیا،،
کوئی بات نہیں بیٹا دیکھو اسکول جانے سے سائنس کی کلاس ہی سہی کچھ تو پڑھنے لکھنے کو ملا،،
پڑھائی وڑای نہیں ہوئی سائنس کے ٹیچرتوبس مچھروں کی افزائش نسل پر ہی بات کرتے رہے،،
اس میں کون سی بُر ی بات ہے یہی تو سائنس ہے مجھے بتاؤ مچھروں سے متعلق وہ کیا معلومات دے رہے تھے,,
کیا بتاؤں ایک لمبا چوڑا لیکچر تھا بتا رہے تھے کہ دنیا بھر میں ان کی 5,003 اقسام پائی جاتی ہیں۔ مچھر کی زندگی چار ارتقائی مراحل پر مشتمل ہوتی ہے۔ ”انڈا” ”لاروا” ”پیوپا” اور مکمل مچھر۔ ان کی افزائش عموما جوہڑوں، تالابوں، نالیوں یا پانی کے کسی بھی ذخیرے اور پودوں کے پتوں پر ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کے پہلے تین مرحلے ایک سے دو ہفتے میں مکمل ہو جاتے ہیں۔ مادہ مچھر ایک ماہ تک زندہ رہ سکتی ہے مگر عام طور پر اس کی زندگی ایک سے دو ہفتے تک ہوتی۔ ان کی افزائش اور زندگی میں ماحول کو خاص اہمیت حاصل ہے بس اسی قسم کی گفتگو کر کے ٹائم پاس کر رہے تھے،،
فضول باتیں نہ کرو یہ تو کام کی باتیں ہیں اور بتاؤ،،
امی جان چھوڑیں کوئی اور بات کر لیتے ہیں ویسے بھی مجھے بہت زور کی بھوک لگی ہوئی ہے،،
نہیں نہیں تم اپنی بات جاری رکھو میں روٹیاں بناتی ہوں جو کچھ پڑھا ہے سب سناؤ،،
ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ مچھروں کی کی غذا پھلوں پھولوں کا رس ہے۔ خون کی ضرورت صرف مادہ مچھر کو ہوتی ہے۔ انڈے دینے کے لیے مادہ مچھر کو فولاد اور پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے جو یہ خون سے حاصل کرتی ہے۔ خون حاصل کرنے کے بعد مادہ مچھر آرام کرتی ہے جب تک کہ یہ خون ہضم نہ ہو جائے اور انڈے تیار نہ ہو جائیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مچھروں کی بعض اقسام مسلسل چار گھنٹے تک اڑ سکتی ہیں اور رات بھر میں یہ بارہ کلیومیٹر تک کا سفر طے کر لیتے ہیں۔ ان کی زیادہ اقسام گرم مرطوب علاقوں میں پائی جاتی ہیں جہاں یہ سارا سال اپنی زندگی کا پہیا چلاتے رہتے ہیں۔ سرد موسم میں یہ اگرچہ غیر فعال ہو جاتے ہیں مگر مکمل ختم نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ مچھر کسی عام شے کا نام نہیں بلکہ مچھر دنیا میں انسانوں کا سب سے بڑا قاتل ہے۔ اس سے متاثرہ افراد کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچتی ہے ایک اندازے کے مطابق ہر سال 20 لاکھ لوگ اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں ڈینگی بخار ”پیلا بخار” اور ملیریا سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جن میں زیادہ تعداد افریقی اور ایشائی لوگوں کی ہوتی ہے بس یہی کچھ پڑھا رہے تھے اب بتائیں اتنے لمبے چوڑے لیکچر سے مجھے کیا حاصل،،
ارے بے وقوف یہ تو اتنی زیادہ اہم معلومات ہیں جو سارے معاشرے کے لئے ضروری ہیں دیکھتے نہیں ہو کہ جب موسم بدلتا ہے تو کس قدر مچھر پیدا ہو جاتے ہیں اور مچھروں سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ تم اس پر ریسرچ کرو یہ تو خاصی اہم معلومات ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو کچھ بھی مچھروں سے متعلق تمہیں بتایا گیا ہے تمہارے سلیبس کا حصہ ہے،،
امی جان یہ بات ٹھیک ہے کہ مچھر سے متعلق دیا جانے والا لیکچر میری سائنس کی کتاب کا حصہ ہے لیکن ان باتوں سے مچھر تو ختم نہیں ہوتے وہ تو پیدا ہوتے رہیں گے نہ جانے یہ کون سی مخلوق ہے جتنی مرضی احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں یہ وہیں کہ وہیں رہتے ہیں چادر اوڑھنے پر بھی ان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا ان کے لشکروں کے سامنے میٹ،گلوب یہاں تک زہریلے اسپرے سب بے کار ہیں امی جان لوگ اکثرشکایت کرتے رہتے ہیں کہ۔ ہاتھ، چہرہ، گردن یا جسم کا کوئی بھی حصہ کھلا ہو فوراً اس پر ہی مچھر آکر بیٹھے گا اور کاٹ کر چلاجائے گا باقی لوگوں کو کچھ نہیں کہیے گا۔کچھ لوگوں کا کہناہے کہ جن کا خون میٹھا ہوتا ہے ان کو ہی مچھر کاٹتے ہیں مچھروں کا خاص ہدف مخصوص افراد ہی کیوں ہوتے ہیں؟،،
بیٹا مچھر تو ہمیشہ سے ہی ہوتے ہیں پہلے دور میں لوگ کھلی جگہوں پر سویا کرتے اور مچھر دانی کا استعمال کیا کرتے تھے گاؤں دیہاتوں میں تو آج بھی مچھروں کو بھگانے کے لیے پتے وغیرہ جلا کر دھونی دی جاتی ہے جب بھی موسم تبدیل ہوتا ہے تو ان کی افزائش نسل میں اضافہ ہوجاتاہے موسم میں سختی آتے ہی ان کا خاتمہ ہو جاتا ہے اب تو سائنس نے بڑی ترقی کر لی ہے ساری دنیا کے صحت کے اداروں نے بڑا کام کیا ہے ہمارے ملک کے قومی ادارہ صحت کا شمار بھی ایسے ہی اداروں میں ہوتا ہے جو صحت عامہ کی خدمات کے لئے پیش پیش ہیں۔ یہ ادارہ گزشتہ 50 برس سے صحت کے شعبے میں تحقیق، تشخیص، بیماریوں کی روک تھام، علاج، ادویات (ویکسین) کی تیاری اورعوام میں بیماریوں سے آگاہی و شعورپیدا کرنے کے لئے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے حال ہی میں قومی ادارہ صحت نے مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام اور مچھروں کی اقسام کی درست معلومات حاصل کرنے کے لئے پہلی مرتبہ‘‘ماسکیٹوز الرٹ پاکستان‘‘کے نام سے اینڈرائڈ موبائل ایپلیکیشن متعارف کروائی ہے۔ اس ایپ کے ذریعے شہری اپنے علاقوں میں موجود مچھروں کی تصاویر بنا کر اپلوڈ کر سکتے ہیں ایپ کے ذریعے ملنے والی تصاویر اور معلومات کے ذریعے مچھروں کی اقسام کی نہ صرف میپنگ ہوسکے گی بلکہ ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام کے لئے بھی بروقت اقدامات کئے جاسکیں گے۔اسکے علاوہ مختلف علاقوں میں موجود مچھروں کی افزائش کی جگہوں کی بھی نشاندہی ہو سکے گی اور جہاں تک خون میٹھا ہونے اور مخصوص افراد کو ہی کاٹنے کا تعلق ہے تو ایسا نہیں ہے مچھر توسب کو ہی کاٹتے ہیں۔سائنس دانوں نے یہ بات آج سے تقریباًتیس سال پہلے دریافت کرلی تھی کہ مچھر ہمیں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہم کہیں بھی ہوں مچھر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اسی لیے کہ ہم سانس لیتے ہیں اور اس عمل کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔ جہاں دوستوں کی محفل سجی ہو، شام کوصحن میں گھر والے اکھٹے بیٹھے ہوں یا پھر ایسے ہی کسی مجمع میں مچھروں کے حملہ آور ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کیونکہ جتنے زیادہ لوگ ہوں گے اتنی ہی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کریں گے اور یوں مچھروں کے لیے انسانوں کو تلاش کرنا آسان ہوجاتا ہے اور وہ ان کاخون پینے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ مچھروں کے اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ کو محسوس کرنے کی صلاحیت قدرتی طور پر بہت زیادہ ہوتی ہے۔بعض ماہرین کایہ بھی کہناہے کہ سانس جتنی ناخوشگوار ہوگی، مچھروں کے کاٹنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ بڑھ جاتے ہیں،یعنی جو لوگ اپنے منہ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے ہومچھروں کا زیادہ شکار بنتے ہیں۔مچھروں سے بچنے کے لیے سانس تو روکی نہیں جاسکتی، البتہ منہ کی صفائی کرکے ان کے حملے کو روکا جاسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ
اگر مند ر جہ ذیل مقا ما ت کو تلف یاکنٹرول بھی کر لیا جائے توکافی حد تک مچھروں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
در ختو ں میں موجودگڑھوں کو، 2۔ پر انے ٹا ئرو ں میں موجود پانی کو،3۔ گملو ں میں کھڑ ے پا نی کو، 4۔ ائیر کو لر و ں میں مو جو د کھڑے پانی،5۔ ائیر کنڈ یشن سے گر تے پا نی اور فریج کی ٹرے ِ، 6۔
پا لتو پر ندوں کے پینے اور نہا نے کے برتنوں،7۔ گلیوں،با زارو ں میں بکھر ے ہو ئے کچرے کے ڈھیروں پلاسٹک کے شاپر خا لی بو تلیں،خا لی ڈبے اور ٹن پیک وغیر ہ میں موجود پانی کو۔ رِستے ہو ئے نل کی ایسی کھلی جگہ جہا ں پانی جمع اور ڈھا نپی ہو ئی نہ ہو 8,۔چھتوں پر پڑا ہوا گھریلو پرانا سامان اور کچرا، بچوں کے کھلونے، ٹوٹے ہوئے جوتے وغیرہ میں کھڑا پانی،اس کے ساتھ ساتھ کچھ مزیداحتیا طیں مثلاً پو ری آستین والے کپڑے پہنیں اور جسم پر مچھر بھگائو لوشن لگائیں تیل کا استعمال کریں، روشن دانوں اور کھڑکیو ں پرایسی جالی لگائیں،جس سے مچھر کا گزر نہ ہو سکے،چھتو ں پر خاص طور پرصحن میں سوتے وقت مچھر دانی کا استعما ل کرنے سے مچھروں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

حصہ