معمارانِ جلیس، ایک جائزہ

639

دنیا سے گزرے ہوئے لوگوں کے بارے میں بہت سے لوگوں نے اپنی یادداشتیں لکھی ہیں، ان میں کچھ گئے گزرے لوگ بھی شامل کرلیے گئے، مثلاً پختہ کار اور بے بدل مزاح نگار (مبالغہ سہی لیکن جائز ہے) ابونثر نے بھی ’’جو اکثر یاد آتے ہیں‘‘ کے عنوان سے بڑی بلکہ بڑی بڑی شخصیات کے بارے میں اپنے تاثرات مخصوص انداز میں قلم بند کیے ہیں۔ ان میں سے بیشتر گزرے ہوئے لوگ ہیں لیکن حفظِ ماتقدم کے طور پر ہم سمیت کچھ زندہ لوگوں کا ذکر بھی کردیا ہے کہ ’’داشتہ آید بکار‘‘ بعد میں موقع ملے یا نہ ملے، سند تو رہ جائے۔ ان کے علاوہ بھی اور بہت سے لوگ ہیں مثلاً مولانا ماہر القادری نے یادِ رفتگاں کے عنوان سے دو جلدوں میں اپنی یادیں سمیٹی ہیں۔ عظمتِ رفتہ کے عنوان سے جناب ضیاء الدین برنی نے اُن شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جن سے اُن کی ملاقاتیں رہی ہیں۔ حال ہی میں ممبئی کے ایک صحافی جناب ندیم صدیقی نے بھی ’’پرسہ‘‘ کے نام سے اپنے اُن دوستوں، ساتھیوں اور بزرگوں کا پرسہ دیا ہے جو اس دنیا سے گزر گئے، لیکن یہ سب تذکرے عموماً بڑی ادبی شخصیتوں کے ہیں۔
یادداشتوں کے اس ہجوم میں جناب جلیس سلاسل نیا انداز اور نیا رنگ لے کر آئے ہیں۔ اپنے نام کی طرح وہ جلیس بھی ہیں اور صحافت سے سلسلہ کئی عشروں سے قائم رکھا ہے۔ جلیس دوست کو کہتے ہیں اور انہیں ’’جلیسِ صحافت‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ ویسے سلاسل زنجیروں کو بھی کہتے ہیں۔ جلیس کے پیروں میں صحافت کی زنجیر ہے۔ انہوں نے پاکستان کی نامور شخصیات کے تاریخی انکشافات سے بھرپور خاکوں کو کتابی شکل دی ہے اور عنوان رکھا ہے ’’معمارانِ جلیس‘‘، یعنی وہ لوگ جنہوں نے جلیس کی تعمیر میں حصہ لیا ہے۔ ان میں سے بیشتر معماروں کا انتقال ہوچکا ہے، چنانچہ کسی کی طرف سے تردید کا امکان نہیں رہا۔
تفنن برطرف، جلیس سلاسل کی کتاب کی سب سے بڑی خوبی کا اعتراف کرنے میں ہمیں کوئی باک نہیں کہ کتاب جہاں سے بھی کھولی وہیں نظریں جم گئیں۔ گویا کرشمہ ایسا کہ دامنِ دل نہیں دامنِ نظر کو الجھا لیا۔ ہم عموماً کتابوں کو سونگھتے اور اِدھر اُدھر سے چکھتے ہیں۔ ذائقے دار ہوئی تو کتاب خود ہی مجبور کردیتی ہے کہ توجہ سے اور پوری پڑھی جائے۔ تاہم جلیس سلاسل کی کتاب سلسلہ وار نہیں بلکہ مزے لے لے کر پڑھی ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ مزے دار چیز ایک دم ختم نہیں کی جاتی۔
فہرست نگارشات میں بڑے بڑے نام ہیں جن سے جلیس کی ملاقاتیں بھی ہیں۔ فہرست میں پہلا نام استادِ گرامی ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا ہے جو جامعہ کراچی کے وائس چانسلر اور وزیر تعلیم، وزیر اطلاعات بھی رہ چکے ہیں۔ لیکن ان کی اصل پہچان ایک مؤرخ کی ہے جس کی وجہ سے وہ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ دوسرا نام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا، اور تیسرا آغا شورش کاشمیری کا ہے۔ سید مودودیؒ کسی تعارف کے محتاج نہیں، لیکن ایک نوجوان صحافی پوچھ رہا تھا کہ یہ شورش کاشمیری کون تھے۔ چوتھا نمبر عبدالکریم عابد مرحوم کا ہے جو متعدد صحافیوں کے استاد رہے ہیں۔ صحافی، تجزیہ نگار، صاحبِ کتاب اور جسارت و فرائیڈے اسپیشل سمیت کئی اخبارات و جرائد کے مدیر رہ چکے ہیں۔ ہم نے بھی جسارت میں ان سے فیض پایا ہے۔ فہرست میں 10 شخصیات کا ذکر ہے اور ہر شخصیت ایسی کہ اس پر کئی کتابیں لکھ دی جائیں۔ پیشِ لفظ خواجہ رضی حیدر نے خود اپنے قلم سے لکھا ہے۔ بڑی قدآور شخصیت ہیں۔
یہ صرف ملاقاتیں یا رسمی انٹرویوز نہیں ہیں بلکہ اہم ترین پہلو وہ انکشافات ہیں جو ان نامور شخصیات نے کیے ہیں، جلیس نے ان سے اگلوائے ہیں۔ یہ انکشافات پاکستان کی تاریخ کے معتبر حوالے ہیں۔ ان سب کو الگ سے جمع کرلیا جائے تو نئی کتاب بن جائے گی۔
فہرست میں پہلا نام ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا ہے چنانچہ ان کا تذکرہ پہلے۔ یاد رہے کہ راوی جلیس سلاسل ہیں۔ ان کے مطابق ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی ڈگری کینسل کروا دی۔ ڈاکٹر صاحب زندہ ہوتے تو بہت سی ڈگریاں منسوخ ہوچکی ہوتیں۔ رحمان ملک کی نامعلوم خدمات کے عوض خود جامعہ کراچی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی ہے۔ ایک اہم انکشاف یہ ہے کہ قراردادِ مقاصد کا مسودہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا تحریر کردہ تھا۔ نئی نسل شاید قراردادِ مقاصد سے پوری طرح باخبر نہ ہو، یہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی دستور ساز اسمبلی میں منظور ہوئی جسے 1973ء کے آئین کا لازمی حصہ بنایا گیا۔ بھٹو کے دور میں سندھ میں لسانی بل پیش ہوا تو اس کے خلاف ممتاز ترین شخصیات نے مظاہرہ کیا جس کی قیادت اشتیاق حسین قریشی نے کی۔ اب تو یہ بات بھی فراموش ہوگئی کہ لسانی بل کیا تھا اور اس پر کیسا شدید احتجاج ہوا۔ بھٹو نے کراچی کے اکابرین سے ملاقات میں وعدہ کیا کہ 12 سال تک (1984ء تک) اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کردیا جائے گا اور سندھی ایڈیشنل زبان کے طور پر موجود رہے گی۔ یہ قصۂ پارینہ ہے، جلیس سلاسل نے جس کی باز خوانی کی ہے۔
سید مودودیؒ کا ذکر آئے تو بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ’’قلم‘‘ پر بار خدا یہ کس کا نام آیا۔ ان کی علمی و ادبی حیثیت مسلّم ہے، لیکن جلیس اس سے ہٹ کر کچھ دوسرے گوشے سامنے لائے ہیں۔ سید سے ان کی پہلی ملاقات کا احوال چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں،گو کہ یہ بھی دل چسپ ہے مگر اس میں جلیس نے اپنی تعریف کا اہتمام بھی کیا ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ ایک پارس سے ملے تھے۔ اہم واقعہ فروری 1974ء کا ہے۔ جلیس سلاسل آغا شورش کے ساتھ مینارِ پاکستان کی طرف نکلے جہاں مسلم سربراہ کانفرنس ہونے والی تھی۔ وہاں اطلاع ملی کہ بنگلہ دیش منظور ہوگیا۔ بھٹو صاحب نے اسی مقصد کے لیے یہ کانفرنس بلائی تھی۔ عوام بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔
سربراہ کانفرنس کے باہر ہی ایک پولیس افسر نے اطلاع دی کہ بنگلہ دیش منظور ہوگیا۔ آغا شورش نے جلیس سے کہا کہ تم مولانا (سید مودودی) کے پاس جاکر معلوم کرو کہ کیا وہ بھی اس جرم میں شریک تھے؟ جلیس سلاسل مولانا کی قیام گاہ پر پہنچے اور یہی سوال کیا۔ سید مودودی کا جواب توجہ طلب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم پاکستان نے مجھے دعوت نہیں دی تھی لیکن سربراہ کانفرنس میں شاہ فیصل نے بھٹو سے پوچھا کہ کیا بات ہے مولانا مودودی نظر نہیں آئے؟ بھٹو نے فوری طور پر غلام مصطفی کھر اور دو وزرا کو مجھے لینے کے لیے بھیج دیا۔ میں نے انکار کیا تو انہوں نے شاہ فیصل کا حوالہ دیا۔ مجبوراً ان کے ساتھ چلا گیا۔ لیکن ابھی میں اسمبلی ہائوس (پنجاب) کی سیڑھیوں ہی پر تھا اور گورنر غلام مصطفی کھر اور دو وزرا سہارا دے کر اوپر چڑھا رہے تھے کہ کوئی شخص دوڑتا ہوا آیا کہ بنگلہ دیش منظور ہوگیا۔ بس اتنا سننا تھا کہ میرے قدم اچانک رک گئے اور ان لوگوں کی گرفت بھی ڈھیلی پڑ گئی۔ میں تیزی سے الٹے پائوں اتر آیا، موٹر میں بیٹھا اور گھر چلا آیا۔ بس اللہ نے بچا لیا۔
سید مودودی کی زبانی اس روداد کی اہمیت یہ ہے کہ مخالفین ایک عرصے تک یہ کہتے رہے کہ جس اجتماع میں بنگلہ دیش منظور ہوا اس میں مولانا بھی شریک تھے۔یہ کوئی راز نہیں کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے اعلان سے پہلے وزیراعظم بھٹو پیدل چل کر 5۔ اے ذیلدار پارک مولانا سے ملنے آئے اور اس تشویش کا اظہار کیا کہ امریکا اور یورپی ممالک امداد بند کردیں گے، آپ شاہ فیصل سے معلوم کریں کہ کیا وہ ہماری مدد کریں گے۔ اور شاہ فیصل نے سید مودودی کو یقین دلایا کہ سعودی عرب کے خزانے پاکستان کے ہیں، مکمل مدد کی جائے گی۔ اور شاہ فیصل نے یہ وعدہ بخوبی نبھایا۔
ایک ایک بات لکھنے لگے تو معمارانِ جلیس کی نئی کتاب بن جائے گی۔ تاہم کچھ شخصیات کا تذکرہ ضروری ہے۔ عبدالکریم عابد مرحوم کے لیے 61 صفحات مختص کیے گئے ہیں اور وہ اس کے مستحق بھی تھے۔ بڑے نہیں، بہت بڑے صحافی اور اس سے بھی بڑے انسان تھے۔ باکمال صحافی مگر ایک مردِ درویش۔
فیض احمد فیض اپنی شاعری میں بڑے انسان دوست نظر آتے ہیں لیکن حقیقت یہ تھی کہ ان کا مسلک صرف کمیونزم تھا اور جب ڈان کے ہارون گروپ نے حریت خرید کر فیض کو چیف ایڈیٹر بنایا تو انہوں نے اخبار کو کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان بنانے کے لیے اسلام پسند اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو نکال دیا۔
جلیس سلاسل کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ 1970ء میں جسارت کے دوسرے شمارے ہی میں ان کی بائی لائن رپورٹ شائع ہوئی۔ اُس وقت عبدالکریم عابد میگزین ایڈیٹر تھے اور حریت چھوڑ کر آئے تھے۔ عبدالکریم عابد کے بارے میں متعدد صحافیوں کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ جلیس سلاسل کو ان کی شاگردی کا دعویٰ بھی ہے۔ عبدالکریم عابد مرحوم کی اپنے بارے میں لکھی گئی ایک تحریر کا اقتباس: ’’کچھ جگمگاتے ہوئے لمحے، وہ لمحے جب خدا نے مجھے سچ لکھنے اور حق پر گواہی دینے کی توفیق عطا کی… جب تک سانس باقی ہے، جب تک دل سینے میں دھڑکتا ہے مجھے سچ پر گواہی کی توفیق عطا کر خواہ میں (اس ہجوم میں) اکیلا رہ جائوں۔‘‘ اور اللہ نے ان کی یہ دعا قبول کرلی۔
میجر جنرل (ریٹائرڈ) غلام عمر کا تذکرہ کیے بغیر یہ سلسلہ نامکمل رہے گا۔ وہ قائداعظم کے پہلے آنریری اے ڈی سی، وزارتِ قومی سلامتی امور کے سیکریٹری اور 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے ہیرو تھے۔ ان کے کچھ واقعات کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ جرنیلوں سے موازنہ کیا جائے۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان جنرل ضیاء الحق کو کسی اہم معاملے پر جنرل غلام عمر سے بات کرنے کی ضرورت ہوئی اور ملٹری سیکریٹری سے فون ملانے کو کہا تو معلوم ہوا کہ ان کے گھر پر فون نہیں ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے حیرت سے کہا کہ ایک جنرل اور وہ بھی جو اہم منصب پر فائز رہا، اس کے گھر پر فون نہیں ہے! فوری حکم دیا کہ فون لگایا جائے۔ جنرل غلام عمر کو معلوم ہوا تو پوچھا اس کا بل کون دے گا؟ اور فون لگوانے کے اخراجات مَیں قسطوں میں ہی دے سکتا ہوں۔ ایک اور واقعہ: ایک چھوٹی سی کار میں گھر کا سودا لا کر کندھے پر لاد کے اتار رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا اتوار بازاروں میں سودا سستا مل جاتا ہے، کچھ بچت ہوجاتی ہے۔ آج کے جرنیل تو یہ بھی نہ جانتے ہوں گے کہ اتوار بازار یا جمعہ بازار کہاں لگتا ہے اور گھر کے سودے میں بچت کیسے کی جاتی ہے۔ ویسے تو کئی سودوں میں بچت کی جاتی رہی ہے۔ جنرل غلام عمر کا بیٹا جنرل خالد عمر بھی باپ جیسا نکلا کہ جب مالاکنڈ ایجنسی میں اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوں کو فوج نے بڑی تعداد میں ہلا ک کر دیا تو جنرل خالد عمر مستعفی ہوگئے۔ یہ صدر غلام اسحاق خان کے دور کی بات ہے۔ خالد عمر کا کہنا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے، اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ قطعی درست ہے، پھر ان پر بمباری کیوں کی گئی؟ جنرل غلام عمر کا ایک بیٹا محمد زبیر سندھ کا گورنر تھا اور دوسرا بیٹا اسد عمر آج کل وزیر خزانہ ہے۔ بڑے باپ کے بیٹے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے ماں، باپ کی خوبو سے محروم اولاد کے لیے کہا تھا ’’دودھ تو ڈبے کا ہے اور تعلیم سرکار کی‘‘۔
سید شریف الدین پیرزادہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کے لیے صرف ایک جملہ کہ ’’جب وہ اسلام آباد ائرپورٹ پر اترتے تھے تو اخبارات قوم کو یہ نوید سنا رہے ہوتے کہ موجودہ حکومت کا بستر لپٹنے والا ہے‘‘۔ لیکن بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں ہم نے ان کو ’’اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر‘‘ کے عالم میں دیکھا۔ تاہم جلیس سلاسل کے بقول ان کا پیرزادہ سے دوستانہ 35 سال پر محیط ہے۔ یہ طویل داستان ہے۔ اس کے بعد علامہ عبدالقدوس ہاشمی، سلیم احمد، نسیم حجازی، پروفیسر ڈاکٹر مسکین علی حجازی جیسی نابغۂ روزگار شخصیتوں کا احوال ہے جن سے جلیس سلاسل ملتے اور بقول خود اپنی شخصیت کی تعمیر کرتے رہے۔ اگر سب کچھ ہم نے ہی لکھ دیا تو کتاب کون پڑھے گا! لہٰذا قارئین کتاب خریدیں یا کسی سے مفت حاصل کریں اور پڑھیں۔ کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی نہیں کریں گے کہ یہ کوئی ادبی کتاب نہیں، اور پھر ہمیں دوست بھی کہا ہے۔ یہ ایسی تاریخ ہے جو تاریخ سازوں نے خود بیان کی ہے۔

حصہ