مختصر سی پریشانی

229

آمنہ آفاق
آج مرحہ اپنے گھر آئی تو الجھی الجھی اور بے زار سی لگ رہی تھی۔ مما نے نوٹ تو کیا مگر خاموش رہیں کہ وہ شاید خود ہی اُن سے اپنا حالِ دل کہے مگر رات کو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مما سے نہ رہاگیا تو پوچھ ہی ڈالا ’’کیا ہوا بیٹا! کوئی پریشانی ہے‘ کافی چپ چپ ہو؟‘‘
’’نہیں مما بس ایسے ہی‘ دل نہیں چاہ رہا زیادہ بات کرنے کا۔‘‘ مرحہ نے ہولے سے جواب دیا۔
’’کیوں بیٹا! لڑکیاں میکے آتی ہیں تو خوشی ان کے ہر انداز سے نمایاں ہوتی ہے‘ نت نئی فرمائشیں کرتی ہیں وہ اور آپ ہو کہ خاموش بیٹھی ہو‘ کیا ہوا میری چنچل اور شوخ گڑیا کو۔‘‘ زرینہ بیگم نے استفسار کیا۔
’’تنگ آگئی ہوں مما میں‘ یہ بھی کوئی زندگی ہے دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنی ذات تک کی نفی‘ پھر بھی خاک کے سواکچھ ہاتھ نہیں‘ ہر نیا دن ایک چیلنج کے طور پر سامنے آتا ہے‘ گھر کے کام نمٹاتے نمٹاتے میں آدھی ہو جاتی ہوں مگر کسی کو بھی میری قربانیاں نظر ہی نہیں آتیں۔‘‘ مرحہ نے روہانسی ہو کر مما کو بتایا۔
’’تو میرے بچے مت ہوا کرو ہلکان‘ جب کوئی صلہ نہیں ہے تمہاری خدمت کا تو تمہیں بھی کسی کے لیے قربان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘ تمہارے بابا سے کہوں گی کہ ذیشان سے بات کریں کہ وہ تمہارے لیے الگ گھر لے اب چاہے کرائے کا ہی ہو مگر میری بچی وہاں نہیں جائے گی اب۔‘‘ زرینہ بیگم جذباتی انداز میں بولیں۔
’’مگر مما ذیشان کسی صورت نہیں مانیں گے۔‘‘ مرحہ نے بے چارگی سے کہا۔
’’تم ہم پر بوجھ نہیں ہو مرحہ‘ اب تم جب ہی جائو گی جب تک ذیشان تمہارے لیے الگ گھر کا انتظام نہیں کرلیتا۔‘‘ زرینہ بیگم نے تو جیسے فیصلہ ہی سنا دیا۔
’’یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ زرینہ بیگم! ہوش کے ناخن لو‘ میں کہتا ہوں کیوں اپنی بیٹی کا بسا بسایا گھر اجاڑنے کے چکر میں پڑی ہیں آپ۔‘‘ زبیر صاحب مرحہ کے بابا جانی تو زرینہ بیگم کا اٹل فیصلہ سنتے ہی سٹپٹا گئے۔ ’’چھوٹی موٹی نوک جھونک کس گھر میں نہیں ہوتی‘ بچی کو زمانے کے نشیب و فراز سمجھانے کے بجائے آپ اس کی اس قدر غلط رہنمائی کر رہی ہیں ابھی شادی کو مشکل سے چھ ماہ ہی تو ہوئے ہیں اور آپ کو کیا لگتا ہے کہ ذیشان بیٹا اس ناجائز مطالبے کو مان جائیں گے۔ ہماری اکلوتی بیٹی کی شادی شدہ زندگی خطرے میں بھی پڑ سکتی ہے۔‘‘
’’ارے پڑتی ہے تو پڑے‘ میں ان کے گھر میں اپنی بیٹی دی ہے کوئی ملازمہ نہیں جو اُس کی ناقدری کرتے رہیں‘ ویسے بھی کمی نہیں میری بیٹی کے لیے رشتوں کی۔‘‘ زرینہ بیگم نے زبیر صاحب کی بات کو ہوا میں اُڑایا اور باورچی خانے میں چل دیں۔‘‘
زبیر صاحب ایک زمانہ شناس اور صلح جو شخصیت کے مالک تھے اور وہ اپنی اہلیہ کی ضدی طبیعت سے بھی خوب واقف تھے سو اپنی بیٹی سے خود ہی بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’السلام علیکم بابا جانی!‘‘ صبح سویرے ناشتے کی میز پر اخبار میں مگن بابا جانی نے بیٹی کی جانب دیکھا اور سلام کے جواب کے ساتھ ڈھیروں ڈھیر دعائوں سے نوازا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر بابا جانی نے بات کا آغاز کرتے ہوئے مرحہ کو متوجہ کیا۔
’’بیٹا میں جاننا چاہتا ہوں کہ آخر وہ کیا مشکلات ہیں جس پر آپ صبر نہ کرسکیں۔ مجھے ڈر ہے کہ اپنی وہ الجھنیں جو محض وقتی ہوں یا بہت ہی مختصر یا اس سے تھوڑی زیادہ مدت کے لیے ہوں لیکن آپ اپنی ناراضی کی وجہ سے ان کو بڑھا کر ساری زندگی کے لیے دشواری کا سامان نہ بنا لو۔
’’بابا جانی مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں وہاں پر کسی کو بھی خوش نہیں رکھ پا رہی ہوں‘ ہر کام میں یہی سوچ کر کرتی ہوں کہ ان سب کو پسند آئے گا اور میری تعریفیں کریں گے مگر وہاں تو الٹا اس میں خامیاں نکالنا شروع کردی جاتی ہیں یہاں تک کہ سب لوگ بڑی بھابھی کے گن گاتے نظر آتے ہیں حالانکہ جو کام وہ کرتی ہیں میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ان سے اچھا کرکے دکھائوں مگر پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی کمی رہ ہی جاتی ہے۔ بابا میں وہاں جا کر بہت زیادہ عدم اعتماد کا شکار ہو گئی ہوں‘ ہر وقت کی روک ٹوک‘ پابندیاں‘ قاعدے اور پھر اوپر میں سے شوہر کو قابو میں کر لینے کے طعنے میں اب مزید برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘ مرحہ نے نم آنکھوں کے ساتھ اپنا مسئلہ بیان کیا۔
’’اوہ تو یہ بات ہے بیٹا! مجھے نہیں لگتا کہ میری گڑیا اتنی جلدی آزمائش سے گھبرا جائے گی۔ یہ آزمائشیں تو بیٹا آج کل ہر ایک کو درپیش ہیں مگر آپ کو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے نہ کہ ڈر کر بھاگ جانا ہے۔ میرے بچے آپ نے وہ حدیث تو سنی ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔‘‘
’’جی بابا جانی!‘‘ مرحہ نے ہولے سے جواب دیا۔
’’تو پھر بس اب اس پر عمل کرنا ہے آپ کو‘ کوئی بھی کام آپ خلوصِ نیت سے محض اللہ کی خوشنودی کی خاطر کریں گی اور اس کا مقصد دکھاوا یا ریا کاری نہیں ہوگا تو آپ کو اس کے سو فیصد نتائج حاصل ہوں گے‘ دنیا میں بھی اور آخرت میں تو ہے ہی اس کا اجر اللہ کے ذمے۔‘‘ بابا جانی نے مرحہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا اور اپنی بات جاری رکھی ’’آپ اپنا ہر کام صرف تعریفی کلمات سننے کے لیے نہیں بلکہ بہت احسن طریقے سے اپنا فرض سمجھتے ہوئے محبت و انکساری کے ساتھ کرو گی تو آپ کے دل میں بھی اپنے عزیزوں کے لیے محبت پیدا ہوگی اور آپ کے عزیز بھی آپ کے خلوص کی قدر کیے بغیر نہیں رہیں گے بس میرے بچے اخلاص نیت ضروری ہے اس کے علاوہ اگر آپ کی بھابھی گھر کے کام کرکے تعریفیں سمیٹ رہی ہیںتو آپ بھی خوش دلی سے ان کی تعریف کریں اور بجائے ان سے بدظن ہونے کے ان سے سیکھیں اور رہی بازی لے جانے والی بات تو بیٹا دوسروں پر بازی لے جانے کے بجائے دین کے کاموں پر نیک کاموں میں بازی لے جانے والی بنیے جس سے میرا رب راضی ہو‘ دنیا والوں کی تعریفیں حاصل کرنے لیے کام کرنا یا ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں گھِرنا محض اپنے آپ کو تھکانا ہے اگر اس میں اخلاص شامل نہ ہو تو یہ گھر‘ یہ رشتے بہت نازک آبگینے کی طرح ہوتے ہیں اور یہ ہمارے صبر و استقامت اور قربانیوں کی وجہ سے قائم رہتے ہیں‘ جلد بازی میں کوئی بھی فیصلہ سوائے پچھتائوے کے کچھ نہیں دیتا اور اپنے رب کی ناراضی کے مرتکب الگ بن جاتے ہیں اور زرینہ بیگم آپ بھی یہ بات گرہ سے باندھ لیں۔‘‘ زبیر صاحب نے سرحہ کو سمجھانے کے بعد اپنی اہلیہ کو سرزنش کے انداز میں مخاطب کیا۔
’’بیٹیاں بہت حساس ہوتی ہیں‘ شادی کے بعد جب میکہ چھوٹتا ہے تو یہ اور زیادہ پیارا ہو جاتا ہے اور مائوں کی ہر بات پہلے سے زیادہ جلدی مانتی ہیں تو آپ بیٹی کا دل بے شک ہلکا کریں‘ اس کی چھوٹی موٹی پریشانیوں کو بانٹیں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں اسے سمجھائیں نہ کہ کوئی غلط مشورہ دے کر اس کی زندگی خراب کر دیں کیوں کہ اب وہ ایک عملی زندگی میں قدم رکھ چکی ہے اور آپ کی اچھی رہنمائی اس کی زندگی اور حسین بنا سکتی ہے۔‘‘
’’میں سمجھ گئی میرا مشورہ غلط تھا میں مانتی ہوں‘ بس میں بیٹی کی محبت میں جذباتی ہوگئی تھی۔‘‘ زرینہ بیگم نے شرم ساری سے جواب دیا۔
’’بابا جانی! آپ کا شکریہ میں ان شاء اللہ آپ کی نصیحت پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔‘‘ محبت بھرے لہجے میں نم آنکھوں کی ساتھ مرحہ نے بابا جانی سے کہا اور بابا جانی نے مرحہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈھیروں ڈھیر دعائوں سے نوازا۔
آج مرحہ کی شادی کو پانچ سال ہوگئے ہیں اور وہ اپنی زندگی سے پوری طرح مطمئن ہے۔ گھر کا ہر فرد بھی اس سے خوش ہے اور وہ اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ پریشانیاں مختصر وقت کے لیے ہوتی ہیں اور کوئی بھی غلط قدم ان پریشانیوں کی عمر بڑھا سکتا ہے۔

حصہ