اچھے بچوں کے اچھے کام

758

مریم شہزاد
نانو چھت پر پرندوں کو دانہ پانی ڈالنے گئے تو احمد، علی اور یوسف بھی ساتھ تھے۔ نانو تو دانہ پانی ڈال کر نیچے آگئیں اور وہ تینوں اوپر ہی کھیلنے لگے، آج تو احمد اور یوسف کو نیا کھیل سوجھا، جیسے ہی پرندے روٹی کھانے یا پانی پینے آتے وہ دونوں بھاگتے ہوئے آتے اور سب کو اڑا دیتے اور دوبارہ اپنے کھیل میں لگ جاتے، کوے چڑیا اور کبوتر دوبارہ آتے تو وہ دونوں پھر سے اڑا دیتے۔ علی نے کہا۔
” احمد، یوسف ایسے نہیں کرو ان کو بھوک لگی ہو گی ان کو کھانے دو،” مگر احمد اور یوسف کو بہت مزا آرہا تھا انہوں نے علی کی بات نہیں سنی تو علی نے نانو کو آواز دی۔
”نانو۔۔۔ نانو ذرا چھت پہ آئیے گا، دیکھیں یہ دونوں پرندوں کو کھانا کھانے نہیں دے رہے،”
نانو نے یہ سنا تو فوراً چھت پر آئیں، احمد اور یوسف نے اسی وقت پرندوں کو بھگایا تھا۔
”کیا ہو رہا ہے یہ، یہ آپ لوگ گندے بچے کیوں بن گئے؟ مغرب ہونے والی ہے ان کے گھر جانے کا ٹائم ہو رہا ہے اور آپ لوگ ان کو پریشان کر رہے ہیں”
”نانو بہت مزا آرہا ہے، سب کوّے ڈر کے بھاگ جاتے ہیں” احمد نے کہا۔
”بالکل ہی ڈرپوک ہیں، ہم تو صرف بھاگ کر آتے ہیں ان کے پاس” یوسف نے بھی احمد کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”بہت گندی بات کی آپ نے، اتنے اچھے بچے ہو کر بھی بالکل غلط حرکت ہے یہ۔۔۔ چلیں نیچے چلیں، ان کو آرام سے کھانے دیں”
نانو نے غصے سے کہا تو وہ خاموشی سے نیچے آگئے جہاں ایمن خالا ان کے لیے مزے مزے کی چیزیں بنا رہی تھی پارپ کارن، نوڈلز، جوس، منی پیزا، سب چیزیں تیار ہو گئی تو سب بچے کھانے کے لیے بیٹھ گئے۔
ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ نانو نے احمد سے کہا دیکھنا دروازے پر کوئی آیا ہے”۔
” میں، میں دیکھوں” اس نے ہاتھ میں پکڑے پیزا کو دیکھتے ہوئے کہا ”اچھا جاتا ہوں” اس نے پیزا پلیٹ میں رکھا اور تیزی سے دروازے کی طرف گیا اور جلدی سے واپس آگیا۔
”نہیں نانو کوئی بھی نہیں ہے” اور جلدی سے پیزا اٹھا کر کھانے لگا۔
”یوسف آپ کی مما آواز دے رہی ہیں” نانو نے کہا۔
”نہیں نانو، مجھے تو آواز نہیں آئی” اس نے نوڈلز کھاتے ہوئے کہا
مجھے تو آئی ہے، جاؤ سن کر آو”
”اچھا اس نے بیدلی سے نوڈلز رکھے اور بھاگ کر گیا اور واپس آیا۔
”نہیں نانو، نہیں بلارہی تھی”۔
ایمن خالا نے آکر کہا یوسف اور احمد اور علی ابو بلا رہے ہیں۔
”اف فو، تینوں جلدی سے گئے تو نانا ابو نے کہا کہ آرام سے کھا پی کر آنا ابھی تو میں بھول گیا کہ کیوں بلایا تھا۔
وہ واپس آ کر پھر بیٹھ گئے جب سب چیز کھا چکے تو نانو نے پوچھا ”کیسا لگ رہا تھا بار بار کھانے سے اٹھ کر جانا؟”
بہت بُرا،”
”تو پرندوں کو بھی تو غصہ آیا ہوگا نا جب آپ ان کو بار بار کھانے پینے سے بھگا رہے تھے”۔
”جی نانو” دونوں شرمندگی سے بولے۔
”پھر اب کیا خیال ہے؟”
سوری نانو، اب ہم ایسا نہیں کریں گے”
”شاباش، بہت پیارے بچے ہیں اور پیارے بچے اچھے کام ہی کرتے ہیں”

حصہ