اپنے علم وتجربات سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں

486

افروز عنایت
عبائیے پہنے ہوئے وہ خاتون برقی سیڑھیوں پر سوار ہونے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی لیکن سیڑھی پر پائوں رکھتی اور سیڑھی آگے سرک جاتی تو وہ ڈر کر پیچھے ہو جاتی اس طرح اس کا عبایہ بھی پیروں میں الجھ رہا تھا یوں لگ رہا تھا کہ اسے برقی سیڑھیاں استعمال کرنے کا تجربیہ نہ تھا جبکہ اس کے ساتھی مرد اور خاتون بھی اس کی کسی قسم کی مدد نہیں کر رہے تھے مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ اگر اسے نہ روکا گیا تو وہ یقینا گر کر زخمی ہو سکتی ہے لہٰذا میں آگے بڑھی اسے روکا اور اس کی ساتھی خاتون سے کہا کہ یا تو آپ اس کی مدد کریں یا وہ سامنے سادہ سیڑھیوں کے ذریعے اسے اوپر لے جائیں (کیونکہ پچھلے دنوں برقی سیڑھیوں سے ایک خاتون کا گرنے کا واقعہ نظروں سے گزرا تھا۔) میری بات سن کر وہ حضرت ان خاتون کو سادہ سیڑھیوں کی طرف لے گئے۔ میرے شوہر نے مجھے کہا کہ ضروری تھا کہ آپ اسے کچھ کہیں وہ خود بھی سمجھ دار تھے خود ہی کوئی فیصلہ کرتے میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ایک چیز اگر کسی کو معلوم نہیں تو سامنے والے کو معلوم ہے تو مدد ضرور کرنی چاہیے تاکہ اس کا بھلا ہو سکے۔
٭٭٭
شاہدہ: سوری مجھے تمہاری رائے سے اختلاف ہے آپ لوگ صحیح نہیں کر رہے۔
انعم: (ناراضگی سے) اس میں برائی ہی کیا ہے میں اس کی پھوپھو ہوں اسے میں نے پالا ہے مجھ سے تو اس کی تکلیف نہیں دیکھی جا رہی نہ جانے اس کے حالات کب صحیح ہوں جب تک وہ جلتی کڑھتی رہے گی اور وہ وقت بھی تو نہیں دے پا رہا ہے ابھی ہمارے پاس ایک معیاری رشتہ ہے اس سے طلاق لے کر دوسری شادی کروا دیں گے باہر کا رشتہ ہے روپیہ پیسہ کسی چیز کی بھی کمی نہیں ہے اس کے پاس عیش کرے گی بچی…۔
شاہدہ: اور اس کی بچی؟ اس کا کیا قصور ہے… معذرت کے ساتھ کسی کا بنا بنایا گھر اس طرح ڈھانا اور اس کی طلاق کروانا گناہ ہے۔ (شاہدہ کی جوان بیٹی جو سامنے بیٹھی سب سن رہی تھی اس نے ماں کو اشارہ کیا کہ آپ چھوڑ دیں اس معاملے میں دخل اندازی نہ کریں) حالات تو صحیح ہو سکتے ہیں اللہ سے ہمیشہ اچھی امید اور اچھا گمان رکھنا چاہیے میرے خیال میں میری پیاری دوست یہ گناہ تم اپنے سر نہ لو ذرا تنہائی میں سوچنا۔ یہ اتنا بڑا اور گمبھیر مسئلہ نہیں کہ طلاق ہی سے اس کا فیصلہ ہو۔ انعم کے جانے کے بعد شاہدہ کو اس نے گھروالوں نے کہا انعم آپ کی بات سے ناراض ہو رہی تھی آپ کا کیا ہے جو کریں وہ سب اس لڑکی کے رشتہ دار ہیں شاہدہ نے اپنے گھر والوں کی بات سن کر کہا بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سامنے کچھ غلط ہو اور ہم خاموش رہیں کسی مفید بات سے دوسروں کی اصلاح کرنی ضروری ہے تاکہ ان کا فائدہ ہو میں جانتی ہوں کہ انعم کو اپنی بھتیجی سے بے انتہاہ محبت ہے لیکن اس محبت میں وہ غلط فیصلے میں سب کا ساتھ دے رہی ہے۔
٭٭٭
گھر گئی تو انعم کے کانوں میں اپنی دوست کے الفاظ باز گشت کررہے تھے اسے اپنی دوست پر غصہ بھی آرہا تھا لیکن جب اس نے تنہائی میں اس مسئلے پر غور کیا تو اسے شاہدہ کی بات میں وزن نظر آیا کہ وہ غلط نہیں کہہ رہی تھی واقعہ میں ہم جلد بازی اور جذبات میں آکر ایک انتہائی غلط قدم اٹھانے جا رہے تھے جس سے ایک گھر ٹوٹ رہا تھا۔
٭٭٭
ہستپال کے ویٹنگ روم میں کافی رش تھا سویرا نے کاونٹر سے نمبر لیا اور ایک خالی کرسی پر براجمان ہو گئیں دو ڈھائی سالہ بچی اس کی گود میں بھی جبکہ سات آٹھ سالہ بیٹے کے ہاتھ میں اسکول بیگ تھا اس کا نمبر آنے میں تقریباً ایک گھنٹہ تھا لہٰذا اس نے بچے سے بیگ لیا اور اس میں سے کاپی اور پنسل نکال کر اسے پڑھانے لگی لیکن اتنی رش میں اور کئی بچوں کو کھیلتے دیکھ کر اس کا دل پڑھنے میں نہیں لگ رہا تھا جبکہ ماں اسے ڈانٹ ڈانٹ کر پڑھنے اور سبق یاد کرنے کی طرف راغب کر رہی تھی بلکہ اسی اثنیٰ میں اس نے بچے کو ایک تھپڑ بھی جھڑ دیا سیما کا نمبر آنے میں بھی ابھی کافی دیر تھی اس کی توجہ اس خاتون اور بچے کی طرف ہی تھی اب وہ بچے پر چیخ رہی تھی کہ کل تمہارا پیپر ہے اور تم نالائق سبق یاد نہیں کر رہے ہو آخر سیما کا صبر جواب دے گیا اس نے پاس بیھٹے شوہر سے کہا کہ بے وقوف خاتون ہے چاروں طرف کی رونق اور بچوں کو کھیلتے بولتے دیکھ کر یہ بچہ کس طرح یہاں پڑھائی کر سکتا ہے اس کا دھیان تو آس پاس لگا ہوا ہے ٹھہرو میں اس خاتون کو سمجھاتی ہوں شوہر نے سیما کی بات سن کر لاپرواہی سے کہا ہمارا کیا جائے دفع کرو وہ اس کی ماں ہے جو چاہے کرے اتنے میں بچے کے رونے کی آواز پر وہ دوبارہ خاتون اور بچے کی طرف متوجہ ہوئی جو ماں کا دوسرا تھپڑ کھا چکا تھا تب سیما اس کی طرف رخ کرکے مسکرائی اور کہا شاید آپ کے کا کل امتحان ہے اس لیے آپ پریشان ہو رہی ہیں۔
ماں: ہاں نا… لیکن یہ پڑھ ہی نہیں رہا تنگ کیا ہے اس نے تو…
سیما: میری بہن یہ اس وقت بالکل نہیں پڑھے گا اگر تمہارے ڈرانے دھمکانے سے کاپی ہاتھ میں لے کر بیٹھ بھی گیا تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اس کا دھیان اس وقت کہیں اور لگا ہوا ہے اس لیے یہاں آپ کی یہ محنت بیکار جائے گی۔
ماں: تو اب میں کیا کروں گھر میں کوئی تھا ہی نہیں اور منی کو ڈاکٹر کے پاس لانا بھی بہت ضروری تھا۔
سیما: میری مانیں تو اس کو اس وقت کھیلنے دیں اس کا موڈ پڑھائی کی طرف نہیں ہے بیکار میں ایک گھنٹہ یہاں تھک جائے گا تو گھر جا کر تو پڑھائی سے بالکل چڑ جائے گا آپ آرام سے گھر جا کر اس کو پڑھائیں وہاں ایک گھنٹہ میں جو پڑھائی کرے گا اس ماحول میں وہ بالکل نہیں کر پائے گا۔
اس طرح سیما کی بات اس خاتون کے ذہن میں بیٹھی اور وہ بچہ خوشی سے اپنے ہم عمر دو بچوں کے ساتھ باتیں کرنے اور کھیلنے میں مصروف ہو گیا۔
سیما کے شوہر سیما پر ناراض ہوئے کہ بیکار میں اس کو کیوں نصیحت کرنے چلیں تم۔
سیما نے کہا یہ نصیحت نہیں تھی ایک مفید بات تھی جو اس خاتون تک میں نے پہنچائی تاکہ اس کا کچھ فائدہ ہو جائے۔
٭٭٭
صفدر نے کافی کوشش کی کہ دفتر وقت پر پہنچ پائے لیکن وہ کافی لیٹ ہو گیا جس کی وجہ سے افسر نے اسے خوب سنائیں کہ آئے ہوئے آپ کو پندرہ دن بھی نہیں ہوئے اور یہ دوسری مرتبہ آپ کی لیٹ ہے آئندہ کے لیے محتاط رہیے گا ورنہ وہ صاحب کے کمرے سے باہر آیا تو اسے بڑی شرمندگی ہوئی اس کے ساتھی کان لگائے اس کی بے عزتی سن رہے تھے بلکہ آپس میں اس کا مذاق بھی اڑا رہے تھے جب وہ نشست پر بیٹھ گیا تو ایک ساتھی اٹھ کر آیا سر کو آپ سے اس طرح گفتگو نہیں کرنی چاہیے پیچھے سے دوسرے کی آواز آئی تم بھی تو کچھ نہیں بولے اب آئندہ وہ تمہیں ذرا ذرا سی بات پر سنائیں گے۔ اس کا جی چا رہا تھا وہ نوکری چھوڑ کر بھاگ جائے مگر بڑی جدوجہد کے بعد اسے یہ نوکری ملی تھی جسے وہ کھونا نہیں چاہتا تھا۔
لنچ ٹائم میں سب کینٹین کی طرف نکل گئے مگر وہ ابھی تک اپنی سیٹ پر ہی موجود تھا سامنے عمیر صاحب بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بھی اپنی فائل بند کی جانے والے ہی تھے تو اس کی نظر صفدر پر پڑی وہ اس کی طرف آگیا۔
عمیر: صفدر صاحب… چائے وغیرہ نہیں لیں گے۔
صفدر: ہاں ہاں آپ چلیں میں آرہا ہوں۔
عمیر: آپ کو شاید صاحب کی بات بری لگی ہے (صفدر کو خاموش دیکھ کر کچھ دیر بعد پھر بولے) صاحب برے نہیں ہیں آپ کا دفتر میں کام کرنے کا یہ پہلا تجربہ ہے افسر اگر شختی نہ کرے تو تمام ماتحت آرام سے دیر سویر آئیں گے بلکہ کام میں بھی ڈنڈی ماریں گے یہ ایک پرائیوٹ فرم ہے جہاں ہم کام کرنے آرہے ہیں جو ایمانداری اور محنت سے کام کرے گا اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے آپ… آپ… میری بات سمجھ رہیں ہیں نا… اِدھر اُدھر کے لوگوں کی نا سنیں بس محتاط رہیں اگر صاحب اس طرح کا رویہ نہ رکھیں گے تو یہ بھی مثل سرکاری ادارہ بن جائے گا میں یہاں تیرہ چودہ سالوں سے کام کررہا ہوں میری کوشش ہوتی ہے کہ افسران بالا کو شکایت نہ دوں اور اپنے آفس کے اصولوں کے مطابق کام کروں الحمدللہ مجھے نہ افسران سے شکایت ہے نہ ان کو مجھ سے اس لیے آپ بھی اپنی غلطیوں کی طرف نظر رکھیں گے تو ضرور اصلاح کر پائیں گے۔ صفدر کو عمیر کی بات میں وزن نظر آیا وہ جو چند لمحے پہلے ڈپریشن کا شکار تھے اب اپنے آپ کو کافی ہلکا پھلکا محسوس کررہے تھے۔ پھر آنے والے دنوں میں اس نے عمیر صاحب کی بات پر عمل پیرا ہو کر اپنے آپ کو اس فرم کا ایک ایماندار اور محنتی کارکن بتایا اس بات کے لیے وہ عمیر صاحب کے شکر گزار بھی ہیں کہ انہوں نے انہیں مفید مشورہ دیا آج ان کی ملازمت کو بیس سال ہو گئے ہیں وہ نئے آنے والوں کی اسی طرح ہمت بندھاتے ہیں۔
٭٭٭
رب العزت نے بنی نوع انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر اسے کائنات میں افضل بنایا ہے ہر انسان کو خوبیوں اور نعمتوں سے نوازا ہے یہ ناممکن ہے کہ کوئی انسان رب کی نعمتوں سے یکسر محروم ہو ان ہی نعمتوں اور خصوصیات اور خوبیوں کی بدولت نہ صرف انسان اپنی زندگی کی کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے بلکہ دوسروں کی زندگیوں کو بھی وہ شخص بڑا بخیل و کنجوس ہے جو دوسروں کو اپنی خوبیوں سے محروم رکھتا ہے اگر کسی کے پاس روپے پیسے کی دولت ہے تو اس میں جس طرح دوسروں کا حق بنتا ہے اسی طرح اس کو اللہ نے دینی و دنیاوی علم سے نوازا ہے یا ذہانت و فراست عطا کی ہے تو جس طرح وقت بہ ضرورت ان خوبیوں سے اپنی ذات کو روشن کررہا ہے یا اپنے گھر والون کو فائدہ پہنچاتا ہے اسی طرح ان خداداد صلاحتیوں سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے تو یہ بھی ایک قسم کا ہدیہ ہے جو وہ دوسروں کو نوازتا ہے۔ بظاہر ایسا عمل معمولی نظر آتاہے لیکن دوسروں کو فائدہ بہم پہنچاتا ہے اس کا معمولی چھوٹا سا مشورہ اس کے اندر چھپی نیکی خلوص کی ترجمانی کرتا ہے۔ رب العزت بھی ان کی اس نیکی نرم پر خلوص دل کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’جنت میں وہ لوگ داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں کے دلوں جیسے نرم ہوں گے۔‘‘
ایسے ہی دوسروں کو فائدہ و سکون پہنچانے والے لوگ خود بھی پرسکون زندگی گزارتے ہیں ہو سکتا ہے آپ کا چھوٹا سا مشورہ ان کی اصلاح کا باعث بن جائے انہیں زندگی میں فائدہ پہنچائے اس لیے اگر کسی کو پریشانی میں مبتلا دیکھیں تو اس کا حل آپ کے پاس ہے تو ضرور دوسروں سے شیئر کریں تاکہ وہ بھی اس سے استفادہ حاصل کرسکیں اگر مفید مشورہ ہو گا تو یقینا وہ بھی اس کے آگے دوستوں سے شیئر کریں گے ایسے موقعوں پر اکثر لوگ بے تعلق بن جاتے ہیں کہ دفع کرو ہمارا کیا جائے یا کون سے ہمارے رشتے دار یا دوست ہیں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوں گے جو یقینا آپ کی دخل اندزی سے چڑ جائیں جیساکہ اوپر کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انعم اپنی دوست شاہدہ کے مشورے پر بہت ناراض ہوئی لیکن اکیلے میں سوچنے کے بعد اسے شاہدہ کی بات میں وزن نظرآیا بعد میں شاہدہ کے ذریعے مجھے معلوم ہوا کہ انعم کی بھتیجی کے حالات آہستہ آہستہ صحیح ہو گئے اور وہ ایک پرسکون اور خوشحال زندگی گزار رہی ہے۔
مجھ سے ایک خاتون نے اپنی بیٹی کے حالات بیان کیے کہ لڑکے کی آمدنی بہت کم ہے بہت لالچی اور خود غرض لوگ ہیں بیٹی کے حالات دیکھ کر میں کڑھتی رہتی ہوں میں نے اس سے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ تمہاری بیٹی کے سسرال والے تمہارے رشتے دار ہیں لڑکے کی آمدنی اور تمام گھریلو حالات سے تم پہلے سے واقف تھیں تم نے دیکھ بھال کر یہ رشتہ قائم کیا تھا اس لیے اب خود پریشان ہونا اور بیٹی کو بھی پریشان کرنا بیکار ہے۔ حالات سے سمجھوتہ کرو اور بیٹی کو بھی صبر کی تلقین کرو وہ ماشاء اللہ پڑھی لکھی ہے اسے زیادہ طیش نہ پہنچائو کہ وہ تمہارے گھر آکر بیٹھ جائے ہاں اگر ممکن ہے تو ماشاء اللہ اس نے ماسٹر کیا ہوا ہے کہیں اسکول میں ملازمت کرکے نہ صرف آمدنی میں اضافہ کر سکتی ہے بلکہ اسے خود بھی سمجھ بوجھ حاصل ہو گی اس خاتون نے میری بات پر عمل کیا اس کی بیٹی اسکول میں پڑھارہی ہے آمدنی میں کچھ اضافہ ہوا تو حالات کچھ بہتر ہوئے تو شوہر کی کنجوسی کا رونا بھی کم ہو گیا ہے قدرے سکوں حاصل ہوا ہے۔
اگر آپ کے پاس بھی کوئی مفید مشورہ ہو جس کی بدولت آپ یا آپ کے گھر والے فائدہ حاصل کرچکے ہوں تو وقت بہ ضرورت دوسروں کے ساتھ شیئر ضرور کریں ہاں ان پر اپنی مرضی اور مشورہ ٹھونسیں نہیں بلکہ شیئر کریں کہ آپ اس طرح کرسکتے ہو آگے ان کی مرضی ہے کہ وہ اس پر عمل کرسکتے ہیں یا نہیں… اس نے مفید مشورے دینے والے اور اصلاحی باتیں شیئر کرنے والے انسان بھی کسی نعمت سے کم نہیں ایسے بندوں سے ان کا رب بھی راضی رہتا ہے۔ اللہ ان کو ایسی منزلیں عطا کرتا ہے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔

حصہ