اللہ کے وعدے

726

سیدہ عنبرین عالم
صحرائوں میں حق کی آواز، وہ اذانِ بلالی احد احد
ہر دکھ، ہر پیشکش ٹھوکر پر، وہ شانِ بلالی احد احد
جب رہبر ہو محمدؐ سا، جب ساتھی عمرؓ و ابوبکرؓ سا
پھر دل کی حالت نور نور، پھر عشقِِ بلالی احد احد
کیوں میرا دل دھڑکتا نہیں، کیوں مجھ کو عشق ہوتا نہیں
میری راتیں کیوں سجدے میں نہیں، میرے دن کیوں بدر و احد میں نہیں
یا رب میرا سینہ کھول، ہو عشقِ بلالی احد احد
میں تیری ہوں تُو میرا ہو، عشقِ بلالی احد احد
رہنما کر مجھ کو خلقت کا، نائب کر اپنی طاقت کا
میری روح میں سمٹ کر تیرا نور آئے
مجھ کو دیکھے جو، وہ تجھ کو پائے
مجھ پر تیرے سوا کسی کا زور نہیں
میرے جیسا عشق کسی کا اور نہیں
میں راضی، مجھ سے تُو راضی، میں عکین بلالی احد احد
میں صرف تیرے دن منائوں گی، میں عشقِ بلالی احد احد
بس مجھ کو میرا رب دیکھے، میں حُسنِ بلالی احد احد
…٭…
’’ہر جھوٹے گناہ گار پر افسوس ہے کہ اللہ کی آیات اس کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کو سن تو لیتا ہے مگر پھر غرور سے ضد کرتا ہے کہ گویا ان کو سنا ہی نہیں، سو ایسے شخص کو دکھ دینے والے عذاب کی خوش خبری سنا دو، اور جب ہماری کچھ آیتیں اسے معلوم ہوتی ہیں تو ان کی ہنسی اڑاتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔‘‘ (سورہ الجاثیہ: 7تا9)
چودھری بختیار بہت خوش تھا، اس کا بیٹا چار سال ولایت میں گزار کر آج واپس آرہا تھا۔ اس نے لندن میں بزنس کی ڈگری لی تھی۔ ’’او دیگاں کھڑکا دیو، سارے پنڈ وچ مٹھے چاول کھلائو، حویلی نو چمکا دو، بتیاں لا دیو‘‘۔ وہ خوشی سے بھنگڑے ڈال رہا تھا۔
’’چودھری جی! اَسی بہت فائرنگ کرنی ہے آج‘‘۔ اسلم بولا، جو چودھری کا خاص ملازم تھا۔
’’نہیں اوئے، یہ چینلوں والے خبر لگا دیں گے، خوامخواہ کوئی پنگا نہ لے، الیکشن نزدیک ہیں۔ میرے پتر چودھری نذیر نے الیکشن لڑنے ہیں، پھر جیتے گا تو کرنا فائرنگ۔‘‘ چودھری بولا۔
’’چودھری جی! اپنا چھوٹا چودھری نال میم تو نہیں لائے گا؟‘‘ اسلم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’نہیں نہیں، بائولا ہورہا ہے، میم دوستی وغیرہ کے لیے چنگی ہے، پر شادی تو خاندانی عورت سے ہی ہوتی ہے تاکہ نسل کی اچھی تربیت ہو، میرا پتر یہ بات سمجھتا ہے۔‘‘ چودھری نے کہا۔
…٭…
چودھری نذیر آچکا تھا، دور دور سے لوگ ملنے اور چودھری بختیار کو مبارک باد دینے آرہے تھے۔ 40 دیگیں میٹھے چاولوں کی پکائی گئیں جو ہر غریب کو، جو مانگنے آیا، تھیلیاں بھر بھر کر بانٹی گئیں۔ مسلسل ڈھول بجتا رہا اور لوگ بھنگڑے ڈالتے رہے، خوب رونق لگی رہی، رات کو ایک محفل کا انتظام کیا گیا تھا جس میں بڑے بڑے لوگ بلائے گئے تھے۔
’’نذیر پتر کدھر ہے؟ سب مہمان آگئے ہیں۔‘‘ چودھری نے اسلم سے پوچھا۔
’’وہ تو جی مسجد گئے تھے عشاء کی نماز پڑھنے، ابھی پُچھوایا تو وہیں مسجد میں بیٹھے ہیں، کمی کمین سارے اُن سے ملنے پہنچ گئے، وہ ان گندے لوگوں سے گلے بھی مل رہے ہیں، آٹھ دس لوگوں کی تو کہانیاں سن کر پیسوں سے مدد بھی کردی۔‘‘ اسلم نے شکایت لگائی۔
چودھری بختیار نے زوردار قہقہہ لگایا ’’دیکھا، مچھلی کے جائے کو تیرنا کون سکھائے، یہ سب الیکشن کی تیاری ہے، میرے بھولے بادشاہ وہ ابھی آتا ہوگا، تُو فکر نہ کر۔‘‘ وہ بولا۔
چودھری نذیر آیا تو چودھری بختیار سے پوچھنے لگا ’’ابا جی! تسی نماز نہیں پڑھی؟‘‘
’’او پہلے کب پڑھی ہے جو اب پڑھوں گا! اَسی بخشے بخشائے ہیں، دیکھ نہیں رہا رب کیسے بھر بھر کر نواز رہا ہے مجھے، سات نسلوں کو کمانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ چودھری بختیار بولا۔
’’ابا جی! تسی قرآن نہیں پڑھیا؟ صاف لکھا ہے کہ نماز فرض ہے، اللہ کا حکم تو مان۔‘‘ نذیر نے کہا۔
’’تُو لندن سے آیا ہے یا مکے سے! مولوی ہی بن گیا ہے سارا کا سارا۔‘‘ بختیار نے منہ بنا کر کہا۔
’’ابا جسے اللہ کے احکام کا نہیں معلوم وہ تو شاید بچ جائے، لیکن تیرے میرے جیسے لوگ، جنہیں دنیا کی بھی ساری تعلیم حاصل ہے اور دین کی بھی، ہم اللہ کے آگے کیا بہانہ بنائیں گے بچنے کے لیے؟‘‘ نذیر بولا۔
’’چودھری بختیار نے زوردار قہقہہ لگایا ’’او فرشتوں کو رشوت دے کر فائلوں میں گھپلا کرا لیں گے، یا ایک عمرہ کرکے سارے گناہ بخشوا لیں گے۔‘‘ وہ بولا اور دیر تک ہنستا رہا، جب کہ چودھری نذیر تاسف سے سر ہلاتا رہا۔ لندن میں وہ اچھے دوستوں کی صحبت میں مکمل مومن بن چکا تھا۔
…٭…
محفل شروع ہوئی، حرام مشروب سے لے کر رقاصائوں تک ہر چیز فراہم تھی۔ چودھری بختیار اور اس کے دوست احباب بڑھ بڑھ کر داد دے رہے تھے اور خوب محظوظ ہورہے تھے، جب کہ چودھری نذیر سخت پریشان تھا کہ کیسے آخر ان خرافات سے جان چھڑائے۔ بہرحال اس نے اپنے ابا کو بلایا ’’ابا جی! یہ کیا ہورہا ہے؟ کیا آپ نے قرآن کی وہ آیت نہیں پڑھی کہ مومن مردوں کو اپنی نگاہیں جھکا کر رکھنی چاہئیں تاکہ آس پاس سے گزرتی باپردہ عورتوں پر نظر نہ پڑے، اور کہاں آپ نے بے حیائی کا تماشا لگا رکھا ہے! کیا آپ نہیں جانتے کہ قرآن عورتوں کو پردے کا حکم دیتا ہے، آپ جب ان بے کس عورتوں کی روٹی ہی بے پردگی اور بے حیائی سے مشروط کردیں تو ان سے بڑھ کر گناہ گار تو آپ ہیں، بند کریں یہ سب۔‘‘ وہ غصے میں بولتا رہا۔
’’او پتر جی! تُو تو بالکل ہی مولوی بن گیا، اب اگر ایک ایک بات قرآن کی ماننے لگے تو پھر تو جینا ہی مشکل ہوجائے گا، ہم کون سا روز روز پارٹی کرتے ہیں، یہ تو خوشی کا موقع ہے اس لیے تھوڑا ہلّا گلّا کرلیا، تیرے اندر تو بڈھی روح گھس گئی ہے، جا، سو جا۔‘‘ چودھری بختیار نے انتہائی ناراضی سے جواب دیا اور واپس محفل میں چلا گیا۔ چودھری نذیر تھکے قدموں سے سونے چلا گیا۔
…٭…
الیکشن سر پر آپہنچے تھے، مسلسل جلسے جاری تھے، چودھری بختیار ایک سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑا ہوا تھا اور دوسری پارٹی کے ٹکٹ پر چودھری نذیر کو کھڑا کردیا تھا تاکہ پارٹی جو بھی جیتے،، وزارت ان ہی کے گھر رہے۔
’’پتر جی! جب تُو تقریر کرے تو بڑے سارے دعوے کرنے ہیں، سڑکاں بنا دوں گا، ٹیوب ویل لگادوں گا، اسکول کھول دوں گا، اسپتال بنا دوں گا۔ جو جو بات ذہن میں آئے وعدے کرتے جائو۔ پتر جی! بس لگنا چاہیے کہ تُو جیت گیا تو سارے مسئلے حل۔‘‘ چودھری بختیار بیٹے کو سمجھانے لگا۔
’’مگر ابا! اگر اتنے فنڈ ہی نہ ملے؟ میں پہلے سے کیسے وعدہ کرلوں!‘‘ نذیر نے معصومیت سے کہا۔
’’اوئے بے وقوف! صرف وعدے کرنے ہیں، کام نہیں کرنے۔‘‘ چودھری بختیار نے اپنا سر پیٹ لیا۔
’’مگر سورۃ مومنون آیت 8۔9 میں لکھا ہے کہ مومن وعدے اور زبان کی ہر کہی بات پوری کرتے ہیں، میں ایسی بات نہیں کہہ سکتا جو میں کر نہیں سکتا۔‘‘ نذیر قطعی انداز میں بولا۔
’’تُو خود کو بہت توپ چیز سمجھتا ہے، باپ کے خلاف بات کرتا ہے! ارے ہمارا تو وزیراعظم بھی کہتا ہے کہ بات سے مکرنا ایک لیڈر کی سب سے اہم صفت ہے۔‘‘ چودھری بختیار غصے سے بولا۔
’’ابا اگر ایک حکم قرآن میں رب دے رہا ہے، میں اس حکم کو جانتا ہوں تو میں کیسے اس حکم کی نافرمانی کرسکتا ہوں! لوٹ کر تو مجھے اپنے رب کے پاس ہی جانا ہے۔‘‘ نذیر بولا۔
’’بیٹا! ایک تُو ہی ایسا نہیں کررہا، سارے سیاست دان ایسا کرتے ہیں، اور عوام کو بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب وعدے جھوٹے ہیں، وہ تو جلسوں میں قیمے والے نان کھانے آتے ہیں۔‘‘ چودھری بولا۔
نذیر نے افسوس سے سر ہلایا ’’یعنی جس نبیؐ کو صادق اور امین کہا جاتا تھا، اس کی امت میں جھوٹ ایسے سرایت کر گیا ہے کہ جھوٹ بولنے والا بھی جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے، اور سننے والے کو بھی معلوم ہے کہ یہ جھوٹ ہے، پھر بھی تماشا جاری ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’تُو ہارے گا، یہ حرکتیں رہیں تو بڑی بری طرح سے الیکشن ہارے گا۔‘‘ چودھری بختیار بولا۔
…٭…
’’میرے بھائیو! اور بہنو! آپ نے پچھلی حکومت بھی دیکھ لی، سوائے غربت، کرپشن اور دھوکے کے آپ کو کیا ملا! وہ سارا ملک لوٹ کر کھا گئے، ہم آپ کو بتائیں گے کہ عوام کی خدمت کیا ہوتی ہے۔ آپ اسلام چاہتے ہو تو ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ قرآن کی ایک ایک آیت پر عمل ہوگا، اسلام ایسے نافذ ہوگا جیسے پیارے نبیؐ نے اپنے دور میں کیا، یہ میرا آپ سے وعدہ ہے، ہر ایک کو روزگار ملے گا، سارے چور جیل میں ہوں گے…‘‘ چودھری بختیار کی تقریر جاری تھی کہ اچانک ایک چادر پوش شخص اسٹیج پر چڑھا اور فائرنگ کردی، اس سے پہلے کہ صورت حال کو سمجھا جاتا، چودھری بختیار کے پیٹ اور سینے میں پانچ گولیاں پیوست ہوچکی تھیں۔ پھر کسی نے فائرنگ کرکے چودھری بختیار کے قاتل کو بھی مار ڈالا۔
…٭…
سینے اور پیٹ میں سخت تکلیف تھی، ہلا بھی نہیں جارہا تھا۔ چودھری بختیار نے بمشکل آنکھ کھولی، دیکھا تو وہ خون میں لت پت پڑا ہوا تھا۔ گرمی بہت تھی اور پیاس سے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ ’’اسلم! کتھے مرگئے سارے۔ تنخواہ لینے کو سب تیار، کام کرتے سب کو موت پڑتی ہے… ارے کوئی ائر کنڈیشنر تو چلا دو، ارے کوئی مجھے اسپتال تو لے جائو… کدھر ہو سب… پتر نذیر تُو ہی آجا کم از کم۔‘‘ چودھری بختیار چیختا رہا۔
’’کیا بات ہے، کیوں شور ڈالا ہوا ہے۔‘‘ ایک ہیبت ناک سا شخص آکر بولا، اور ساتھ ہی چودھری بختیار کی پسلیوں میں دو لاتیں رسید کیں۔ ’’چُپ کر…‘‘ اس نے جھڑکا۔
’’تسی کون ہو پاء جی، میرے سارے کامے کدھر چلے گئے؟‘‘ چودھری بختیار نے پوچھا۔
’’جاہل انسان تُو مر چکا ہے، قیامت تک کے لیے تُو میرے قبضے میں ہے، قیامت کے دن فیصلہ ہوجائے گا، پھر تُو جہنم میں جائے گا۔‘‘ بھیانک فرشتے نے ساری حقیقت بتائی۔
’’ہیں جی!‘‘ حیرت سے چودھری بختیار کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ ’’مجھے اسپتال تو لے جائو، میرے ملازموں کو تو بلائو، کم از کم ٹھنڈا پانی ہی پلا دو بھائی صاحب۔‘‘ وہ بولا۔
ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا گیا ’’دعوت میں آیا ہے کیا، یہاں تُو اکیلا ہے۔ جن ملازموں کے زور پر تُو اکڑتا تھا اور لوگوں کو تنگ کرتا تھا وہ سب نیچے رہ گئے، تُو قیامت تک اسی حالت میں تڑپتا رہے گا، تیرے گناہوں کی حد ختم ہوگئی تھی اس لیے تجھے وقت سے پہلے موت دے دی گئی، یہ لے پانی۔‘‘ فرشتے نے کہا، اور کھولتا ہوا پانی چودھری بختیار پر پھینک دیا گیا۔ جہنم کے منتظر لوگوں کے لیے مختص گوشہ چودھری کی چیخوںسے گونج اٹھا۔ ’’او اسلم بائولے، اور پتر نذیر! بچا مینوں…‘‘ وہ چیختا چلّاتا رہا۔
’’اب بھی یہ اللہ کو نہیں پکار رہا، کتنا بدنصیب ہے۔‘‘ پہلے فرشتے نے دوسرے فرشتے سے کہا۔
’’یہ اب کبھی بھی اللہ کا نام نہیں لے سکے گا، یہ اتنا ناپاک ہے اور اس نے اللہ کی آیات کی جانتے بوجھتے اتنی بے حرمتی کی ہے کہ اللہ کا پاک نام اس کے ہونٹوں سے ادا ہو ہی نہیں سکتا، اور نہ اللہ اب اس کا نام لے گا، نہ رحم کرے گا، یہ ہمیشہ عذاب میں رہے گا۔‘‘ دوسرے فرشتے نے کہا۔
’’او میں نے تو اپنے پنڈ وچ مسجد بھی بنائی تھی، میں تو بقرعید پر تین اونٹ بھی قربان کرتا تھا، میں نے تو غریبوں کو میٹھے چاول کی 40 دیگیں بانٹی تھیں۔‘‘ چودھری بولا۔
اچانک سے ڈیڑھ دو سو اونٹ نمودار ہوگئے، ایک طرف مٹی، ریتی، سیمنٹ، سریے کے ڈھیر لگ گئے اور 40 دیگیں میٹھے چاولوں کی بھی ظاہر ہوگئیں ’’یہ لے تیری ڈرامے بازی کی نیکیاں، کھا اپنے اونٹ اور دیگیں، بنا لے اپنے لیے پھر سے مسجد، لعنت ہے تجھ پر اور تیری نیکیوں پر۔ تجھے اتنے سارے لوگوں پر قائد بنایا گیا تھا، چاہتا تو سب کو سیدھی راہ پر چلا دیتا، مگر تُو خود بھی گمراہ رہا اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا، آخر وقت میں آخری شبیہ کے طور پر تیرے بیٹے کو تیرے پاس بھیجا گیا کہ شاید تُو سدھر جائے اور یہ نہ کہے کہ آخری موقع کیوں نہ ملا، مگر تُو نے اپنے بیٹے کی بھی نہ مانی۔‘‘ فرشتے نے کہا اور ایک موٹی سی لوہے کی سلاخ سے چودھری بختیار کو مارنا شروع کردیا۔
’’او معاف کردو مینوں، اب غلطی نہیں ہوگی، مجھے دنیا میں بھیج دو۔‘‘ چودھری بختیار روتا رہا۔

حصہ