نیاز مندان کراچی کے زیر اہتمام جوش ملیح آبادی سیمینار و مشاعرہ

284

ڈاکٹر نثار احمد نثار
معروف ادبی تنظیم نیاز مندانِ کراچی کے زیراہتمام شیخ راشد عالم کی سرپرستی میں سیمینار جوش شناسی اور نظمیہ مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ یہ پروگرام 28 فروری 2019ء کو دانش کدہ راشد ناظم آباد کراچی میں منعقد ہوا۔ پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا پہلے دور میں پروفیسر جاذب قریشی کی صدارت میں جوش ملیح آبادی کے فن اور شخصیت پر گفتگو ہوئی مقررین میں جاذب قریشی‘ فراست رضوی‘ رونق حیات اور حنیف عابد شامل تھے۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت ذیشان العابدین نے حاصل کی۔ پہلے مقرر حنیف عابد نے کہا کہ جب تک اردو زبان زندہ ہے‘ جوش کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہے گا کہ انہوں نے کائنات کا عمیق مشاہدہ کیا اور شاعری کے ذریعے کائنات کے اسرار و رموز عوام الناس تک پہنچائے۔ وہ زمینی حقائق رقم کرتے تھے لیکن غزل کے روایتی مضامین بھی ان کے یہاں ملتے ہیں۔ ان کے اشعار کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ نیاز مندان کراچی کے بانی اور کنوینر رونق حیات نے خطبۂ استقبالیہ کے علاوہ جوش کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی انہوں نے کہا کہ ان کی زندگی کا ایک خواب یہ بھی تھا کہ وہ جوش ملیح آبادی کے حوالے سے ادبی ریفرنس اور نظمیہ مشاعرہ منعقد کریں خدا کا شکر ہے کہ آج ہم جوش شناسی اجلاس میں موجود ہیں۔ مقام افسوس یہ ہے کہ جن حکومتی اداروں کو اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا تھا وہ صحیح خطوط پر کام نہیں کر رہے۔ نیاز مندان کراچی نے اردو کی ترویج و ترقی کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی ہے‘ ہم نے اکادمی ادبیات کے چیئرمین سے بھی اسلام آباد میں میٹنگ کی اور کہا کہ قلم کاروں کے مسائل حل نہیں ہو رہے جو گرانٹ حکومت نے قلم کاروں کے لیے مختص کی ہے اس کا استعمال صحیح طور پر کیا جائے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی نے فروری کے مہینے میں رحلت پانے والے غالب‘ صادقین اور جوش کے حوالے سے کوئی پروگرام منعقد نہیں کیا۔ تمام اداروں کا فرض ہے کہ اردو کے محسنوں کو یاد رکھیں اور ان کے لیے پروگرام ترتیب دیں تاکہ نوجوان نسل تک ہماری ادبی روایات منتقل ہو سکیں۔ انہوں نے جوش ملیح آبادی کے بارے میں کہا کہ جب تک وہ زندہ رہے انہوں نے ہرمسئلے کا پامردی سے مقابلہ کیا ہندوستان میں ان کا طوطی بولتا تھا لیکن پاکستان میں آنے کے بعد انہیں وہ عزت و شہرت نہ مل سکی جس کے وہ مستحق تھے حکومتی اداروں نے انہیں نظر انداز کیا‘ ان کی شاعری کے بجائے ان کی خود نوشت ’’یادوں کی برات‘‘ موضوع گفتگو بنی‘ ان کا انتقال 22 فروری 1983ء کو ہوا۔ وہ قادر الکلام شاعر تھے انہوں نے زندگی کے تمام نقش و نگار اپنی شاعری میں نظم کیے وہ نظم کے بہت بڑے شاعر تھے‘ رباعیاتِ جوش بھی ہمارا سرمایۂ ادب ہے۔ فراست رضوی نے کہا کہ جوش ملیح آباد 1955ء میں پاکستان آئے تھے وہ اپنے عہد کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ہندوستان میں انہیں زندگی کی تمام سہولیات میسر تھیں لیکن وہ اردو زبان و ادب کی محبت میں پاکستان آئے کیوں کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ ہندوستان میں اردو کا مستقبل تاریک ہے۔ انہوں نے پاکستان میں ایک انٹرویو دیا جس کی شرط یہ تھی کہ یہ انٹرویو ان کی وفات کے بعد عوام تک پہنچایا جائے لیکن کسی طرح یہ انٹرویو ایک مقامی رسالے نے حاصل کرکے شائع کردیا اس انٹرویو میں جوش ملیح آبادی نے قائد اعظم کی بہت سی باتوں پر اعتراض کیا تھا لہٰذا جوں ہی یہ انٹرویو منظر عام پر آیا اربابِ اقتدار جوش ملیح آبادی سے ناراض ہو گئے اور جوش صاحب پر زندگی تنگ کر دی گئی۔ فراست رضوی نے مزید کہا کہ جوش صاحب کی شاعری نے لوگوں میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی۔ جوش کی ایک نظم ’’حرفِ آخر‘‘ بہت مشہور ہوئی یہ نظم 30 ہزار اشعار پر مشتمل ہے یہ نظم انہوں نے 1940ء میں لکھنی شروع کی تھی۔ جوش ملیح آبادی کے بقول مذہب ہی تمام مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ انسانی فکر بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے وہ خدا کے منکر نہیں تھے وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری رسول و نبی مانتے تھے انہوں نے بے شمار نعتیں لکھی ہیں‘ وہ رباعیات کے بڑے شاعرتھے۔ ان سے بڑھ کر کوئی رباعی گزار نہیں گزرا۔ رباعیات میں کوئی بھی جوش کا ہم پلہ نہیں ہے۔ جنون و حکمت‘ قطرۂ قلزم اور نجوم و جواہر جوش صاحب کے وہ شعری مجموعے ہیں جو کہ ان کی زندگی میں ہی شائع ہو گئے تھے۔ وہ جدید مرثیہ کے بانی تھے۔ انہوں نے رثائی ادب میں بھی نام کمایا۔ انہوں نے حضرت امام حسینؓ کی زندگی‘ سیرت اور کربلا کے واقعات کے تمام پہلوئوں کو بڑے مدلل انداز میں بیان کیا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہر ظلم کے خلاف آوازِ حق بلند کریں یہی پیغام کربلا ہے۔ انہوں نے موضوعاتی مرثیہ کا آغاز کیا انہوں نے موضوعاتی نظمیں بھی لکھی اردو میں جوش ملیح آبادی وہ منزل ہے جس کو نظر انداز کرکے کوئی آگے نہیں بڑھ سکتا جو معاشرہ اپنے محسنوں کو نظر انداز کر دیتا ہے وہ ترقی نہیں کر سکتا۔ پروفیسر جاذب قریشی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ بیسویں صدی کے دو بڑے شاعر علامہ اقبال اور جوش ملیح آبادی تھے یہ دونوں غلامی کے خلاف آزادی کے علمبردار تھے انہوں نے نڈھال قوم کو ڈھارس دی۔ جوش نے حریت‘ جرأت‘ حق پرستی اور انسانیت کا درس دیا۔ جوش کے پیغامات ان کی شاعری‘ ان کے فلسفے کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ جو ناانصافی کی گئیں وہ قابل مذمت ہیں اس دور میں جوش کے بارے میں کچھ مطالعاتی اور تحقیقی کام ہو رہا ہے جو کہ خوش آئند اقدام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیاز مندان کراچی نے آج کی تقریب کا جو بینر بنایا ہے میں نے جوش کے سلسلے گزشتہ 40 برسوں کے دوران ایسے شان دار مضامین کا بینر نہیں دیکھا نیز یہ نظمیہ مشاعرہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پروگرام کے دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوا جس کی صدارت محسن اعظم ملیح آبادی نے کی جب کہ دونوں ادوار کی نظامت سلمیٰ خانم نے کی جن کا یہ پہلا نظامتی تجربہ تھا لیکن انہوں نے اپنے شان دار جملوں سے محفل کو گرمائے رکھا اور کہیں بھی تقریب کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ کراچی یونیورسٹی گریجویٹس فورم کینیڈا‘ کراچی چیپٹر کے تحت ایک شان دار پروگرام بہ یاد جوش ملیح آبادی منعقد کریں گی۔ اس مشاعرے میں محسن اعظم ملیح آبادی‘ پروفیسر جاذب قریشی‘ رفیع الدین راز‘ فراست رضوی‘ رونق حیات‘ الطاف ترمذی‘ منیف اشعر‘ آصف رضا رضوی‘ نسیم ناز‘ ڈاکٹر رضیہ سلطانہ‘ رقم الحروف نثار احمد نثار‘ حنیف عابد‘ وقار زیدی‘ انیس جعفری‘ ریحانہ احسان‘ کشور عدیل جعفری‘ عظیم حیدر سید‘ سلطان مسعود شیخ‘ عارف شیخ عارف‘ اجمل شوبی‘ نعیجم انصاری‘ اصغر خان‘ شجاع الزماں‘ طاہرہ سلیم سوز‘ ناہید عظمیٰ‘ ڈاکٹر لبنیٰ عکس‘ شاہدہ عروج‘ تنویر سخن‘ مہر جمالی‘ ہما اعظمی‘ فرح دیبا‘ خالد میر‘ افضل ہزاروی اور حدیفہ دعا نے اپنی اپنی نظمیں نذر سامعین کیں۔ تقریب میں جوش ملیح آبادی پر ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ جوش صاحب کی پوتی نے ٹیلی فونک خطاب کیا جس میں انہوں نے نیاز مندان کراچی کے جوش شناسی اجلاس کی تعریف کی۔ شیخ راشد عالم نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب کی ترویج و ترقی کے لیے مصروف عمل تمام اداروں کے ساتھ تعاون کرتے رہیں گے‘ میرے گھر کے دروازے تمام قلم کاروں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ صاحبِ صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ جوش ملیح آبادچی سے ان کی رشتے داری ہے وہ بڑے وضع دار اور ملنسار انسان تھے‘ وہ ہمہ جہت شخصیت تھے ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ جوش نے شاعری کو نیا آہنگ دیا۔ انہوں نے کم از کم تین ہزار لفظوں کو لغوی معنی کے بجائے مجازی معنی میں استعمال کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ان کی شاعری ہر دور کی شاعری ہے۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ہمارے دلوں میں زندہ ہیں‘ جہاں جہاں اردو بستیاں قائم ہیں وہاں وہاں جوش کا نام زندہ ہے وہ آسمانِ ادب کا وہ ماہتاب تھے کہ جن کی روشنی سے ہم آج تک استفادہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیاز مندان کراچی کا نظمیہ مشاعرہ اس اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کہ نظم کا اتنا بڑا مشاعرہ 40 برس بعد ہو رہا ہے یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ نظم کی ترویج و اشاعت میں اس مشاعرے کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔

بزم نگارِ ادب پاکستان کے زیر اہتمام محفل غزل

گزشتہ ہفتے بزم نگارِ ادب پاکستان کراچی نے کومل میوزیکل اکیڈمی کے تعاون سے ڈیفنس ہائونس سوسائٹی کراچی میں محفل سُر سنگیت کا اہتمام کیا جس میں زندگی کے مختلف شعبوں کے افراد نے شرکت کی۔ پروفیسر جاذب قریشی کی صدارت میں ہونے والی اس خوب صورت محفل میں ادیب اصغر خان اور شعیب ناصر مہمانان خصوصی تھے جب کہ انجینئر محمد آفاق اور افضال بیلا مہمانان اعزازی تھے۔ اس موقع پر معروف گلوکار استاد ذوالفقار خان صاحب اور ان کی ٹیم نے اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔ جن شعرا کا کلام سنایا گیا ان میں جاذب قریشی‘ منیف اشعر‘ غلام علی وفا‘ اصغر خان‘ اکرم کنجاہی‘ سخاوت علی نادر‘ نصیرالدین نصیر‘ ساجدہ سلطانہ‘ حمیدہ گل تشنہ‘ مہر جمالی‘ شاہدہ عروج اور روبینہ ناز شامل تھے۔ شعیب ناصر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بزم نگارِ ادب پاکستان بہت تیزی سے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنا رہی ہے یہ ادارہ تواتر سے ادبی محافل منعقد کر رہا ہے امید ہے کہ جلد ہی نگارِ ادب کا شمار کراچی کے انتہائی اہم اداروں میں ہوگا ہماری کوشش ہے کہ ہم فنونِ لطیفہ کی ہر شاخ کی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں۔ کاشف گرامی نے کہا کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے پلیٹ فارم سے قلم کاروں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ہمارے دروازے تمام قلم کاروں اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ ہم احمد شاہ کی سرپرستی میں اردو زبان و ادب کی ترقی میں مصروف عمل ہیں انہوں نے نگارِ ادب کے تمام اراکین و عہدیداران کو مبارک باد پیش کی کہ انہوں نے بہت شان دار پروگرام ترتیب دیا۔ نگار ادب کے چیئرمین سخاوت علی نادر نے کہا کہ ہم نے کراچی کے مختلف علاقوں میں ادبی پروگرام ترتیب دیے ہیں۔ ہم مشاعرے‘ تنقیدی نشستیں‘ مذاکرے‘ مجالس سلام حسین کے علاوہ سُر سنگیت کی محفلیں بھی سجا رہے ہیں‘ ہم نئے ٹیلنٹ کو سامنے لا رہے ہیں‘ ہم نوجوان شعرا کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ جو لوگ ہمارے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اس کی ترویج و اشاعت ہم سب کا فرض ہے‘ اردو دنیا کے تمام اہم ممالک میں پہنچ چکی ہے۔ عدالت کے احکامات کے تحت بہت جلد اردو سرکاری زبان بن جائے گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اردو کو رومن انگلش میں لکھنے کے بجائے اردو میں بات چیت کریں فیس بک پر بھی اردو میں کمنٹ دیں اردو کا کسی بھی علاقائی زبان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ صوبائی زبان کے فروغ میں اردو کی ترقی مضمر ہے۔

بزم یاور مہدی کی 147 ویں نشست

بزم یاور مہدی کی 147 ادبی نشست امریکا سے آئے ہوئے معروف صحافی ظفر قریشی کے اعزاز میں منعقد کی گئی۔ تقریب کی ابتداء تلاوت کلام پاک سے ہوئی جس کی سعادت محمد اقبال نے حاصل کی جب کہ نسیم نازش نے نعت رسولؐ پیش کی۔ صاحب تقریب فراست رضوی نے کہا کہ اگر ایک زبان سے دوسری زبان میں تراجم نہ ہوتے تو سائنسی ایجادات کا فروغ مشکل ہو جاتا۔ ترجمہ ایک تہذیب کو دوسروں تک پہنچانے کا نام ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ دارالترجمہ قائم کریں تاکہ ہم دوسری قوموں کے علم و فن سے استفادہ کر سکیں انہوں نے مزید کہا کہ ظفر قریشی کے تراجم رواں‘ سلیس اور منفرد ہوتے ہیں۔ خواجہ رضی حیدر نے کہا کہ ترجمہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک آدمی تخلیق کار نہ ہو۔ قاسم جلالی نے کہا کہ یاور مہدی اپنی ذات میں انجمن ہیں انہوں نے آج ظفر قریشی کے لیے محفل سجائی ہے جو کہ امریکا میں اردو کی خدمت کر رہے ہیں ان کے تراجم کے ذریعے بھی ہم امریکی کلچر سے آشنائی حاصل کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید منظر نے کہا کہ یاور مہدی کی خدمات سے انکار ممکن نہیں‘ ان کے بزم طلباء کے لوگ آج دنیا بھر میں اردو کا نام روشن کر رہے ہیں۔ مہمان خصوصی شیخ راشد عالم نے کہا کہ وہ بزم یاور مہدی کی 150 ویں تقریب میں یاور مہدی فائونڈیشن کے قیام کا اعلان کریں گے۔ ندیم ہاشمی نے نظامت کے فرائض کی انجام دہی کے ساتھدیہ بھی اعلان کیاکہ ظفر قریشی کے افسانوں کا مجموعہ بہت جلد منظر عام پر آرہا ہے۔

حصہ