الطیماتھولی، زمین سے پانچ ارب میل دور ایک نئی دنیا

389

قاضی مظہرالدین طارق
واہ!واہ ! کوئی اندازہ کر سکتا ہے!
انسان کے ہاتھ کتنی دُور تک پہنچ گئے ہیں !
زمین سے پانچ ارب میل دور!
ایک ننھے سے تارے نے ،
انسان کو پریشان کر رکھا ہے !
ہاں! اَلْطِما تُھولی ،
پلوٹوکے بعد،’نئی اُفق کی ٹیم‘ کی اَگلی منزل ،
یہ ایک نیا جہاں ہے،اللہ ہی کو علم ہے کہ اس جہاز کو اور کتنی منزلیں سر کرنی ہیں۔
مگرحیرت ہے کہ ا نسان نے اتنی دُور کا حدف کیوں مقرر کیاہے،پھر اِن کھربوں،ستاروں، سیّاروں ، سیارچوں ، دُمدار تاروں کی موجوگی میں اِ س ننھے سے وجود کاہی کیوں اِنتخاب کیا ؟
اس انتخاب کی کچھ وجوہات تو نظر آرہی ہیں،ایک یہ کہ ’الطما تھولی ‘سورج سے بہت دُور ، اُس آخری سرحدی پٹّی میںہے ،جو سورج کی مضر شعاعوںسے محفوظ ہیں، پھرتقریباً مطلق صفرمیں چار ارب سال سے منجمداورمحفوظ ہے۔
دوسرایہ کہ دُم دار تاروں اور دیگرسیّار چوں کی طرح سورج کی طرف آتاجاتا نہیںجس کی وجہ سے اس کے مادّے اُتھل پَتھل نہیں ہوتے،اس کی کیمیا محفوظ ہے۔
تیسری یہ کہ الطیما تھولی نے اِن بنیادی مادّوں کو اپنے اندرٹائیم کیپسول کی طرح محفوظ کیا ہواہے،اس کا مطالعہ ہم کوبتائے گا کہ نظامِ سمشی کا بچپن کیسا تھا،اُٹھان کیسی تھی،جس کی بنا پرمعلوم کر سکیں گے کہ یہ نظام، یہ زمین اور ہم کن مادّوں سے پیدا کئے گئے ہیں۔
چوتھا یہ جب ایک نیا نیا شوقین بھی اپنی دُوربین کا رُخ تاروں بھرے آسمان کی طرف کر کے وقفے وقفے سے تصویریں لیتاہے،توسب تارے توقطب شمالی کے اَطراف روشن دائرے بناتے ہیں،لیکن ان میں سے چندایک ایسے بھی ہیںجو ڈھیٹ ہیں، آسمان پر رُکے ہوئے ہیں ،یاستاروںسے مختلف سمت حرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں،پھر ظاہر ہے اس پرانسان کی پُر تجسس کی نگاہ ہروقت پڑتی ہی رہتی تھی ،ان میںسے ایک یہ الطیما تھولی تھا۔
یہ2014ء میں دریافت ہوا،جس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی21 میل اور لمبائی ڈیڑھ سو میل ہے،یہ اپنے محور پر ایک چکّرساڑھے سات7.30 گھنٹوں میں مکمل کر لیتا ہے،سورج کے گرد مدار میں الطماکائیپرکے ساتھ ساتھ تقریباًتین سو 300 سال میں ایک چکّر پورا کرتا ہے۔
’اَلطِیما تھولی‘ ،کیا ہے ؟دُوربہت دُورصرف ہزاروں ستاروں میں روشنی کا ایک مدھم نکتہ ہے،اب آہستہ آہستہ جیسے جیسے’نئی اُفق‘کاجہازاس کی تصاویر بھیجتاجارہاہے، اُس کی شکل واضح ہوتی جارہی ہے۔پہلے یہ ایک صراحی جیسا لگتا تھا،جیسے جیسے یہ قریب ہوتا جا رہا ہے،قریب کی تصاویر آرہی ہیں یہ دو حصّوں میںمُنقسم نظر آرہا ہے ، پھر یہ دونوں حصے واضح طور پردو کرّے ہیں ، ان تصاویرسے ایسے لگ رہا ہے جیسے یہ دوکُرّے ایک دوسرے سے ٹکرائے نہیں بلکہ آہستہ سے آکر ایک دوسرے سے جُڑ گئے ہیں،اگریہ ٹکرائے ہوتے تو ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے۔
ڈاکٹر اَولیور حانٹ نے کہا:’’اَلطماتھولی‘ نظامِ شمسی کے بونے سیّارے ’پلوٹو‘ سے بھی ایک ارب میل کے فاصلے پر ہے،جبکہ پلوٹو خود زمین سے تین ارب میل دُور ہے، گھبرائیں نہیں کبھی یہ چار ارب میل دُور چلاجاتا ہے ۔
الطیما تھولی ! ’کائیپر پٹّی‘ میں ہے ،یہ پیٹّی خود ا یک ارب میل چوڑی ہے ، کائیپر پٹّی، نظامِ شمسی کی آخری سرحد مانی جاتی ہے،یہ حضرتِ انسان کا کائیپر پٹّی کا پہلا شکار ہے، کائنات کا مالک ہی جانتا کہ اس نے کتنے اورانسان کے مقدّر میںلکھ رکھیں ہیں۔
’نئی اُفق‘(نیوہُرائیزن)کی ٹیم کا یہ خلائی جہاز زمین سے جنوری 2006ء کو روانہ کیا گیا تھا،ا اس کی پہلی منزل ’پلوٹو‘ تھی،یہ2015ء کواس مُنّے سیارے پلوٹو کے قریب سے گزرا،اس جہاز کی رفتار اتنی تیزتھی کہ وہ 9 گھنٹے میں ہمارے چاند سے آگے نکل چکا تھا ، جبکہ یہی فاصلہ طے کرنے کے لئے’ اَپولو ‘مہم نے دس گنا زیادہ وقت لیا تھا۔
ہم بہت بے چین اور منتظر تھے کہ یہ جہاز ’الطما تھولی‘ کے قریب کب پہنچے گا اور ہم کو دیکھائے گا کہ یہ کیسا ہے؟ کیسا نظر آتا ہے؟ اب تک اس کی سب سے اچھی تصویر جو ہم نے دیکھی وہ ہبل دوربین کی تھی، جس میں وہ روشنی کے ایک نکتے کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا تھا،اس لئے کہ یہ بہت چھوٹا اور بہت دُور ہے۔
پروجیکٹ ڈائریکٹر اس سوال پرکہ آپ کواس مشن پر کتنا عرصہ لگا کہا:’’حکومتی بیوریکریٹس کو قائل کرنے میں’نئی اُفق‘ کی ٹیم کو بارہ سال لگے،پھر اس جہاز کو بنانے میں پانچ سال صرف ہوئے،پھر مزید تیرا سال تک انتظار کے بعد اس تک پہنچے۔‘‘
پہلے 9 سال کے انتظار کے بعد2015ء میںیہ جہاز،پلوٹو کے قریب سے گزرا۔ ’الطما‘ پلوٹوسے بھی ایک ارب میل آگے ہے،یہ سورج کے گرد ایک چکّر تقریباًتین سو سال میں پورا کرتا ہے۔
یکم جنوری2019ء کی شب بارہ بج کر تیتیس منٹ پر یہ جہاز ’الطما تھولی‘ کے قریب ترین گزرا ، اس وقت یہ جہاز ’الطما تھولی ‘سے محض 2200 میل دُور تھا،اور اس کی رفتار 32000میل فی گھنٹہ تھی۔
اس انتہائی مطلق سَرد(اَیبسے لیوٹ زیرو)کے قرب میں محفوظ ننھے سیّارے کا مطالعہ ہم پر ماضی کے راز کھولے گا،اس میںزمین کی پیدائش کے وقت کا مال مسالہ ملے گا،ہمیں پتہ چلے گا ہماری زمین ، اس پرحیات اور ہم کس خام مال سے بنائے گئے تھے۔
ابھی یہ حساب سے معلوم کرنا باقی ہے کہ یہ سیّارہ ہے ، یا سیّارچہ؟ یا محض ایک چٹان ہے ؟ اس کے اطراف چاند گھوم رہے ہیں کہ نہیں؟ اس کے زحل کی طرح کے چھلّے ہیں یا نہیں؟
جیسے جیسے یہ جہاز اِس ’مُنّے سیارے‘ کے قریب پہنچتا جا رہا، اس کی بھیجی ہوئی تصاویر اوربھی واضح ہوتی جا رہی ہیںاور ہوتی جائیں گی،ابھی قریب ترین اور واضح تفصیلات کے ساتھ بہت سی تصاویر کی آمد باقی ہے، جس کے ذریعہ اس کا مفصل مطالعہ کیا جا سکے گا۔
بی بی سی کی ’سارہ رگبی‘فوکس میگزین میں 8جنوری کولکھتی ہیں: ’’ہم کو اس کی شکل اور رنگ دونوں کی فکر ہے ، کیوں کہ یہ بتائیں گے کہ الطماتھولی کِن مادُّوں سے بنا ہے؟‘‘
ڈاکٹراَولیوَر کا تعلق یورپ کی جنوبی رسدگاہ سے ہے، انہوں نے کہا،’’الطما اور تھولی الگ الگ ہیں جو جُڑ گئے ہیں ،مگر اِن کا رنگ بتاتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی مادّے سے بنے ہیں،غالب گمان ہے کہ اِن کی کیمائی ساخت بھی ایک جیسی ہو گی۔‘‘
اس لئے سائنسدانوں نے اِن کے الگ الگ نام تجویز کئے ہیں،ایک کا نام ’الطما‘،دوسرے کا’تھولی‘ ہے۔
الطماکا حجم تین، توتھولی کاایک ہے ،الطیما کے اوپر تھولی،ایک اور تین کے تناسب سے ایسا لگتا جیسے ہم برف کا گُڈّا بناتے ہیں۔
اگرچہ’نئی اُفق‘کایہ جہازپہلی جنوری کو ’الطما تھولی‘ کے قریب سے گزرا ،حضرتِ انسان نے نئی تاریخ رقم کی ہے، پہلی بارسب سے دُور کے خلائی اَجرام کے اتنا قریب سے گزرتے ہوئے اس کا مطالعہ کیاہے۔
یہ’ مُنّا سیّارہ‘زمین سے سورج کے مقابلے میں 43 گنا دُور ہے،اس جہاز نے الطما تھولی کے قریب سے گزرتے ہوئے جو معلومات جمع کی ہیں ان کے مکمل زمین پر پہنچنے اور تجزیہ کرنے میں، بیس مہینے لگیں گے، برق کی رفتارسے اس کی بھیجی ہوئی معلومات زمین پر پہنچنے میں 6 گھنٹے سے زیادہ لگتے ہیں۔
’’الطما تھولی کی مداری حرکت اور اس کے رنگ کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایسا مُنّاسیّارہ ہے جو کائنات ابتداء سے اب تک بہت سے تغیرات سے محفوظ ہے ، ‘‘ ڈاکٹر اَولیور حانت کہہ رہے تھے۔
’ نئی اُفق ‘ کے اس جہاز کاسفر ابھی رُکا نہیں تھما نہیں ، یہ جہاز خودلاکھوں میل کی عظیم پٹّی ’کائیپر بیلٹ‘ میںاپنی نئی نئی منزلو ں کی تلاش میں اللہ ہی جانے کب تک لگا رہے گا،شائد جب تک اس کا ایندھن ہی ختم نہ ہوجائے۔
تیز ترک گامزن منزلِ ما دُور نیست ………!

حصہ