طاقتور کون۔۔۔۔؟۔

257

فرحی نعیم
اطلاعی گھنٹی پر نوشابہ نے ایک نظر دیوار گیر گھڑی کو دیکھا اور پھر اپنا تھکا ماندہ وجود لے کر آہستہ آہستہ داخلی دروازے تک گئی۔ دروازے پر اس کی عزیز سہیلی روزی کھڑی تھی۔
’’اوہ تم! السلام علیکم… کیسی ہو؟‘‘ کہتے ہوئے اس نے راستہ چھوڑا۔
’’ویسی ہی جیسے روز ہوتی ہوں، اور یہ تمہارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں؟‘‘ روزینہ عرف روزی مسکراتے ہوئے اندر آئی۔
’’نہیں، بس آج کام کچھ زیادہ تھا۔‘‘
’’کیا مطلب، ابھی تک فارغ نہیں ہوئیں؟‘‘ روزی نے کرسی سنبھالی۔
’’بس ابھی ابھی کچن سمیٹ کر نکلی ہوں۔ تم سنائو کیسے آنا ہوا؟ آفس سے ہی آرہی ہوگی؟‘‘ وہ بھی اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’بہت خوب، تو اس کا مطلب ہے کہ تم ہمیشہ کی طرح بھول چکیں، جب کہ میں جلدی جلدی آفس سے کام مکمل کرکے آئی ہوں۔‘‘ روزی کے ماتھے پر بَل پڑے اور نوشابہ کی آنکھوں مین الجھن دوڑنے لگی، جس کا مطلب تھا کہ وہ ’’کچھ‘‘ بھول چکی تھی۔ ’’ارے آج ایک مذاکرے میں چلنا تھا ناں… میں نے تمہیں بتایا تو تھا کہ عالمی یوم خواتین کے حوالے سے ایک پروگرام میں چلنا ہے، وہاں ایک مذاکرہ ہے جس میں مختلف طبقہ ہائے فکر کی خواتین ’’عورتوں کے حقوق کی آگاہی‘‘ کے حوالے سے بات کریں گی۔‘‘ روزی کچھ ناراضی سے اسے یاد دہانی کروا رہی تھی۔
’’اوہ! ہاں تم نے بتایا تو تھا، لیکن میں تو بالکل بھول گئی۔‘‘ وہ ماتھے پر انگلیاں پھیرتے ہوئے کچھ شرمندگی سے بولی۔
’’اچھا چلو پھر جلدی سے تیار ہوجائو، ابھی ایک گھنٹہ ہے ہمارے پاس۔ میں چائے بناتی ہوں، تم تیار ہو۔ پندرہ منٹ تو راستے کے بھی ہیں۔‘‘ روزی نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
’’لیکن…‘‘ وہ ہچکچائی ’’میں نے تو اپنے میاں صاحب سے اجازت بھی نہیں لی۔ اب کیسے کہوں وہ تو بہت ناراض ہوں گے۔ پھر بچے بھی خالد کے گھر گئے ہوئے ہیں۔ دیر سے آئیں گے۔‘‘
’’تم تو بس ساری زندگی ڈرتی رہنا، تم ابھی ساجد بھائی کو فون کرو کہ میرے ساتھ جارہی ہو، ڈیڑھ گھنٹے میں آجائو گی، اور بچے گھر نہیں تو یہ تو اچھا ہی ہوا کہ تم کو پیچھے ان کی فکر نہیں کرنی پڑے گی۔‘‘ روزی نے مسئلے کا حل نکالا۔ تب کچھ ہچکچاتے ہوئے نوشابہ نے میاں کو فون کرکے بڑی عاجزی اور منت سے روزی کے ساتھ جانے کی اجازت مانگی۔
’’جی بس تھوڑی دیر کی بات ہے، جلدی آجائوں گی… بچے تو رافعہ کے گھر گئے ہیں۔ رات میں آئیں گے۔ آپ کو بھی دیر ہوجائے گی؟ اچھا میں بس تھوڑی دیر میں… جی ہاں ایک گھنٹے میں۔‘‘ وہ میاں کو مطمئن کررہی تھی کہ وہ بہت جلد آجائے گی، تب ساجد سے بمشکل اسے جانے کی اجازت ملی۔
’’دیکھو روزی میں زیادہ دیر وہاں نہیں بیٹھ سکوں گی، تم کو جلد ہی اٹھنا ہوگا۔ تم کو نہیں پتا ساجد کا، کتنا ناراض ہوتے ہیں۔ غصے میں پھر کچھ نہیں دیکھتے۔‘‘ نوشابہ نے ایک دفعہ پھر روزی کو جتایا۔
’’ارے ہاں، کہا ہے ناں جلدی آجائیں گی، ایک تو یہ ساجد بھائی بھی ناں، حالانکہ وہ خود بقول تمہارے دیر سے گھر آئیں گے، بچے بھی آج اتفاق سے نہیں ہیں، پھر انہیں کیا پریشانی ہے! بیوی بے چاری تھوڑی دیر کے لیے باہر نہیں نکل سکتی۔‘‘ روزی کو بھی غصہ آیا تھا۔
’’ہاں بھئی نہیں نکل سکتی۔‘‘ نوشابہ نے گہرا سانس چھوڑا۔ ’’ساجد تمہارے میاں کی طرح نہیں ہیں، کھلی سوچ، کھلا ذہن، جاب بھی بیوی کرے، آزادی سے جہاں چاہے، جب چاہے چلی جائے، کوئی پابندی نہیں۔‘‘ نوشابہ اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی ہوئی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے بولی۔ اور روزی جو گاڑی ڈرائیو کررہی تھی، ایک پھیکی ہنسی ہنس کر خاموش ہوگئی۔ اس نے نوشابہ کے بیان کی تائید کی تھی نہ تردید۔
…٭…
’’آج کے دن کو عالمی سطح پر منانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ مردوں کو معلوم ہوجائے کہ خواتین کی اہمیت معاشرے میں کیا ہے، آخر کب تک خواتین پر تشدد ہوتا رہے گا! ہمیں اس طرف پیش قدمی کرنی ہے، اس کی ترغیب دینی ہے۔ ہمیں اپنی اس تحریک حقوقِ نسواں کو قومی سطح پر مضبوط بھی کرنا ہے اور منوانا بھی ہے۔‘‘ ایک خاتون اپنے خیالات کا اظہار کررہی تھیں۔
’’بالکل، ہر سال عورت پر تشدد، اس کا نفسیاتی استحصال، اس کے حقوق کو غصب کیا جاتا ہے۔ ہم اس فورم کے ذریعے ہر سطح پر اپنی آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔ بس اب بہت ہوچکا، ہمیں بھی مساوی درجہ دیا جائے…‘‘ ایک دوسری خاتون پہلی کی تائید میں کہہ رہی تھیں۔
’’روزی!‘‘ نوشابہ نے برابر بیٹھی روزی کو کہنی ماری۔
’’ہوں…‘‘ روزی، جو بڑی توجہ سے خاتون کا مؤقف سن رہی تھی، چونکی۔
’’بس اب چلو، دیر ہورہی ہے، ہمیں یہاں آئے ایک گھنٹہ ہوچکا۔‘‘ نوشابہ پریشان ہورہی تھی، اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہوں! اچھا ٹھیک ہے، چلتے ہیں۔‘‘ غیر متوقع طور پر روزی بھی کھڑی ہوگئی تھی۔ دونوں ہال روم سے باہر نکلیں تو شام ڈھل رہی تھی۔ ’’کیسا لگا تمہیں پروگرام؟‘‘
’’اچھا تھا، کاش سب ایسا ہی ہوجائے جیسا ہم خواتین کے لیے چاہتے ہیں۔ بے چاری غریب، اَن پڑھ، مفلس عورت جو مظلوم ہے، پسی ہوئی ہے، مرد کے آگے آواز ہی نہیں اٹھا سکتی۔ گائوں کی عورتیں تو بہت ہی مظلوم ہوتی ہیں۔‘‘ نوشابہ پر خواتین کی بات چیت کا بہت اثر تھا تبھی تو وہ ان کے الفاظ دہرا رہی تھی، اور روزی سر ہلا کر تائید کررہی تھی۔ اسی وقت روزی کے موبائل کی گھنٹی بجی تھی۔
’’جی میں راستے میں ہوں، بس گھر ہی آرہی ہوں۔‘‘
’’آخر تمہاری یہ عیاشیاں کب ختم ہوں گی؟ آفس میں بیٹھ کر دل نہیں بھرتا کہ پھر نکل جاتی ہو، گھر کو تم نے سرائے سمجھ لیا ہے، تھوڑی دیر آکر سو لیا، پھر نکل گئیں۔‘‘ دوسری طرف روزی کا میاں تھا۔
’’میں … میں بس دس پندرہ منٹ میں نوشابہ کو چھوڑتی ہوئی…‘‘ روزی نے اٹکتے ہوئے کہا اور ساتھ بیٹھی نوشابہ کو چور نظروں سے دیکھا۔
’’ہاں… کیا میں جانتا نہیں تمہارے دس، پندرہ منٹ۔‘‘ وہ طیش میں بولا۔ ’’گھر، بچے، شوہر سب جائیں بھاڑ میں اور تم تفریح کرتی رہو۔‘‘ روزی کے ’’کھلے ذہن‘‘ کے شوہر کے منہ سے شعلے نکل رہے تھے حالانکہ وہ گھر کے سارے کام پوری خوش اسلوبی سے کرکے نکلی تھی تاکہ گھر کے کسی فرد کو شکایت کا موقع نہ ملے، لیکن آج اس کے میاں نے اس کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیرنے میں لمحہ نہیں لگایا تھا۔ موبائل فون پر آواز اتنی تھی کہ نوشابہ تک بآسانی پہنچ رہی تھی لیکن نوشابہ مکمل طور پر اسے نظرانداز کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ نوکری کرنا پڑھی لکھی عورت کی مجبوری ہے یا شوق؟
روزی نے تو نوکری شوقیہ کی تھی، اس کا ہمیشہ یہی کہنا تھا کہ اتنی تعلیم میں نے گھر بیٹھنے کے لیے حاصل نہیں کی، اور وومن پاورمنٹ گھر بیٹھے حاصل نہیں ہوتی… بھاڑ میں جائے ایسی پاورمنٹ جہاں دن بھر نوکری کرکے بھی ایسی باتیں سننی پڑیں۔ نوشابہ سوچ رہی تھی۔ آج ہر لڑکی کو یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ پڑھنے لکھنے کا مقصد صرف نوکری حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی زندگی کو، اپنے گھر اور بچوں کو بہتر طریقے سے لے کر چلنا ہے۔ ایک پڑھی لکھی عورت ایک خاندان کی تربیت اور تعلیم کا ذریعہ بنتی ہے، یہی وومن امپاورمنٹ کا راستہ ہے۔

حصہ