پتھر وہ مارے

217

عالیہ زاہد بھٹی
میں ابھی گھر آکر بیٹھی ہی تھی کہ بچے میرے اردگرد آکر بیٹھ گئے۔ مجھے معلوم تھا ان سب کی نظروں میں سوال تھا، الجھن تھی، اور مجھے نیہا کو سُلانے کی جلدی تھی۔ ایک تو رات بہت ہوگئی تھی، نیند تو سبھی کی خراب ہوئی تھی مگر نیہا ابھی سال بھر کی تھی اور یوں بلک بلک کر رو رہی تھی جیسے کوئی ڈرائونی شے اس کے سامنے آگئی ہو۔ میں نے اپنے لبوں پر انگلی رکھ کر باقی بچوں کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور نیہا کو سینے سے لگائے لگائے ہی E Pen اور اس کا کارڈ لے کر قاری عبدالباسط عبدالصمد کی آواز میں سورۃ رحمن لگا دی۔ ایک عجب سحر تھا اس قرأت میں کہ نیہا پہلے خاموش ہوئی پھر اپنی گیلی گیلی پلکی جھپکا کر مجھے دیکھنے لگی۔ مجھے ایسا لگا وہ مجھے شرمندہ کررہی ہے، اس کی بھیگی ہوئی معصوم سی نگاہیں مجھ سے سوال کررہی تھیں کہ اتنے پاکیزہ اور پاک ماحول سے، ان معطر صدائوں سے دور آپ مجھے کہاں لے جاتی ہیں! آپ کیسی ماں ہیں جو اپنے بچوں کو گھر کی حد تک تو بہت اچھا معطر و پاکیزہ ماحول دے دیتی ہیں مگر بس آپ کی طاقت یہاں تک ہی ہے، اس چار دیوار کے باہر ہمارے ساتھ کچھ بھی ہوجائے، ہمارے دل و نگاہ اور سماعتیں کتنی ہی آلودہ ہوجائیں، آپ کچھ نہیں کرسکتیں، کچھ بھی نہیں، آپ کیسی ماں ہیں؟‘‘
اس کی نگاہیں شکایتیں کرتے کرتے سورۃ رحمن کے الفاظ سنتے ہوئے شکرانہ ادا کرتے بند ہوگئیں۔ میں نے بچوں کی طرف دیکھا جو سب منی بہنا کے سونے کا انتظار کرتے دم سادھے بیٹھے تھے، جیسے ہی وہ سوئی سب کے لبوں سے ایک ساتھ سکون بھری سانسیں خارج ہوئیں۔ وہ مجھے اور میں انہیں دیکھ کر مسکرائی۔ نیہا کو بستر پر لٹا کر ہم سب باہر نکل آئے۔ سیٹنگ روم میں آتے ہی میں نے سب سے کہا ’’چلو بہت رات ہوگئی ہے، سوجائو اب تم لوگ بھی۔‘‘
’’نہیں مما ہماری تو نیند ہی اُڑ گئی ہے حیرت کے مارے۔‘‘ ارحم تو گویا صدمے میں تھا۔ میں نے نظریں چرا لیں۔
’’حیرت! ارے مجھے تو یقین نہیں آرہا تھا، دادی فاطمہ کو دیکھ دیکھ کر میں سوچ رہی تھی یہ ابھی اٹھیں گی اور اپنی بیٹی اور ان کے بچوں کو ڈانٹنا شروع کردیں گی کہ بند کرو یہ ولیمے کے موقع پر بے ہنگم موسیقی اور فضول گانے، مگر…‘‘ کنزیٰ نے روانی میں کہا تو میں نے سب کو خاموش کرا دیا کہ ’’دیکھو بیٹا! ہمیں یہ سب برا لگا، ہم جس ولیمے کی تقریب میں گئے تھے وہ دادی فاطمہ کے نواسے کی تھی، اور دادی فاطمہ وہ ہیںجو کسی بھی شادی بیاہ و دیگر تقریبات میں جب اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و شریعت کے خلاف کوئی بات دیکھتی ہیں تو فوراً برا بھلا کہتی ہیں۔‘‘ میں نے گلا صاف کرکے بچوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’حالانکہ غلط بات دیکھ کر برا بھلا کہنا درست نہیں ہے، یہ اصلاح کا غلط طریقہ تھا جس کی وجہ سے آج جب اُن کے اپنے گھر میں اُن کے نواسے کی تقریبِ ولیمہ میں جب موسیقی اور گانے بجائے گئے تو ہم سب کو اُن کے الفاظ و انداز یاد آرہے ہیں تو ہم کو دکھ ہورہا ہے۔‘‘
’’مما یہ تو وہی بات ہوگئی کہ دوسروں کو نصیحت اور خود کو…‘‘ ارحم بولا تو میں نے اسے گھورا ’’اب آپ بھی ایسی ہی حرکت کررہے ہیں، اسے غیبت کہتے ہیں، اسے شماتت بھی کہتے ہیں۔‘‘
’’شماتت کیا ہوتا ہے مما؟‘‘ زینب نے جو بہت دیر سے خاموش بیٹھی تھی، سوال کیا۔
’’شماتت یہ کہ جب تم کسی کی کوئی بھی برائی دیکھو تو اس کا مضحکہ اڑاتے ہوئے اس کی تنقید ایسے کرو جیسے اُس کی یہ برائی لوگوں کو بتانا مقصود ہو، اپنے آپ کو نیک بتانا اور دوسروں کی برائی کا پرچار کرنا۔ اور اللہ کا قانون ہے کہ جو ایسا کرتا ہے اسے موت نہیں آئے گی یہاں تک کہ وہ خود اس برائی میں مبتلا نہ ہوجائے۔‘‘
اوہ…! تو دادی جی خود اس شماتت کا شکار ہوگئیں؟‘‘ ارحم تاسف سے بولا تو میں نے جواب دیا ’’جی ہاں وہ ہمیشہ تنقید برائے تنقید کرتی تھیں، آج خود اس میں مبتلا ہوگئیں۔ تنقید برائے اصلاح ہوتی، لوگوں کو محبت سے درست کرنے کی کوشش کرتیں تو آج خود اُن کے بچے اس گمراہی کا شکار نہ ہوتے۔‘‘ کنزیٰ میری بات کو سمیٹتے ہوئے بڑی بنی۔
’’جی ہاں مما! آئندہ ہم کوشش کریں گے کہ کوئی برائی ہو گئی کسی سے تو اس کو پھیلانے کے بجائے اس کی پردہ پوشی کرکے اسے سدھارنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
’’اوہو پھر تو یہ پیغام اپنے میڈیا والوں کو بھی دیں ناں، جو صرف برائی ہی برائی دکھاتے ہیں، اصلاح نہیں کرتے۔‘‘ کنزیٰ نے کہا تو میں بولی ’’ہاں آئو ہم سب مل کر میڈیا والوں کو بھی اپنی یہ رائے دیتے ہیں کہ معاشرے کو جیسا اچھا آپ دیکھنا چاہتے ہیں ویسا دکھائیں، تاکہ لوگ اسے دیکھیں اور سیکھیں۔ کیوں کہ انسان دیکھ کر ہی سیکھتا ہے۔

حصہ