معذرت! میں پڑھ نہیں سکتا

226

ایمن شمسی
’’ابو! آپ سے ایک بات کہنی تھی۔‘‘ زرتاج ڈرتے ہوئے بولی۔
’’کیا…؟‘‘
’’میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں…‘‘ اب کی بار زرتاج کچھ واضح انداز میں بولی۔
’’ابو جان ایم اے کے داخلے آگئے۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟‘‘ ذومعنی اور بلا توجہ جواب۔
’’ایک بات یاد رِکھو تم نے جتنا پڑھا ہے ہمارے خاندان میں کسی نے نہیں پڑھا۔‘‘ واجد صاحب ایک دم طیش میں آگئے۔
’’ابو ہمیں پڑھنے کا حکم خاندان نہیں بلکہ خدا اور اس کا نبیؐ دیتا ہے‘ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔‘‘
سامنے بھی واجد صاحب تھے جنہوں نے تعلیم کے معاملے میں کبھی اولاد کی نہ سنی تھی۔ زرتاج نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ کسی صورت اپنے مؤقف سے نہ ہٹے گی اور بات منوا کر ہی دم لے گی پر…
’’تم زبان دراز ہوگئی ہو مجھے آگے سے جواب دیتی ہو‘ جائو یہاں سے…‘‘
جواباً زرتاج آنکھوں میں آنسو لیے چپ چاپ وہاں سے چلی گئی۔
…٭…
’’کون ہے بھئی…؟‘‘ احسن نے دروازہ کھولا تو سامنے دس‘ گیارہ سال کا بچہ کھڑا تھا۔ ’’کیا ہے بیٹا؟‘‘ احسن نے نرمی سے پوچھا۔
’’یا اللہ اس وقت ہی جنریٹر کو خراب ہونا تھا۔ ابھی تو لائٹ جانے کا ٹائم ہے۔‘‘ احسن لائٹ جانے پر بے اختیار کوفت کا شکار ہوا۔ ایسے میں دروازہ بجنے کا شور اسے مزید جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہوگیا۔
’’دس روپے کے… دس روپے کے 2 پیکٹ… ماما! دس روپے کے دو پیکٹ… چنے لے لیں گرم گرم تازہ تازہ۔‘‘
’’نہیں یعنی مجھے ایک تو جنریٹر خراب ہے اوپر سے یہ…‘‘ احسن بڑبڑایا۔
’’لالہ میں ٹھیک کردوں جنریٹر؟؟‘‘ لڑکا جھٹ سے بولا۔
’’تم ٹھیک کر لوگے…؟‘‘ احسن نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’لالہ ٹول بکس دیں میں ابھی صحیح کر دیتا ہوں…‘‘ پانچ منٹ میں لڑکا جنریٹر ٹھیک کر چکا تھا۔
’’بیٹا کیا تم انجینئرنگ پڑھ رہے ہو…؟‘‘
’’نہیں لالہ پورا دن چنے بیچتا رہتا ہوں… ہم لوگ نہیں پڑھتے ہمارے ابو کہتے ہیں کام کرو‘ پڑھنا پیسہ نہیں دیتا… کام کرکے پیسہ کمائو اور عیش کرو‘ ہم لوگ زیادہ نہیں پڑھاتے۔‘‘
یہ وہ چند عمومی رویے ہیں جو ہمارے قبائلی علاقوں میں وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھے ہیں اور آنے و الی نسل ان ہی اطوار کو اپنا رہی ہے۔ ہم خدا کی جانب سے ودیعت کردہ قیمتی نعمت سے ناواقف ہیں اور اپنے بچوں کے لیے روک ٹوک لگا کر ہم ان کو خدا سے مایوس ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر دستبردار ہو کر ان کو ایک طرف کرکے اپنی زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں‘ تنگ اور مایوس ہو کر یہ بچے خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے وہ اسے ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں یا پھر گھٹ گھٹ کر جینے پر مجبور ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے وہ بچہ جسے خدا بے پناہ صلاحیتوں سے نوازتا ہے اور وہ اسی پروان نہیں چڑھا پاتا وہ وقت کے ساتھ ساتھ چڑچڑا‘ بدتمیز اور خود سر بن جاتا ہے‘ زندگی سے‘ اپنوں سے اور دوست و احباب سے بغاوت پر اتر آتا ہے کیوں کہ وہ خود کو پیچھے رہ جانے سے ڈرتا ہے۔
جاہلانہ اور تنگ نظر سوچ کے مالک اپنی ذہنیت کو بدلیں۔ شریعت کے مطابق اور حدود کے اندر رہ کر اپنی اولاد میں ودیعت کی گئی تمام صلاحیتوں کو نکھاریں‘ ان کا ساتھ دیں‘ ان کا ذوق بڑھائیں‘ تعصب سے باہر نکل آئیں اور اسلامی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی اولاد کا ساتھ دیں‘ اپنی قوم کی مدد کریں‘ اپنی اولاد کو اپنا ساتھی بنائیں اور ان کو طاقت فراہم کریں۔آپ سے آپ کی اولاد اور اہل و عیال کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ لہٰذا اب یہ والدین پر منحصر ہے کہ وہ ان کو تراش خراش کرکے ہیرا بناتے ہیں یا بے یارومددگار حالات کے دھارے پر چھوڑ دیتے ہیں۔

حصہ