بھارت کا جنگی جنون اور پاکستان کی امن پسندی!۔

418

محمد انور
الحمدللہ پاک آرمی اور فضائیہ کے بعد گزشتہ بدھ کے روز پاکستان کی بحریہ نے بھارتی آب دوز کو پُرامن طریقے سے واپس اپنی حد میں جانے پر مجبور کرکے نہ صرف اپنے چاق و چوبند ہونے کا ثبوت دیا، بلکہ اس بات کا ایک بار پھر اظہار کیا کہ پاکستان ہرگز جنگ نہیں چاہتا، حالانکہ اگر پاکستان کے ایسے ارادے ہوتے تو بھارتی بحریہ کی سب میرین کو اپنی حدود میں داخل ہونے کی کوشش پر تباہ کردیا جاتا، بالکل اسی طرح جیسے بھارت کے طیاروں کو تباہ کردیا گیا تھا۔
پاکستان نے تو بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتاری کے بعد رہا کرکے ہی ’’بڑی جرأت مندی‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے پاکستان اور اس کی فوج نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ ہرگز جنگ نہیں چاہتے، کیونکہ اسلام میں پڑوسی کا خیال رکھنے کا حکم ہے، نہ کہ اسے تنگ کرنے کا۔
سچ تو یہ بھی ہے کہ بھارت کی طرف سے مسلسل جنگ شروع کرنے کی کوشش کے برعکس خطے میں امن برقرار رکھنے کے لیے جاری پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر پاکستان بغیر جنگ کے فتح یاب ہورہا ہے۔ دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ جنگوں سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان، پاکستان کے وزیراعظم اور پاک فوج امن و امان برقرار رکھنے بلکہ بھارت کی جنگ کی کوششوں کو روکنے کے لیے جس صبر و تحمل اور عقل مندی کا ثبوت دے رہے ہیں، وہ یقینا مثالی ہے۔
لیکن حالات اس بات کے گواہ ہیں کہ بھارتی حکومت صرف اپنی حکمرانی کو کٹّر ہندوئوں کے سامنے سرخرو کرنے کے لیے ’’علاقے‘‘ پر جنگ کی فضا قائم رکھنا چاہتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایسا کرکے لادین بھارت کو ہندو ریاست بنانے کی شروعات کرنا چاہتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی آبادی والے ملک بھارت کو ’’ہندو ملک‘‘ ہونا چاہیے، کیونکہ اس کے پڑوس میں پاکستان ایک طاقتور اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔ بھارتی حکمران اور بی جے پی کے رہنما نریندر مودی ہندوئوں کی اکثریت سے مخلص نہیں ہیں، بلکہ وہ صرف پڑوسی ملک کی طاقت سے جلتے ہیں۔ ایک چائے فروش نریندر مودی کی سوچ اور سیاسی بصیرت اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ مودی جنگوں کی تباہی سے واقف ہیں یا نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا انہیں ایک ’’جاہل اور جنگی جنون میں مبتلا سیاست دان‘‘ کی حیثیت سے پہچاننے لگی ہے۔
نریندرمودی اور ان کے ہم خیال سیاسی رہنماؤں کو ڈر ہے کہ کہیں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کا ملک پر غلبہ نہ ہوجائے۔
بھارت میں کی جانے والی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق کُل آبادی کا 79.8فیصد ہندو اور 14.2فیصد مسلمان ہیں، جب کہ 6 فیصد دیگر مذاہب مسیحیت، سکھ مت، بدھ مت، جین مت وغیرہ ہیں۔ مسیحیت بھارت کا تیسرا بڑا مذہب ہے۔ پارسی اور یہودی قدیم بھارت میں آباد تھے، آج کے دور میں ان کی تعداد محض ہزاروں میں ہے۔
موجودہ ہندو مذہب پرست حکومت کے منفی اقدامات کی وجہ سے بھارت میں ہندوئوں کے اسلام کی جانب راغب ہونے اور اسلام قبول کرنے کی وجہ سے بھی کٹر ہندو پریشان ہیں۔ جبکہ قوم پرست ہندو مستقبل قریب میں بھارت میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے سے ڈرنے لگے ہیں۔ حالانکہ انہیں مسلمانوں سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اپنی آخرت سے ڈرنا چاہیے جو اُن کی موت کے ساتھ ہی عبرت کا نمونہ بن جاتی ہے۔
اسلام انسانوں کو امن کا درس دیتا ہے۔ مسلمان جب طاقت رکھنے کے باوجود امن کا متلاشی ہو اور دشمن کو پُرامن رہنے کی پیشکش کرتا ہو تو یقین کرلینا چاہیے کہ وہ اللہ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم اور ہدایت پر عمل کررہا ہے۔
لیکن بھارتی حکمرانوں کے جنگی عزائم خود اُن کے لیے اور اُن کے ملک کے لیے تباہی و بربادی کا باعث بنیں گے۔ کیونکہ اگر پاکستان کے نہ چاہنے کے باوجود بھارت کی طرف سے جنگ کی سازشیں کی جاتی رہیں تو عین ممکن ہے کہ پاکستانی فوج اپنے ملک اور قوم کا دفاع کرتے ہوئے انتہائی سخت جواب دے ڈالے۔ ایسی صورت میں ایٹمی جنگ کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اور اگر خدانخواستہ یہ جنگ چھڑ گئی تو اس کے نقصانات بہت زیادہ اور کئی برسوں تک محیط ہوں گے۔

بھارت میں مودی کے خلاف جنگ

بھارتی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کا کہنا ہے کہ نریندر مودی خودنمائی میں مبتلا اور ذہنی بیمار ہیں۔ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے مگر نریندر مودی اسے ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ جبکہ وزیراعظم نریندر مودی کو پارٹی کے اندر سے انتہاپسند ہندوئوں کی مخالفت بھی درپیش ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مودی ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ ہندو ایجنڈے پر بھی توجہ مرکوز رکھیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیم شیوسینا کا ہندو ایجنڈے کے بارے میں مودی پر دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔

امن کا نوبیل انعام اور عمران خان

اگرچہ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کاٹجو وزیراعظم عمران خان کو امن کا نوبیل انعام دینے کی حمایت کرچکے ہیں، لیکن عمران خان نے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ نوبیل انعام کے حق دار وہ نہیں بلکہ یہ انعام اُسے ملنا چاہیے جو مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کرائے۔ نوبیل انعام کے حوالے سے ووٹنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے لیکن عمران خان کو کسی ایسے انعام کی ضرورت نہیں ہے جو اس سے قبل مسلمانوں اور پاکستان کو بدنام کرنے والوں کو دیا جاتا تھا۔ عمران خان تو بغیر ایوارڈ کے دنیا میں امن کے داعی قرار پا چکے ہیں۔

خدانخواستہ ایٹمی جنگ ہوگئی تو کیا ہوگا؟

سائنس دانوں نے سپر کمپیوٹروں کی مدد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا خاکہ تیار کیا ہوا ہے، جس کے مطابق تقریباً 100 چھوٹے ایٹمی ہتھیار چلنے کے نتیجے میں دنیا تقریباً 20 سال کے لیے سورج کی روشنی سے محروم ہوجائے گی، سخت سردی کا طویل موسم شروع ہوجائے گا اور دنیا کو کئی دہائیوں کے لیے قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس تحقیق میں فرض کیا گیا تھا کہ ایٹمی جنگ میں پاکستان اور بھارت کی طرف سے 15 کلو ٹن کے پچاس پچاس ایٹمی بم چلائے جائیں گے۔ ان بموں کے نتیجے میں فوری طور پر 5 میگا ٹن سیاہ ایٹمی راکھ خارج ہوگی اور فضا میں پھیل کر سورج کی روشنی کو روک دے گی، جس کے نتیجے میں اگلے 20 سال کے لیے زمین کا درجہ حرارت مسلسل گرتا جائے گا۔ سورج کی مضر شعاعوں کو روکنے والی اوزون کی تہہ بھی 20 سے 50 فیصد تباہ ہوجائے گی، جس کی وجہ سے کینسر عام ہوجائے گا۔ زمین کا درجہ حرارت بے پناہ کم ہونے سے پورے سال میں تقریباً ایک ماہ کے دوران کوئی چیز اگ سکے گی۔ اس ساری تباہی کے نتیجے میں تقریباً ایک ارب لوگ لقمہ اجل بن جائیں گے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کی ایٹمی جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا نقشہ دنیا کی بڑی ایٹمی طاقتوں کے لیے وارننگ ہے کہ وہ اپنے ہزاروں ایٹمی ہتھیاروں کو تلف کردیں۔

حصہ