شریک مطالعہ

1072

نعیم الرحمن
(دوسرا اور آخری حصہ)
سرقہ (نثر و نظم) سے متعلق مباحث علمی و ادبی تواریخ کے خصوصی موضوع رہے ہیں۔ لیکن ان مباحث پرکوئی جامع کتاب کم ازکم اردو زبان میں ابھی تک نہیں لکھی گئی۔ مولوی نجم الغنی خان کی ’’بحرالفصاحت‘‘، رسالہ ’’الناظر‘‘ میں شائع شدہ دستاویز ’’سرہ کا دور محیرہ‘‘، ناطق لکھنوی کا مضمون ’’سرقہ و توارد‘‘، یگانہ کی ’’غالب شکن‘‘، پنڈت برج موہن کیفی کا خطبہ ’’نظر اور خودنظری‘‘، اور ’’منشورات‘‘ میں پہلے ایڈیشن پر نوٹ، عندلیب شادانی کے مضامین ’’سرقہ و توارد‘‘ اور’’سرقہ یا چوری‘‘، ممتاز لیاقت کی ’’بکف چراغ دارد‘‘ ان مباحث، اصطلاحات اور موضوعات کا جزوی احاطہ کرتے ہیں، لیکن ان الفاظ کے مابین بال سے زیادہ باریک فرق کی تفصیلی وضاحت نہیں کرتے۔ ترجمہ سرقے میں شامل نہیں اگر ترجمے کا اعتراف کرلیا جائے۔ مگر متقدمین، متوسطین اور اکابرین، کسی نے بھی ترجمے کا اعتراف نہیںکیا۔ اگر اخذ و استفادہ یا استفاضہ کا اعتراف کرلیا جائے جیسے اقبال کی بیشتر نظموں کے آغاز میں ملتا ہے، تو سرقہ کا داغ دھل سکتا ہے، مگر یہ اُسی وقت ممکن ہے جب داغ کو داغ سمجھا جائے۔ داغ اور اجلا پن مترادف ہوجائیں تو اعترافِ گناہ بد ترازگناہ ہوجاتا ہے۔‘‘
ایک اور جگہ مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ ’’پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ زیرِ بحث شعر حسن و خوبی میں اپنی اصل سے بڑھ گیا ہے یا نہیں؟ اگر بڑھ گیا ہے تو یقینا قابلِ تعریف ہے، مستحقِ ملامت نہیں۔ آخر اس نے کچھ تو اضافہ کیا۔ دنیا کی ہر چیز میں ترقی کا یہی اصول کارفرما ہے اور شعر بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔‘‘
سرقہ کے لیے مختلف ادوار میں کیا کیا جواز تراشے گئے، ان کا بھی مقالے میں ذکر ہے۔ عظیم شعرا کے کلام اور ادباء کی تحریروں سے سرقہ کے نمونے بھی پیش کیے گئے ہیں۔ گویا مقالے میں دریا کو کوزے میں بند کرکے پیش کیا گیا ہے۔ عندلیب شادانی کے مضمون ’’سرقات اساتذہ ‘‘ کا نام ہی اس کی وضاحت کرتا ہے۔ مضمون نگار کا کہنا ہے کہ ’’بادشاہ متغزلین یا دوسرے اساتذہ کی چوری کھولنے سے ہمارا منشا ان کی تنقیص ہرگز نہیں بلکہ یہ دکھانا مقصود ہے کہ غزل گوئی کا دار و مدار جب نقالی پر ہوگا اور آپ بیتی سے گریزکیا جائے گا تو چوری ناگزیر ہے۔ اسی نقالی نے غزل کے تنگ میدان کو تنگ تر بنادیا ہے اور ہم غزل گو شعرا سے اکثر یہ شکایت سنتے ہیں کہ کہنے والے سب کچھ کہہ گئے، اب کوئی غزل میں نیا مضمون کہاں سے لائے؟ درحقیقت آج بھی غزل کے لیے تازہ مضامین کی کمی نہیں بشرطیکہ لکھنے والا آپ بیتی بیان کرے۔‘‘ مضمون میں غالب اور حسرت موہانی سمیت کئی اساتذہ کے کلام میں سرقہ کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے قاری حیران رہ جاتا ہے۔ محاضرات کے دیگر مضامین میں محقق اور دانشور مشفق خواجہ کا ’’سرقہ نویسی‘‘، خالد علوی کا ’’قصہ کچھ کتابوں کا‘‘ اور مرغوب علی کا مضمون ’’سرقہ، توارد اور استفادہ‘‘ بھی چشم کشا تحریریں ہیں۔
دوسرا باب ’’جراحیات‘‘ 320 صفحات پر مشتمل ہے اور سرقہ نمبر کا طویل ترین حصہ ہے جس میں شامل 31 مضامین میں ادب کے عظیم ترین نثر نگاروں کی سرقہ بازی کا انکشاف کیا گیا ہے۔ فہیم کاظمی کے مضمون ’’محمد حسین آزاد کے سرقے‘‘ کا عنوان ہی قاری کو ششدر کردیتا ہے۔ ان کے لیے یہ انکشاف کسی المیے سے کم نہیں: ’’محمد حسین آزاد کی ’آبِ حیات‘ میں غلطیوں اور تضادات کی موجودگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ ان کی تحقیق نہیں بلکہ دوسرے سے مستعار ہیں، جنہیں بغیر چھانے پھٹکے انہوں نے اپنی کتاب میں شامل کرلیا۔ آب ِ حیات دراصل میر قدرت اللہ خاں قاسم کی تالیف ’’مجموعۂ نغز‘‘ کا چربہ ہے۔ اگرچہ آزاد نے اس کتاب میں کہیں کہیں حوالہ بھی دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت ساری ایسی معلومات جو قاسم کے ’’مجموعۂ نغز‘‘ میں موجود ہے، انہیں بغیرکسی حوالے کے آزاد نے اٹھالیا ہے۔‘‘ محمود شیرانی لکھتے ہیں کہ ’’ولی اور ناصر علی کے درمیان شاعرانہ تعلی کا قصہ، شاہ مبارک آبرو کے حالات، اشعار متفرق، مکھن پاک بازکا ذکر، شیخ شرف الدین مضمون کا حال اور اشعار، آرزو کا ذکر اور اشعار‘ آرزو کی بدیہہ شعرخوانی، سودا کے شعر کو حدیثِ قدسی کہنا، محمد شاکر ناجی کے حالات اور نادر شاہ سے جنگ کے متعلق ان کے خمسے کے دو بند اور متفرق اشعار، شاہ حاتم کے بیشتر اور اشرف علی خان فغان و یک رنگ کے کم تر حالات و اشعار اسی تذکرے سے منقول ہیں۔ سودا کا لطیفہ قائم علی امیدوار کے ساتھ، بقا اللہ خان بقا کے حالات، پیر خان کمترین کا حال اسی ماخذ سے ہیں۔‘‘ اسی طرح آزاد کے مرتب کردہ دیوانِ ذوق کے مقابل ویران کا مرتبہ دیوانِ ذوق کی مثالیں بھی موجود ہیں۔
اس حصۂ مضامین میں سید ابوالخیر کشفی نے ’’نیرنگ خیال میں خیالِ مسروقہ‘‘ پیش کیا ہے۔ عبیداللہ نے ’’مقدمہ شعر و شاعری کا مقدمہ‘‘ کے عنوان سے گراں قدر مضمون لکھا ہے۔ سید حسن مثنیٰ ندوی نے ’’ترغیبات جنسی نیاز فتح پوری‘‘ کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ سید حسن مثنیٰ ندوی نے ’’مولانا ابوالکلام آزاد سرقے کی زد میں‘‘ اور عارف گل نے ’’دوسروں کی تحریریں اور مولانا ابوالکلام آزاد‘‘ میں برصغیرکی عظیم علمی اور ادبی شخصیت کی تحریروں کے اصل ماخذ پیش کیے ہیں۔ ’’مہر نیم روز‘‘ کے ادبی سراغ رساں حسن مثنیٰ ندوی کا اصول یہ ہے کہ جن دو کتابوں کو اصل و نقل پاتا ہے، اُن کی عبارتیںآمنے سامنے رکھ دیتا ہے اور جابجا ضمنی طور پر اپنے اندیشے اور امکانات کا اظہار کرکے بیچ سے رخصت ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ انہوں نے ابوالکلام آزاد کے ترجمان القرآن اور سید رشید رضا صاحب المنار کی ’’تفسیرالمنار‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ رشید رضا کے مختصر دیباچے کے بعد شیخ محمد عبدہٗ کا مقدمہ تفسیر بھی مختصر ہی درج ہے جس میں انہوں نے تفسیر سے متعلق چند ضروری باتیں پیش کی ہیں۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رشید رضا کے دیباچے کی ابتدائی سطروں نے مولانا کو اصول موضوع دے دیا۔ ’’اصول ترجمہ و تفسیر‘‘کے عنوان سے جو تحریر ان کے قلم سے نکلی وہ اسی اصول موضوع کے گردگھومتی رہی، اگرچہ جملے کے جملے اس میں شیخ کے ابھرتے رہے۔ تفسیر قرآن میں بھی اتنے بڑے اور جید عالم دین کی سرقہ نویسی عبرت ناک ہے۔
ماہرالقادری نے ’’نگارکے خدا نمبرکا خداکون؟‘‘ میں نیاز فتح پوری کے خدا نمبرکے اصل ماخذکی نشاندہی کی ہے۔ سید ابوالخیر کشفی نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی سرقہ بازی سے لفظاً نقطاً پردہ اٹھایا ہے۔علی اکبر قاصدکے دو مضامین میں عصمت چغتائی اور کرشن چندرکی چوریوں کا بھانڈا پھوڑا ہے۔ پہلا مضمون ’’عدالت خانم کی عدالت میں عصمت چغتائی‘‘ اور دوسرا ’’کرشن چندر کس درجہ ہوئی عام یہاں مرگِ تخیل‘‘ کے نام سے ہے۔ ناصر عباس نیر نے ’’شبلی نعمانی کی تنقید پر مغربی اثرات‘‘ اور منیرالدین احمد نے ’’مولانا اشرف علی تھانوی کا علمی سرقہ‘‘ کے عنوان سے مضامین تحریر کیے ہیں۔ منصور آفاق کی تحریر ’’فیض احمد فیض، قزاقی کا طوق‘‘ میں پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض کے اشعار سے سرقہ کی نشاندہی کی ہے۔ انجم رومانی نے ’’ابواللیث صدیقی کا سرقہ‘‘ کے زیرِ عنوان مضمون لکھا ہے۔ فرمان فتح پوری نے’’آل احمد سرور کی کرامتیں‘‘ میں معروف ادیب کے سرقوں کی نقاب کشائی کی ہے۔ ممتاز لیاقت کے چار مضامین ’’بکف چراغ دارد‘‘، ’’تاریخی ناول اور اس کا فن: سید وقار عظیم ‘‘، ہنسی کے متعلق۔ سجاد باقر رضوی‘‘ اور’’امانت لکھنوی: سید وقار عظیم‘‘ اس حصے میں شامل ہیں۔
ناصر جمال نے ’’سید معین الرحمن کا نسخۂ مسروقہ‘‘ میں غالب کے مسروقہ دیوان اور اس کے لیے کی گئی جعل سازی کا دل چسپ قصہ بیان کیا ہے: ڈاکٹر سید معین الرحمن نے 1998ء میں دیوان غالب کے ایک مخطوطے کو دیوان غالب نسخہ خواجہ کے نام سے مدون کرکے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ اس سے قبل ڈاکٹر سید عبداللہ نے رسالہ ماہ نو کراچی جولائی 1954ء میں بعنوان دیوان غالب کا ایک نادر قلمی نسخہ ایک مضمون لکھ کر چھپوایا اور ساتھ ہی اس کے پہلے دو صفحات کے عکس بھی۔ 1957ء میں قاضی عبدالودود پاکستان آئے اور پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں یہ نسخہ دیکھا اور اس کی تصاویر لے گئے جو بعد میں مولانا عرشی کو بھیج دیے، کیوں کہ اُس زمانے میں وہ دیوانِ غالب مرتب کررہے تھے۔ قاضی عبدالودود نے رسالہ نقوش لاہور 1958ء میں اس نسخے کا مختصر تعارف متفرقات کے عنوان سے ایک مضمون لکھ کر کرایا۔ مولانا عرشی کا مرتب کردہ دیوان غالب نسخہ عرشی بھی 1958ء میں چھپ کر آگیا۔ انہوں نے قاضی عبدالودود کی ارسال کردہ تصاویر سے استفادہ کیا اور اس کو نسخہ لاہور کا نام دیا۔ معین الرحمن نے اصول تدوین کی خلاف ورزی کی ہے جب کہ ان کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ قاضی عبدالودود کا مضمون 1958ء میں چھپا اور مولانا عرشی کا مرتب کردہ دیوانِ غالب نسخہ عرشی بھی اسی سال شائع ہوا۔ دیوانِ غالب نسخہ خواجہ یا نسخہ مسروقہ ہے۔ لیجیے صاحب، تحقیق کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹی اور اس میں سے مسروقہ خزف ریزے باہر نکل کر سراغ رسانوں کو دعوتِ تفتیش دینے لگے۔
ناصر عباس نیر کا مضمون ’’اردو میں مغربی تنقیدکی نصابی کتب‘‘ بھی بہت عمدہ ہے۔ عمران ناصر بھنڈر نے ’’گوپی چند نارنگ کی سچائی‘‘ اپنے مضمون میں بیان کی ہے۔ توحید تبسم نے ’’مرزا حامد بیگ کا مال و متاع‘‘ تحریر کیا ہے۔ اس حصے کے اختتام پر اثبات کے مدیر اشعر نجمی نے ’’مدیر اثبات کا سرقہ، تھی خبرگرم‘‘ کے عنوان سے خود پر لگے سرقے کے الزام کی وضاحت کی ہے۔ طویل مضمون میں اشعر نجمی نے الزام کی تمام تفصیلات اپنی تحریر اور پاکستانی مصنف علی اقبال کی کتاب ’’روشنی کم تپش زیادہ‘‘ کے اقتباسات آمنے سامنے پیش کرکے صورت حال کو واضح کیا ہے۔
اثبات سرقہ نمبرکا تیسرا باب ’’مشتے نمونہ ازخروارے‘‘ ہے۔ جس میں اردو کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہونے والے چند ادبی سرقوں اور جعل سازی کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ گیان چند جین کا ’’کچھ جعلی کتابوں کے بارے میں‘‘ ہماری زبان دہلی سے لیا گیا ہے، جس میں مختصراً ادب میں جعل سازی کے نمونے پیش کیے گئے ہیں جیسے عبدالباری آسی نے غالب کے نام سے 26 غزلیں تصنیف کیں، ان میں سے کچھ کو نگار لکھنؤ میں شائع کیا، بعد میں اپنی مکمل شرح کلام غالب صدیق بک ڈپو لکھنؤ سے شائع بھی کروائی۔ اسی طرح محمد اسماعیل رسا گوالیاری نے نادر خطوطِ غالب کے نام سے مجموعہ شائع کیا۔ اس کی قلعی مالک رام نے اپنے مضمون ’’نادر خطوط غالب پر ایک نظر‘‘ میں کھولی۔ اس حصے میں پاک و ہندکے متعدد رسائل سے کئی مختصر اور جامع تحریروں کا اچھا انتخاب کیا گیا ہے۔
اثبات سرقہ نمبرکا آخری مضمون خورشید قائم خانی کا ’’عبداللہ حسین کا نادار لوگ‘‘ کے بارے میں ہے۔ خورشید قائم خانی نے خدیجہ گوہر کے انگریزی ناول کا ترجمہ ’’امیدوں کی فصل ‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ خورشید لکھتے ہیں کہ’’مجھے ایک صاحب کا خط موصول ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ناول مجھے بہت پسند آیا، لیکن ایک بات کے بارے میں آپ سے معلومات کرنی ہے، اس موضوع پر ایک ناول عبداللہ حسین کا نادار لوگ بھی چھپا ہے۔ ان ناولوں میں کئی واقعات میں اس قدر مماثلت پائی جاتی ہے کہ شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ کیا آپ اس بارے میں کچھ روشنی ڈالیں گے؟ میں اس بارے میں لکھنے کا سوچ ہی رہا تھا۔ اس خط نے سونے پرسہاگے کا کام کیا۔ یہ صحیح ہے کہ بعض اوقات نظم و نثر میں خیالات یا جملوں میں تھوڑی بہت مشابہت ہوسکتی ہے، مگر کسی دوسرے ناول کا تھیم اور اسلوب اٹھانا اور تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ پورا کا پورا چربہ اتارنا جیسا کہ نادار لوگ میں کیا گیا ہے، یہ توصرف عبداللہ حسین کے ہاں ملتا ہے۔‘‘
غرض اثبات کا سرقہ نمبر اس موضوع پر مکمل اور جامع شمارہ ہے اور ادبی تحقیق کرنے والوں کے لیے بہت کارآمد ہے۔ ادبی شغف رکھنے والے ہر فرد کی لائبریری میں یہ شمارہ لازمی ہونا چاہیے۔ اشعر نجمی کے اثبات کا ’’سرقہ نمبر‘‘ اور اس کے بعد ’’ادب میں عریاں نگاری اور فحش نگاری‘‘ پر خصوصی شمارہ بھی عکس پبلشرز نے شائع کرکے پاکستانی قارئین کو بھی ان یادگار شماروں سے محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اثبات کا اگلا شمارہ ’’احیائے مذاہب، اتحاد، انتشار اور تصادم‘‘ بہت جلد پاکستان اور ہندوستان میں ایک ساتھ شائع ہورہا ہے جس کے مضامین کے اقتباسات اشعر نجمی فیس بک پر لگا کر قارئین کے انتظار کی آگ پر تیل چھڑک رہے ہیں۔ امید ہے کہ یہ بھی ایک شاندار شمارہ ہوگا۔ اثبات کے پاکستان سے بھی شائع ہونے سے اردو ادب کے ایک نئے دورکا آغاز ہوا ہے۔ امید ہے کہ سلسلہ جاری رہے گا۔

حصہ