سعیدشارق کے شعری مجموعے کا مکالماتی جائزہ

719

فیض عالم بابر
(گزشتہ سے پیوستہ)

خیر تو شارق کے شعر سُن!
اک ایک کرکے سارے مکیں سوچکے مگر
گھر جاگتا رہے گا مرے انتظار میں
خوشبوئوں کے لب چوموں،چہرہِ دعا دیکھوں
کون ہے یہ خاموشی،کون ہے صدا دیکھوں
نئے کپڑے یونہی افسردہ پڑے رہتے ہیں
کون سمجھے یہ اذیت مری الماری کی
کھینچتا جاتا ہے اپنی سمت ویرانہ مجھے
کتنا مہنگا پڑگیا ہے صحرا نظر آنا مجھے
وہ پھول تو کبھی کا خاک ہوچکا
نہ جانے گھورتی ہے کیوں خزاں مجھے
کبھی دھڑکا سا لگا رہتا تھا دن کٹنے کا
خیرا ب رات بھی ہوتو مرا کیا جاتا ہے
اک کھیل میں گزرتا رہے اپنا ا پنا وقت
میں پُر کروں خلا کبھی مجھ کو خلا بھرے
گلی کے دونوں جانب راستہ ہے تنگ شارق
گزرتی شب پلٹتی شام سے ٹکرا نہ جائے
جگہ دے بیٹھی تھی کمرے میں آئینے کو شارق
سو اب تنہائی بھی میری طرح پچھتارہی ہے

واہ وا وا۔۔ بابر تیرا منہ چومنے کو دل کررہا ہے۔کیا انتخاب ہے تیرا۔۔۔ ابے یار مجھے مکھن مت لگا یہ بتا ان شعروں سے کیاکھوج لگایا تونے۔۔۔۔ہاہاہا ،مکھن نہیں لگارہا مجھے اس کی کتاب دے۔ کتاب تو ’روحانی بارگاہ ‘ پہنچ گئی ۔واپس مل گئی تو لے لینا یا پھر شارق سے ایک اورکاپی تجھے منگوا دیتا ہوں۔ہوں۔۔ یہ تونے جو شعر سنائے ہیں ان میں تو خوشبو،الماری،دعا، صدا،خلا،شب،شام،تنہائی وغیرہ غیر جاندار اور غیر مرئی اشیاء ہیں ان سے شاعر نے اپنا تعلق جوڑا ہے۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ٹھیک سمجھا تو۔ شاعر کی وہی خلوت جس کی بات ہم نے ابھی تھوڑی دیر پہلے کی وہ شاعر کے احساس کو اس حد تک نازک اور مصفا کردیتی ہے کہ شاعر انہیں جاندار سمجھنے لگتا ہے اور دنیا میں جیسا وہ چاہتا ہے ویسا نہ ہونے پر ان نادیدہ اور بے وجود اشیاء کو وجود دینے لگتا ہے۔اب پہلا شعر جو تجھے سنایا اُسے ہی دیکھ ۔گھر والوں کے نارواسلوک کے باعث گھر کو جگتا دکھا کر خود کو تسلی دے رہاہے۔ نئے کپڑوں کے تناظر میں الماری کی اذیت کو محسوس کررہا ہے۔خزاں کو گھورتا دکھاکر اپنا دشمن سمجھ رہا ہے۔تنہائی کے پچھتانے کو خود سے تعبیر دے کر تنہائی کو زندہ وجود بتارہا ہے۔یہ مقطع ہے بھی بہت بامعنی اور خوبصورت۔۔
کچھ اشعار میں اس نے زبان کا استعمال بھی بہت خوبصورتی اور سلیقے سے کیا ہے۔اچھا! سنا زبان والے شعر۔۔ہاہاہا زبان والے شعر ۔۔تیری اردو دانی کا جواب نہیں فیضِ عالم۔ ہاہاہا۔۔۔۔۔

سفر اس سوچ میں تمام ہوا
رُک نہ جائوں؟ نہیں،چلا جائوں
اچھا! درِ تنہائی کھلا رہنے دوں؟ یعنی
دیوار سے لگ جائوں؟ مگر کیوں؟ نہیں لگتا!
ہنس پڑے ہیں تو سوچتے ہیں اب
ویسے ہنسنے کی بات تھی تو نہیں
یہ الگ بات دکھائی نہ دیا
ہاں! ترے ساتھ عموماً میں تھا
چھان لیجے ذرا وجود مرا
کیا خبر کیا ہوں ،کیا نہیں ہوں میں
موند لو آنکھیں اور پھر دیکھو
کون ہے دُور! کوئی بھی تو نہیں
دیکھتے ہی دیکھتے اک ایک کرکے جل گئیں
روٹیاں رکھی تھیں میں نے آج کے اخبار پر
آئنہ دیکھا تو مایوسی ہوئی
میں تو اب بھی ویسا ہوں تھوڑا بہت

اچھے اشعار ہیں یار۔۔۔۔ اچھا یار یہ بتا اس کی کتاب میں کس کس کے مضامین شامل ہیں اور کس نے کیا اہم بات کہی اس کی شاعری کے حوالے سے۔۔ کتاب میں کسی کا مضمون نہیں ہے۔۔ اچھا!۔۔ کیا پہلے کوئی مجموعہ آچکا ہے اس کا؟ معلوم نہیں۔۔ شاید پہلا مجموعہ ہے۔۔ یار اگر پہلا مجموعہ تھا تو پھر تو کسی کا مضمون ہونا چاہیے تھا۔یا خود کو اتنا بڑا شاعر سمجھ لیا کہ کسی کو خاطر ہی میں نہیں لایا۔۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو۔۔ ممکن ہے حقیقت شناس ہو ۔۔اسے معلوم ہو جس نے بھی جو لکھنا ہے تعریف ہی کرنی ہے اور وہ بھی جھوٹی۔۔ یہ ضروری تو نہیں بابر ہر آدمی جھوٹی تعریف کرکے پڑ ھے بغیر لکھ کرجان چھڑا لے۔اب میں اس حوالے سے کیا کہوں فیضِ عالم!۔کبھی ملاقات ہوئی تو پوچھ لوں گا۔ اچھا اس کی خامیوں پر تو تونے کوئی بات ہی نہیں کی۔ خامیاں ہیں کچھ معمولی درجے کی ،کچھ پروف کی غلطیاں بھی ہیں۔ذکر یوں نہیں کررہا کہ تجھے معلوم ہے میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر شاعر بھرپور ہو تو اس کی چھوٹی موٹی خامیوں کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ ایک شعر کا مصرع اولیٰ بے وزن ہے وہ شعر بھی سن لے۔

وقت بے وقت الارم بجتا ہے
چل پڑی ہے عجب گھڑی مجھ میں

ایک چیز مجھے اس کی شاعری میں ضرور کھٹکی۔۔۔۔ وہ کیا؟۔ یار اس کی تقریباً تمام شاعری ماضی کے نقوش کو حال کے پردے پر دکھا رہی ہے۔مثلاً اس کی کتاب میں شامل پہلی غزل کے دو شعر سُن!

چمکتے خواب تھے،آتے دنوں کی روشنی تھی
ابھی تو میرے اندر اچھی خاصی روشنی تھی
اک ایسی نہر سے ہم کو گزارا جارہا تھا
جو آدھی تیرگی تھی اور آدھی روشنی تھی

اب خود دیکھ پوری غزل ماضی کے صیغے میں ہے حالانکہ یہ ابھی جوان ہے۔چاہتا تو’ تھی‘ کو’ ہے ‘میں بدل کر بھی غزل کہہ سکتا تھا۔ تو اس میں کیا مضائقہ ہے بابر!۔شاعر کی مرضی ۔ہاں مضائقہ تو کوئی نہیں شاعر کی مرضی جو جی چاہے کرے مگر ہم صائب مشورہ تو دے ہی سکتے ہیں نا۔اصل میں یہ بات میں یوں کررہا ہوں کہ صرف یاسیت کی بنیاد پر بڑی شاعری نہیں کی جاسکتی۔امید کا دِ یا بھی کہیں کہیں کبھی کبھی روشن کرنا چاہیے کہ امید ہی مستقبل ہوتی ہے اور مستقبل کا تعین بھی کرتی ہے۔اسکی شاعری میں کچھ اور بھی خوشگوار گوشے ہیں جن پر پھر کبھی بات کریں گے۔ کچھ ایسی بحروں میں بھی اس نے اچھے اشعا ر کہے ہیں جن کو شعرا کم ہی ہاتھ لگاتے ہیں ۔مثلاً بحر رجز کی مزاحف شکل (مفتعلن مفاعلن،مفتعلن مفاعلن) میں اس کے کچھ اشعار سن!

تیرے بغیر زندگی مہر بہ چشم کٹ گئی
کوئی نہ ہم سخن ہوا مجھ سے تری زبان میں
کتنی ہی بارشیں ہوئیں اُجڑے مکان پر مگر
چھت نہ ٹپک سکی کبھی،رنگ اُتر نہیں سکا
کیسا تضاد آگیا حاصل و دستیاب میں
آنکھ میں خواب ہے مگر کچھ بھی نہیں ہے خواب میں

اگلی کتاب کا بھی انتظار کرتے ہیں ۔دیکھتے ہیں بیشتر شعرا کی طرح تخلیقی طور پرمرجاتا ہے یا ایک قدم آگے بڑھتا ہے۔ابھی میرا وقت ہوگیا بارگاہِ ذات میں گُم ہونے کا۔ تجھے سرشار کردیا چل اب نکل۔۔۔ ہاہاہا ۔ اوکے یار پھر ملتے ہیں۔ اللہ نگہبان ۔اللہ نگہبان۔

حصہ