عدلِ جہانگیری

2399

دربار سجا ہوا تھا لیکن ایک گھمبیر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ باد شاہ ہی نہیں، دربار میں موجود ہر فرد اضطراب کا شکار ہے۔ جہانگیر ماجرے کے متعلق سن تو چکا تھا لیکن معلوم کرنے پر جیسے دربار میں موجود ہر فرد کچھ کہنے اور بتانے سے ہچکچا رہا تھا۔ یہ بات جہانگیر کیلئے بہت ہی تکلیف کا سبب بنی ہوئی تھی۔ وہ چاہتا تو دربار میں موجود ذمہ داروں سے سختی کے ساتھ بھی حقیقت حال معلوم کر سکتا تھا لیکن یہ بات جہانگیر کے مزاج کے خلاف تھی اس لئے وہ چاہتا تھا کہ کہ اس کے دربار میں موجود کوئی ایک تو ایسا ہو جو کسی جبر کے بغیر خبر کی حقیقت بتا سکے۔
خبر بھی معمولی نہیں تھی۔ دارالسلطنت لاہور کا ایک عظیم الشان قلعہ جس کی چہاردیواری کے اندر کسی کا قتل ہوجانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ قتل کسی باہر کے آدمی نے تو کیا نہ ہوگا۔ جو بھی قاتل ہوگا اندر کا ہی ہوگا۔ گمان کا کیا ہے، وہ تو کئی افراد پر جا سکتا تھا۔ پھر شاہ محض گمان پر تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تھا۔ ایسا فیصلہ تو عدل و انصاف کے خلاف ہوتا۔ پھر اس عدل کے خلاف جس کیلئے وہ پورے ہندوستان میں مشہور تھا، کیسے ممکن تھا کہ وہ اصل قاتل کی تک نہیں پہنچ پاتا اس لئے بہت ضروری تھا کہ مقتول، قتل اور قاتل سب اس کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں نہ کر دیئے جاتے۔ ایک اضطراب کا عالم تھا۔ باد شاہ کا اپنے تخت خاص پر پہلو پر پہلو بدلنا اس کے شدید اضطراب کا مظہر تھا۔ اسے ہر صورت میں حقیقت حال جاننا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار دربار میں موجود ایک ایک فرد کو گہری نظر سے دیکھ رہا تھا تاکہ کوئی تو ہو جو اس کو حقیقت سے آگاہ کر سکے۔ درباریوں میں سے کچھ بہت ہی بے چین، گھبرائے ہوئے اور ڈرے ہوئے نظر آرہے تھے۔ ان کے چہرے پر شبنم جیسی نمی، چغلی کھاتی نظریں اور جھکی ہوئی گردنیں اس بات کی جانب اشارہ کر رہی تھیں جیسے وہ جاننے تو سب کچھ ہوں لیکن کہتے ہوئے بہت ہی خوف زدہ ہوں۔ آخر ایسی کیا بات تھی جو ان کی زبانوں پر تالے ڈالی ہوئے تھی۔ یہی وہ تاثرات تھے جو جہانگیر کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھے اور باد شاہ کی نظریں بار بار ان کی جانب اٹھ جانا اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ ان ہی کی زبانی کچھ سنا چاہتا ہے۔ وہ حیران تھا کہ آخر وہ کیا بات ہے جو اس سے چھپائی جارہی ہے۔ اس کے سب مصاحب اس سے بہت ہی مخلص تھے اور ان کی نیت پر وہ کوئی شبہ نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لئے وہ منتظر تھا کہ ان کی زبانوں سے حقیقت اگلے لیکن لگتا تھا کہ وہ اتنی جرات نہیں پا رہے ہیں کہ کچھ کہہ سکیں۔ مسلسل خاموشی کی وجہ سے بادشاہ نے فیصلہ کر لیا کہ وہ شاہی حکم جاری کرے۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا کسی نے اطلاع دی کہ باہر مقتول کا خاندان دہائی پر دہائی دے رہا ہے اور آپ سے شرف ملاقات کی اجازت کا طلب گار ہے۔ باد شاہ کا وہ ہاتھ جو کسی کو بولنے اور حقیقت حال بتانے کیلئے اٹھا ہی تھا وہ اٹھا کا اٹھا رہ گیا لیکن اس سے کہیں زیادہ ایک اور منظر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا۔ وہ مضطرب چہرے اور پریشان لوگ جن پر باد شاہ کو گمان ہو چلا تھا کہ وہ کوئی بات اس سے چھپانا چاہ رہے ہیں ایک دم بہت ہی زیادہ بے چین ہو گئے ہوں اور اطلاع دینے والے کو خاموش کرانا چاہتے ہوں۔ باد شاہ ان کی اس حرکت پر بہت ہی استعجاب میں پڑ گیا لیکن ان سے کچھ کہے اور پوچھے بغیر اطلاع لانے والے کو اشارہ کیا کہ فریادیوں کو اندر بھیجا جائے۔
فریادی اندر تو حاضر ہو گئے لیکن ان کا حال بھی خزاں زدہ پتوں کی مانند تھا جو شاخ سے ٹوٹ کر ہواؤں میں تھر تھرا رہے ہوتے ہیں۔ باد شاہ کو جیسے جلال آگیا تھا۔ کسی حد تک گرجدار آواز میں کہا گیا کہ مدعا بیان کیا جائے۔ سب فریادیوں نے ایک دوسرے کے منھ کی جانب دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ باد شاہ سے مخاطب ہو گا تو کون ہوگا۔ مقتول کی ماں، باپ، بیوی اور بچے ایک دوسرے کا منھ تکتے اور روتے رہے۔ ماں ماں ہی ہوتی ہے۔ لرزتے قدموں اٹھی، اپنی لرزیدہ آواز اور آنسوؤں کے دھاروں پر قابو پاتے ہوئے گویا ہوئی کہ آپ کی اور ہم سب کی ملکہ نے میرے بیٹے کو “طمنچہ” (آج کل کے زمانے کی پستول جیسا آلہ) مار کر ہلاک کردیا ہے۔ آپ کے دربار میں انصاف کی اپیل ہے۔
ایک مقتول بیٹے کی ماں کے منھ سے یہ فریاد سن کر جہانگیر کھڑا ہو گیا۔ اس کے چہرے ہی سے کیا، روئیں روئیں سے جلال ٹپک رہا تھا۔ جلادوں نے اپنی اپنی تلواریں سونت لی تھیں اور سب کا یہ خیال تھا کہ باد شاہ اتنے بڑے الزام پر پورے خاندان کی گردن زدنی کا حکم جاری کریگا۔ یہ کوئی معمولی الزام تو نہیں تھا۔ فریاد لانے والے بھی اپنی اپنی نگاہیں اور گردنیں جھکا کر بیٹھ گئے تھے کہ شاید اب ان کی زندگی کے دن بھی گنے جا چکے ہیں۔
اتنی گھمبیر خاموشی میں بادشاہ کی آواز یوں لگی جیسے آسمان پر بجلی کی چمک کے ساتھ ہونے والے کڑاکے نے ماحول کو لرزہ کر رکھ دیا ہو۔ حکم ہوا کہ محل کی کنیزان خاص معاملے کی حقیقت معلوم کر کے آئیں۔ حکم کا جاری ہونا تھا کہ دربار میں موجود ہر فرد کا دل اس کی کنپٹی میں دھڑکنے لگا۔
دربار میں پھر خاموشی نے اپنا راج جمالیا۔ ہر فرد ایک پراسرار خاموشی ڈیرے جمائے ہوئے تھی۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو اس چونکا دینے والے الزام کو سچ ماننے کیلئے تیار ہو۔ بادشاہ کی نگاہیں بار بار ان چند درباریوں کی جانب اٹھ رہی تھیں جو کچھ دیر پہلے سب سے زیادہ مضطرب دکھائی دے رہے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ اب ان سب کے تاثرات پہلے جیسے نہیں تھے۔ نگاہیں بے شک جھکی ہوئی تھیں لیکن کیفیت بدل چکی تھی۔ باد شاہ اس بدلی ہوئی کیفیت کو اب بھی کوئی نام نہیں دے سکا تھا لیکن حیران تھا کہ ماجرہ کیا ہے۔
کچھ ہی دیر میں کنیزانِ شبستانِ شہی ملکہ نورجہاں کا پیغام لیکر حاضر ہوئیں۔ ملکہ عالیہ کو واقعہ قتل سے انکار نہیں ہے۔ ماجرا یہ ہے کہ جس شخص کو ملکہ نے ہلاک کیا تھا وہ قلعہ کی چار دیواری کے نیچے ٹھیک اس جگہ کھڑا تھا جہاں ملکہ اپنے محل کی کھڑکی میں کھڑی صبح کی پہلی پہلی کرن کے طلوع ہونے کا نظارہ کر رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ ایک شخص یک ٹک اسی کی جانب دیکھے جارہا ہے۔ ملکہ کا کہنا تھا کہ اس نے اس شخص کو بہت اشارہ کیا کہ وہ وہاں سے چلا جائے لیکن اس کے اشتیاق میں ذرہ برابر بھی کمی نہ آئی۔ اس کا یہ اشتیاق اور مسلسل دیکھے جانے پر ملکہ کو غصہ آگیا اور اس نے طمنچے سے فائر کرکے اسے ہلاک کر دیا۔ ملکہ نے مزید کہا کہ اس کی غیرت حسن اس کا اس طرح مسلسل دیکھنا گوارہ نہیں کر سکی اور حسن کی دنیا میں اسی قسم کا قانون قدیم زمانے سے رائج ہے۔
بادشاہ چاہتا تو یہی اقراری بیان کسی حکم کے جاری کرنے کا سبب ہو سکتا تھا لیکن وہ انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر ایسا کیسے کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے اس وقت کی مفتی اعظم کے سامنے سارامسئلہ رکھا گیا۔ اس وقت کے مفتی اللہ کے علاوہ کسی سے ڈر نے والے کہاں ہوتے تھے۔ سارا ماجرا سن کر صاف صاف فیصلہ دیا کہ شرع یہی کہتی ہے کہ قاتل کی گردن اڑادی جائے۔
مفتی اعظم کی زبان سے ان الفاظ کا ادا ہونا تھا کہ پورا دربار کانپ اٹھا۔ نہ جانے بادشاہ اس حکم کے بعد کیا فیصلہ کرے۔ نورجہاں کی گردن زدنی کا فیصلہ کیا باد شاہ کرپائے گا؟۔ کیا بادشاہ اس حکم کے بعد خود زندہ بچ جائے گا؟۔ پورا ہند جانتا تھا کہ نورجہاں صرف ملکہ ہی نہیں باد شاہ کی زندگی بھی ہے۔ دربار اور درباری کانپ رہے تھے لیکن مفتی اعظم کا فیصلہ سن کر بادشاہ کے بشرے پر شکن تک نہیں تھی اس لئے کہ انصاف کے آگے کوئی بھی محبت اسے محبوب نہیں تھی۔ ہر نگاہ باد شاہ کی جانب یوں گڑی ہوئی تھی جیسے نگاہوں میں زنجیرپڑگئی ہو۔
دربار ایک مرتبہ پھر بادشاہ کی پاٹ دار آواز سے گونج اٹھا۔ دربار میں موجد ترکنوں کو حکم دیا گیا کہ مفتی اعظم کے حکم کی تکمیل کی جائے، پہلے بیگم کو بستہ زنجیر و رسن کیا جائے، پھر ایک مجرم کی طرح کھینچ کر اسے محل سے باہر لایا جائے اور جلاد کو حکم دیا جائے کہ اس کی گردن اس کے تن سے جدا کردی جائے کہ یہی اسلام میں عدل و انصاف کا تقاضہ ہے۔ لوگ بادشاہ کا یہ حکم سن کر تھرا کر رہ گئے لیکن اس روئے زمین پر اگر کوئی اپنے فیصلہ پر چٹان کی طرح مضبوط، مطمئن اور ساکت و جامد تھا تو وہ جہانگیر تھا۔
نورجہاں، جس کے ماتھے پر پڑنے والی شکن اوراق حکومت کو شکن آلود کردیا کرتی تھی۔ جو چلتی تو اس کی چال پر مرغان چمن قربان ہو جایا کرتے تھے اور جو حکمران کے پردے میں خود حکمران تھی آج اس کے قدم ہر گام پر تھرا رہے تھے اور آواز کا ارتعاش ثابت کر رہا تھا کہ اب سارا انداز غرور دم توڑ چکا ہے۔
نورجہاں نے باد شاہ کی خدمت میں بصد ادب ایک پیغام بھیجا کہ خوں بہا بھی ایک ایسا قدم ہے جو خون کے بدلے میں اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر مقتول کے لواحقین اور وارثین تیار ہو ں تو میں ایسا کرنے کیلئے تیار ہوں۔
باد شاہ جانتا تھا کہ حق و انصاف کے معاملے میں اللہ نے اسے کوئی اختیار نہیں دیا کہ وہ اپیک مرضی و منشا کے مطابق کوئی حتمی فیصلہ کرے چنانچہ اس نے ایک مرتبہ پھر مفتی اعظم سے رجوع کیا اور صورت حال سامنے رکھی۔ مفتی اعظم نے ساری بات سننے اور سمجھنے کے بعد کہا کہ شریعت اس بات کی اجازت ضرور دیتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وارثین اور لواحقین اس کی اجازت خوش دلی کے ساتھ دیں۔
مقتول کی بچے، والدین اور بیوی تو پہلے ہی باد شاہ کے انصاف کے آگے اپنے آپ کو بادشاہ کیلئے بیچ چکے تھے۔ فریاد تو انھوں ضرور کی تھی لیکن ان کو کیا علم تھا کہ بادشاہ اتنا منصف ہوگا کہ ہندوستان کی ملکہ تک کیلئے گردن زدنی کا حکم صادر کردے گا۔ وہ تو دل ہی دل میں اپنی فریاد پر خود ہی پشیمان تھے۔ انھیں یہ گوارہ ہی کب تھا کہ ایک عام انسان کی خاطر ملکہ کا خون بہایا جائے۔ جب خوں بہا کی پیشکش ان کے سامنے رکھی گئی تو ان سب کے منھ سے اس زور کی چیخ نکلی جیسے اب وہ مر ہی جائیں گے۔ اشکوں کا ایک دریا ان کی آنکھوں سے بہہ نکلا مگر یہ آہیں اور آنسو تو خوشی کے تھے۔ سب نے یک زبان کہا کہ ہمیں تو کچھ بھی نہیں چاہیے۔ انصاف چاہیے تھا جو آپ کے حکم کے ساتھ ہی مل گیا تھا۔ ہم اتنا اچھا بادشاہ اور اتنی پیاری ملکہ کو کسی صورت کیسے کھو سکتے ہیں۔ ایک عجیب ماحول تھاجس میں ہر فرد ایک پتھر کا بت بنا نظر آرہا تھا اور شاداں و فرحاں تھا کہ اس کی سلطنت میں کیسا فرشتہ صفت عادل فرد حکمران ہے۔
شاہ نے ایک گہری نظر درباریوں پر ڈالی۔ ان کی جانب نظر بھر کر دیکھا جن کی نگاہیں چغلیاں کھارہی تھیں۔ وہ ساری حقیقت سمجھ چکا تھا۔ وہ جان چکا تھا کہ ان کو حقیقت حال کا علم رہا ہوگا لین مصلحت یا میرا حد سے زیادہ احترام ان کو زبان کھولنے سے روک رہا ہوگا۔ وہ فیصلہ کرچکا تھا کہ ایسے لوگوں کو وہ اپنے آپ سے دور کردے گا۔ اگر لوگ حق چھپانے لگیں تو پھر سلطنت میں ابتری کو کون روک سکتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ ایسے ہیں مصلحت پسند لوگ ہی سلطنتوں کی تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہیں۔
جہانگیر کو جب اس بات کا پورا یقین ہوگیا کہ اس فیصلے میں کسی بھی قسم کا کوئی سقم نہیں رہ گیا ہے تو وہ دربار سے اٹھا۔ بوجھل قدموں سے چلتا ہوا دربار سے باہر نکل کیا۔ وہ اس جانب محو سفر تھا جہاں اس کی سب سے زیادہ چاہی جانے والی بیوی، ملک کی ہی نہیں اس کے دل کی ملکہ معتکف تھی۔ وہ چلمن ہٹا کر اندر داخل ہوا اور بیساختہ اس کے قدموں میں گرتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ سکا کہ
تو اگر کشتہ شدی آہ چہ می کردم من
(اسی کے ساتھ ہی پردہ گرادیا جاتا ہے)

حصہ