پاک بھارت کشیدگی!!!! ۔

419

سرپرائز کی خواہش کو ملا عملی سرپرائز

سید عارف بہار
پلوامہ میں ایک کشمیری نوجوان عادل احمد ڈارکے فدائی حملے میں چوالیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے کسی قسم کی تحقیقات کے جھنجھٹ میں پڑے بغیر ہی اس کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا تھا، اور اس کے ساتھ ہی بھارتی حکومت اور میڈیا نے پاکستان کو جواب دینے کا اعلان بھی کردیا تھا۔ نریندر مودی نے ایک جلسے میں’’ میرے دل میں آپ کی طرح آگ موجودہے‘‘ کہہ کر بھارت کے ہر جنونی شخص کے دل میں بدلے کی آگ بھڑکائی تھی۔ عادل احمد ڈار ایک حسبی نسبی کشمیری تھا اور اُس کا گھر اس مقام سے محض چند کلومیٹر کی مسافت پر تھا جہاں اُس نے بھارتی فوجی کانوائے کو نشانہ بنایا۔ عادل ڈار ان حالات سے نالاں اور ناراض معاشرے کا فرد تھا کہ جب بھارت کا جنگی جہاز بڈگام کے کھیتوں میں گرا تو لوگ پاکستان زندہ باد کے نعروں کے ساتھ تباہ شدہ جہاز کے گرد جشنِ مسرت مناتے رہے۔
عادل ڈار کی والدہ نے ایک سال پہلے اُس کے ساتھ ہونے والے اس ناروا سلوک کی تفصیل بھی بیان کردی تھی جو وادی میں نوجوانوں کو بھارت سے نفرت کی انتہا تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے لاپروا بنادیتی ہے۔ بھارتی فوجیوں نے سنگ بازی کے الزام میں عادل کو روک کر نہ صرف مرغا بنایا تھا بلکہ ناک تک رگڑنے پر مجبور کیا تھا۔ اسی تذلیل کے بعد عادل نے جیشِ محمد کی صفوں میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس طرح بھارتی فوج کو نشانہ بنانے والا نوجوان ہر لحاظ سے ایک مظلوم اور مجروح کی تعریف پر پورا اترتا تھا۔ حد تو یہ کہ جو دھماکہ خیز مواد اس حملے میں استعمال ہوا، وہ وہی تھا جو بھارتی فوج کے زیراستعمال ہے۔ اس سب کے باوجود بھارت نے اس واقعے کو مودی کے انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کا راستہ اپنایا۔
اس جنون کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی طرف سے کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کا عزم بھی ظاہر کیا جارہا تھا اور اس کے لیے تیاریاں بھی زوروں پر تھیں۔ بارہ دن سے پاک فضائیہ کے جنگی جہاز رات کے زیادہ تر وقت کنٹرول لائن کی نگرانی کرنے لگے تھے اور کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پورا نظام چوکس اور بیدار تھا۔ آخرکار بھارت نے بدلے کی آگ بجھانے کی خاطر ماضی کی طرح ہی ایک پھُسپھسا ڈراما کیا۔ پیر اور منگل کی شب مظفرآباد کے نوسہری سیکٹر سے بھارتی طیاروں نے کنٹرول لائن عبور کرکے اپنے تئیں پلوامہ حملے کا جواب دے دیا۔ نوسہری سیکٹر مظفرآباد کے عقب میں بلند سیاحتی مقام پیرچناسی کے مقابل ہے، جہاں سے سلسلہ ہائے کوہ کے درمیان ہی خیبر پختون خوا کا علاقہ ہزارہ شروع ہوتا ہے۔ بھارت کے ائربیس سے اُڑنے والے آٹھ میراج 2000 جہازوں نے اسرائیلی ساختہ لیزر گائیڈڈ میزائلوں سے لیس ہوکر کنٹرول لائن عبور کی۔ اس دوران پاک فضائیہ نے جو پہلے ہی کسی مہم جوئی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھی، بھارت کے جنگی جہازوں کو گھیرنے کی کوشش کی، اور یہ جہاز بالاکوٹ کے پہاڑوں میں ’جابہ‘ کے مقام پر ایک ہزار کلوگرام کا مواد گرا کر تین منٹ میں واپس بھاگ نکلے۔ جائے وقوع پر پڑا ہوا گڑھا اور مقام تین ساڑھے تین سو لاشوں کی موجودگی کی ہی نہیں بلکہ ایک ہزار کلوگرام مواد کے گرائے جانے کے دعوے کی بھی نفی کررہا تھا۔ یہی نہیں، بھارت نے چکوٹھی کے مشہور سیکٹر سمیت تین مقامات پر اسی طرح کے حملوں کا دعویٰ بھی کیا۔ بھارت نے سرجیکل اسٹرائیکس کی طرح اِس بار بھی بالاکوٹ میں جیشِ محمد کے ایک بڑے کیمپ کو تباہ کرنے اور تین سو کے قریب افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت میں بدلے کی وہ آگ ٹھنڈی کرنے کی کوشش کی گئی جسے پلوامہ حملے کے بعد بھارتی حکومت اور میڈیا نے خود ہی انتخابی اور سیاسی ضرورتوں کے تحت بھڑکایا تھا۔ اب یہ آگ خود مودی کے گلے پڑ گئی ہے، کیونکہ بدلہ نہ لینے کی صورت میں انتخابات میں اسے رائے عامہ کے غیظ وغضب کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔
بھارت کو بدلے کا اسٹیج سجانے کے بعد پاکستان کے جواب کا دھڑکا لگ گیا تھا۔ بالاکو ٹ کارروائی کے بعد بھارت نے عملی طور پر پلوامہ کی کہانی کو ایک ڈرامائی موڑ دے کر ختم اور اپنے عوام کو مطمئن کرکے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی تھی، مگر یہ کہانی کا اختتام نہیں بلکہ ایک اور کہانی کا آغاز بن گیا۔ پاکستان نے کنٹرول لائن کی اس خلاف ورزی کو معمول کی سرگرمی سمجھ کر چپ سادھ لینے کے بجائے جواب کے لیے اپنی پسند کے مقام اور وقت کا تعین کرنے کا اعلان کیا۔ وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں منعقدہ ایک اہم اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے بھی شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے کسی کیمپ کے بھارتی دعوے کو یکسر مسترد کیا گیا، اس کے ساتھ ہی بھارت کو جواب دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔
میڈیا نے ’جابہ‘ میں جاکر بھارتی دعوے کو پوری طرح بے نقاب کیا۔ دن کی روشنی میں میڈیا کے نمائندوں نے مقامی علاقے کا دورہ کرکے بتایا کہ جابہ کی ایک پہاڑی چوٹی پر دھماکہ خیز مواد گراکر ایک گھر کو نقصان پہنچایا گیا، جبکہ باقی مواد جنگل میں گراکر واپسی میں ہی عافیت سمجھی گئی۔ میڈیا نے دکھایا کہ علاقے میں ایک ضمنی الیکشن کی گہماگہمی تو ہے مگر تین سوافراد کی لاشیں کہیں بھی موجود نہیں۔ تین ساڑھے تین سو لاشوں کا مطلب یہ ہے کہ علاقے میں ایک بڑی قتل گاہ سجائی گئی ہے اور ذرائع ابلاغ کے جدید دور میں جب جنگل میں گھومنے والے ایک چرواہے کے ہاتھ میں بھی اسمارٹ فون ہوتا ہے، اس قدر بڑی تباہی کو چھپانا اورلاشوں کی اتنی بڑی تعداد کو ٹھکانے لگانا کسی طور ممکن نہیں ہوتا۔ جو بات شک وشبہ سے بالاتر ہے وہ یہ ہے کہ بھارتی طیاروں نے گھنے جنگل میں چیڑھ کے چند درختوں کو تباہ کرکے ماحولیات کی تباہی میں اپنا حصہ ضرور ڈالا ہے۔ اس طرح تین سو افراد کو ہلاک کرنے کا مضحکہ خیز دعویٰ بھی سرجیکل اسٹرائیکس کی طرح کھوکھلا ہے۔ بھارتی جہاز جو ہدف لے کر چلے تھے، پاک فضائیہ کا سامنا ہوتے ہی وہ ہدف بھول بھلا کر واپس لوٹ گئے۔ اس طرح بھارت کی سرپرائز کی خواہش کو سرپرائزکا سامنا کرنا پڑا۔
میجر جنرل آصف غفور نے کچھ دن پہلے ہی بھارت کے سرپرائز کو سرپرائز دینے کی بات مختلف انداز میں کی تھی، اور شاید ان کا مقصد بھی یہی تھا۔ عملی طور پر بھارت کے ساتھ یہی واردات ہوگئی۔ اس طرح جس مقام پر حملہ ہوا وہاں نہ کوئی کیمپ تھا اور نہ کیمپ کی تباہی کے مناظر، اور نہ ہی تین سو لاشیں۔ حکومت نے بین الاقوامی میڈیا کو بھی علاقے کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ بھارت کے پاس ان حملوں کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا۔ بھارتی میڈیا جو تصویریں دکھا رہا تھا وہ بھی آئی ایس پی آر کی جاری کردہ ہیں۔ بھارتی طیاروں نے کیمپ کی تباہی کی وڈیو کیوں نہیں بنائی؟ یہ سوال بھارت میں بھی اُٹھنے لگا تھا۔ اس طرح بالاکوٹ میں حملے کو ’’سرجیکل اسٹرائیکس پارٹ ٹو‘‘ ہی کہا جا سکتا تھا۔ بھارت کوٹلی سیکٹر میں سرجیکل اسٹرائیکس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا، اس کے برعکس پاکستان نے ملکی اور غیر ملکی میڈیا نمائندوں کو علاقے کا دورہ کرایا تھا، اور انہیں بھی سرجیکل اسٹرائیکس کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔ اب جابہ کے پہاڑ پر بم پھینک کر بھارت دوبارہ سرجیکل اسٹرائیکس کی طرح بدلے کی کہانی کو ختم کرنا چاہتا تھا، مگر یہ ایک نیا پنڈورہ باکس کھلنے کی ابتدا ثابت ہوا۔ پاکستان نے چند گھنٹوں کے اندر ہی دو بھارتی جہاز گرا کر اور ایک پائلٹ کو گرفتار کرکے بھارت کو ’’سرپرائز‘‘ کا مطلب اور مفہوم عملی شکل میں پیش کردیا، جس کے بعد جنگ کی باتیں کرنے والے بھارت کو امن کی یاد ستانے لگی ہے۔ پاکستان کی طرف سے جوابی کارروائی کے بعد بھارت کو یہ پیغام ملا کہ اب امریکا کو بھی پاکستان میں پہلا سا مقام ومرتبہ حاصل نہیں رہا تو بھارت تو کسی صورت بھی خود کو پاکستان کا امریکا نہیں بناسکتا۔ یہ بات ماضی میں بھارت کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی جاتی رہی، لیکن شاید اس کے لیے بھارت کو اپنے دو جنگی جہاز گرائے جانے کا انتظار تھا۔ اب اگر یہ بات پوری طرح سمجھ میں آگئی ہے تو یہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات اُٹھانے کا مناسب موقع ہے۔

حصہ