پاک بھارت کشیدگی کے باوجود بھارتی پائلٹ کی رہائی

348

محمد انور

پاکستان کی جانب سے دو بھارتی طیاروں کو گرانے کے بعد گرفتار کیے گئے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو واپس ان کے ملک کے حوالے دیا گیا۔
پاکستان کی طرف سے خطے میں امن رکھنے کے لیے اسی تیزی سے اقدامات کیے گئے جس تیزی سے بھارت نے حالات خراب کرنے اور جنگ مسلط کرنے کے لیے کیے تھے۔ پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت اور وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے گرفتار بھارتی ائرفورس کے ونگ کمانڈر کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پارلیمنٹ میں اس اعلان کا مقصد منتخب اراکین سینیٹ و قومی اسمبلی کو بھارتی پائلٹ کی رہائی کے فیصلے پر اعتماد حاصل کرنا تھا۔ اس اعلان کو اراکین پارلیمنٹ نے امن کے لیے بہتر قدم کہا۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں وزیر اعظم عمران خان کے اس عمل کو سراہا جارہا ہے۔ اس مثبت رویہ سے عمران خان عالمی سطح پر امن کے داعی یا مبلغ کے طور پر ابھرے ہیں۔
ابھی نندن کے والد ایس ورتھمان نے تو دو روز قبل بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا تھا کہ ’’مجھے پاکستان اور پاکستانیوں پر یقین ہے کہ وہ میرے بیٹے پر تشدد نہیں کریں گے‘‘۔ لیکن ایک باپ یہ سن کر کتنا خوش ہوا ہوگا کہ پاکستان نے ان کے بیٹے کو غیر مشروط پر رہا کردیا۔ پاکستانی فوج نے تو ابھی نندن کی گرفتاری کے فوری بعد بھی بعض مشتعل افراد کی جانب سے غصہ اتارنے کی کوشش پر مزاحمت کرکے اسے بچالیا تھا۔
ایسا کرکے پاکستان فوج نے اور پھر ابھی نندن کو رہا کرکے پاکستان نے ’’ اخلاقی جنگ ‘‘ بھی جیت لی۔
وزیراعظم عمران خان اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے پوری دنیا خصوصا بھارت کو امن کا پیغام دیتے ہوئے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ

اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد غیروں کے کام آنا

خصوصاً ان بیتے ہوئے دنوں کی یادوں کے باوجود بھارت نے ماضی میں کبھی بھی جنگی قیدی کو اس طرح محض دو دن کے اندر چھوڑا بلکہ پاکستانی فوجی کی گرفتاری کے بعد تشدد سے شہادت کے بعد ان لاش تک پاکستان کے حوالے نہیں کی۔
خیال رہے کہ وزیر اعظم نے بھارتی پائلٹ کی رہائی کے اعلان کے موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ’’ امن کے قیام کی کوشش کو ہماری کمزوری نہیں سمجھا جائے، یہ کمزوری نہیں ہے، پاکستان کی تاریخ میں جب ہم پیچھے دیکھتے ہیں تو بہادر شاہ ظفر تھا اور ٹیپو سلطان، بہادر شاہ ظفر نے موت کے بجائے غلامی کو چنا تھا جبکہ ٹیپو سلطان نے غلامی کو نہیں چنا تھا، اس قوم کا ہیرو ٹیپو سلطان ہے۔‘‘
لیکن جمعے کو جب بھارت کے فوجی قیدی ابھی نندن کو رہا کیا جارہا تھا تب بھی بھارتی نریندرمودی کی طرف سے کسی قسم کا مسرت کا ردعمل نہیں کیا گیا۔جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مودی اور بھارتی حکومت امن کے لیے کی جانے والی اس تاریخی کوشش کو کچھ اور سمجھ رہا ہے۔
حالانکہ سب کے سامنے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پاک فضائیہ نے اپنی سرحدوں کا دفاع کرتے ہوئے بھارتی جنگی طیاروں کی پاکستان کی سرحد کو عبور کرنے کی کوشش پر فوری مزاحمت کرکے ان کے دو طیاروں کو مار گرایا تھا۔ جبکہ بھاگنے کی کوشش میں طیارے سے کودنے والے پائلٹ کو گرفتار کرلیا تھا۔
ایسا بھی پاک فوج نے اس لیے ہی کیا تھا کہ بھارت کی طرف سے 36 گھنٹوں سے کم وقت میں یہ جارحانہ کارروائی کی گئی تھی۔ دنیا دیکھ چکی ہے کہ آج پاکستانی فوج کل سے زیادہ طاقتور اور صلاحیت مند ہوچکی ہے۔
باوجود اس کے کہ پاکستان امن کے لیے ’’ غیرمعمولی ‘‘ اقدامات کررہا ہے اگر انڈین فوج نے دوبارہ کوئی اس طرح کی کارروائی کی تو پاکستان انڈیا کے خلاف ہر ممکن سخت جنگی جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔ ایسی صورت میں یقین ہے کہ اقوام متحدہ کے ممالک بھی پاکستان کے جوابی اقدام کی حمایت کریں گے۔
پاکستان کی جانب سے بھارتی قیدی کی غیر مشروط طور پر رہائی کے نتیجے میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ پاکستان جنگ کل بھی نہیں چاہتا تھا آج بھی اس کا مخالف ہے ۔ مگر دوسری طرف بھارتی حکومت اور بھارت کا رویہ یہ بتا رہا کہ وہ بھی جنگ کرنا چاہتا ہے۔ سب ہی یہ بات جان چکے ہیں کہ بھارت صرف بے جے پی حکومت اور اس کے وزیراعظم نریندرمودی کی خواہش اور دباؤ پر پاکستان سے جنگ چاہتا ہے جس کی بنیادی وجہ ہندو ملک میں ہندو شدت پسند پارٹی کو کامیاب کرانا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخالف سیاسی جماعتیں بھی اس کی مخالفت ہیں لیکن یقین کی ہے حد تک شبہ ہے کہ بی جے پی گورنمنٹ کو بھارتی فوج اور خفیہ ادارے را کی حمایت حاصل ہے۔
بہرحال یورپی ممالک سمیت دیگر ملکوں خصوصا او آئی سی میں شامل ممالک کو چاہیے کہ اس کے جنگی ارادوں کو ختم کرے بصورت دیگر بھارت جنگ کی تمام ذمے داری ان ممالک پر بھی عائد ہوگی۔

آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس کا اجلاس

او آئی سی کا اجلاس جاری ہے اس اجلاس میں بھارت کو مدعو کرنے پر پاکستان نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعے کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایوان کو بتایا کہ چونکہ بھارت او آئی سی کا رکن نہیں ہے اس کے باوجود اسے اجلاس میں شرکت کی دعوت پر میں اجلاس میں شرکت نہیں کرونگا۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت کے جارحانہ رویے کی وجہ سے پاک بھارت کی صورتحال کشیدہ ہے ، بھارت پر دباؤ ڈالنے کے بجائے اسے اپنے ہی اجلاس میں مدعو کرنا نامناسب ہی ہوگا اس لیے عام خیال ہے کہ پاکستان کا اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ درست ہے۔

حصہ