فتنہ اور دین

473

سورۃ الانفال کے مضامین کا خلاصہ
سید مہرالدین افضل
بیسواں حصہ
( تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الانفال حاشیہ نمبر :31،32، 33، 34، 35، 36 سورۃ البقرۃ حاشیہ نمبر :204، 205)
سورۃ الانفال آیت 39 میں ارشاد ہوا:
’’اے ایمان لانے والو! ان کافروں سے جنگ کرو… یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔‘‘
یہ آیت تمام دنیا پر اسلام کا مقصدِ جنگ واضح کرنے کے لیے ہے۔ ایک جنگ ہوچکی ہے (غزوۂ بدر)، اس میں مسلمانوں کو کامیابی بھی مل چکی ہے۔ اس کے بعد پھر ان پر اسلام کا مقصدِ جنگ واضح کیا جارہا ہے جو کہ اس سے پہلے سورۃ البقرہ میں بھی بیان کیا گیا تھا جب کہ جنگ نہیں ہوئی تھی، صرف جنگ کے امکانات تھے۔ ارشاد ہوا:
’’تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔‘‘(سورۃالبقرہ آیت 193)
عام طور پر مسلمان بھی اور غیر مسلم بھی صرف اس حصے کو لیتے ہیں کہ کافروں سے جنگ کرو… یا… تم ان سے لڑتے رہو۔ لیکن اُس مقصد کو نہیں دیکھتے جس کے لیے یہ حکم دیا گیا ہے، اور مسلمان غلط طریقہ کار کی طرف جاتے ہیں اور کافر غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں یا جانتے بوجھتے غلط فہمی عام کرتے ہیں۔ اس آیت میں دو الفاظ اہم ہیں ’’فتنہ‘‘ اور ’’دین‘‘۔ ان کا مطلب واضح ہوجائے تو ہم اس آیت کا مطلب آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
فتنہ کیا ہے؟
’’جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے‘‘۔ فتنہ کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے آزمائش! مال بھی فتنہ ہے، اولاد بھی فتنہ ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سی وہ چیزیں، جو انسان کو اللہ کی اطاعت سے منہ موڑنے پر مجبور کریں، فتنہ قرار دی جا سکتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی فتنہ اتنا سخت نہیں ہے جس سے انسان مقابلہ نہ کرسکتا ہو۔ بہت سے مال دار ہیں جو اپنے مال کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں اور اللہ کی اطاعت میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بہت سے صاحبِ اولاد ہیں، جو اپنی اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے دنیا میں بھی عزت کا مقام حاصل کرتے ہیں اور آخرت کے لیے بھی بشارتیں پاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے فتنوں کو بھی دیکھ لیجیے۔ لیکن ایک فتنہ وہ ہے جس کے آگے انسانوں کی اکثریت ہتھیار ڈال دیتی ہے، وہ فتنہ ہے ’’بندوں پر بندوں کی خدائی‘‘۔ جب کوئی شخص یا گروہ طاقت کے بل پر انسانوں کو اپنی اطاعت کرنے پر مجبور کرتا ہے تو انسان طاقت کے آگے جھک جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ انسان نے ہمیشہ طاقت کی پوجا اور پرستش کی ہے، اسے خدا مانا ہے۔ اور لفظ ’’دین‘‘ کا مطلب ’’اطاعت‘‘ ہے، یعنی وہ نظام ِ زندگی جس میں کسی کو بالاتر مان کر، اُس کے احکام و قوانین کی پیروی کی جائے۔ اس طرح یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی اور حکومت قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے، فتنے کی حالت ہے، اور اسلامی جنگ کا مقصد یہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو جس میں بندے صرف اللہ کی اطاعت کرنے والے بن کر رہیں۔ انبیائے کرام علیہم السلام نے ہمیشہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام صرف اسی ایک مقصد کے لیے جنگ کو جائز قرار دیتا ہے۔ اس مقصد کو اس طرح پورا کیا جائے گا کہ دین صرف اللہ کے لیے ہوجائے، اور کوئی قوت ایسی باقی نہ رہے جو انسانوں کو اللہ کے دین کی طرف جانے سے روکے۔ اللہ کے دین کی طرف جانے سے روکنے والی ہر طاقت ’’فتنہ‘‘ ہے اور اس کو مٹانے کے لیے لڑنا اہلِ ایمان کے لیے جائز ہی نہیں بلکہ فرض ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے مقصد کے لیے لڑائی جائز نہیں ہے، اور اہلِ ایمان کو زیب ہی نہیں دیتا کہ اُس میں کسی طرح سے حصہ لیں۔
انسان آزاد ہے:
سورۃ الانفال آیت40 میں ارشاد ہوا:
’’پھر اگر وہ فتنے سے رک جائیں تو اُن کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے، اور وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے۔‘‘
یہ الفاط بھی قابلِ غور ہیں کہ ’’پھر اگر وہ باز آجائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔‘‘ باز آجانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں بلکہ فتنے سے باز آجانا ہے۔ کافر، مشرک، دہریے ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے، رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے اسے سمجھایا جائے گا، نصیحت کی جائے گی۔ لیکن ہم اس سے لڑیں گے نہیں۔ البتہ اُسے یہ حق ہرگز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو کسی غیر کا بندہ بنائے۔ اس فتنے کو ختم کرنے کے لیے وقت اور حالات، صلاحیت اور طاقت، افرادی قوت اور وسائل کے مطابق دعوت و تبلیغ، انذارو تبشیر (یعنی اللہ پر ایمان نہ لانے اور اس کے احکام کی اطاعت نہ کرنے سے دنیا اور آخرت کے برے انجام سے ڈرانا اور تبشیر یعنی اللہ پر ایمان لانے اور اس کے احکام کی اطاعت کرنے سے دنیا اور آخرت میں خوش حالی کی خوش خبری دینا) اور تلوار و قتال سب سے کام لیا جائے گا اور مومن اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا جب تک کفار اپنے اس فتنے سے باز نہ آجائیں۔
مالِ غنیمت کی تقسیم:
سورۃ الانفال آیت 41 میں ارشاد ہوا:
’’اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اُس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ، اور رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز یعنی دونوں فوجوں کی مڈبھیڑ کے دن، ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی، تو یہ حصہ بہ خوشی ادا کرو۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
یہاں اُس مالِ غنیمت کی تقسیم کا قانون بتایا ہے جس کے متعلق سورۃ کی ابتدا میں کہا گیا تھا کہ یہ اللہ کا انعام ہے جس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسولؐ ہی کو حاصل ہے۔ جس زمانے میں یہ جنگ ہوئی اور دشمن سے چھینے ہوئے مال کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا وہ اُس وقت کے جنگی قاعدے کے مطابق تھا۔ اُس وقت باقاعدہ ریاستیں نہیں تھیں۔ آج ریاستیں بھی ہیں اور ان کی باقاعدہ فوجیں بھی ہیں، پھر صلح اور جنگ کے قوانیں بھی ہیں۔ اس لیے آج کوئی ملک یا گروہ جنگ کے لیے لوگوں کو مالِ غنیمت اور غلاموں اور کنیزوں کا لالچ دے کر نہ جمع کرسکتا ہے اور نہ کسی ملک پر حملہ کرسکتا ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ریاستِ مدینہ سے قبل انسان جانتا ہی نہیں تھا کہ جنگ کا بھی کوئی قانون ہوسکتا ہے؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو صلح اور جنگ کے قوانین بتائے۔ آج آپ جنگ کے جتنے بھی مہذب ضابطے دیکھیں گے ان کا نشان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ملے گا۔ یہ الگ بات کہ انسان ان پر عمل نہ کریں اور درپردہ جنگ انہی مقاصد کے لیے ہو جیسا کہ زمانۂ جاہلیت میں ہوتی تھی۔ آج اہلِ اسلام کے لیے بڑا چیلنج ہے کہ وہ مقاصدِ جنگ اور طریقۂ جنگ کی اصلاح کریں اور متفقہ ضابطوں پر عمل کریں۔ یہ ضابطے ہی دنیا کو امن کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
اللہ کی مدد کے طریقے:
جب اللہ کے لیے جنگ ہو تو اللہ کی مدد اور نصرت اس طرح شاملِ حال رہتی ہے، سورۃ الانفال آیت 42 تا 44 میں ارشاد ہوا:
’’یاد کرو وہ وقت جب کہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دوسری جانب پڑائو ڈالے ہوئے تھے، اور قافلہ تم سے نیچے ساحل کی طرف تھا۔ اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلے کی قرارداد ہوچکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلوتہی کرجاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کرچکا تھا اُسے ظہور میں لے آئے، تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ ہلاک ہو، اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سننے اور جاننے والا ہے۔ اور یاد کرو وہ وقت جبکہ اے نبیؐ! خدا اُن کو تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا۔ اگر کہیں وہ تمہیں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملے میں جھگڑا شروع کردیتے، لیکن اللہ ہی نے اِس سے تمہیں بچایا، یقیناً وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے۔ اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور ان کی نگاہوں میں تمہیں کم کرکے پیش کیا تاکہ جو بات ہوئی تھی اُسے اللہ ظہور میں لے آئے، اور آخرِکار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘‘
جنگیں حوصلے سے جیتی جاتی ہیں اور اپنے مخالف کی طاقت کا غلط اندازہ قائم کرنے سے ہاری جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں کافروں کے لشکر کا جو منظر دکھایا اُس سے آپؐ نے اندازہ لگایا کہ دشمنوں کی تعداد کچھ بہت زیادہ نہیں ہے۔ یہی خواب آپؐ نے مسلمانوں کو سنا دیا اور اُس سے ہمت پاکر مسلمان آگے بڑھتے چلے گئے۔ اور کافروں کی نظروں میں مسلمانوں کو کم کرکے پیش کیا، یعنی وہ مسلمانوں کی طاقت کو مس کیلکولیٹ کرگئے۔ اس طرح ایک ہی عمل سے اللہ نے ایک طرف حوصلہ بڑھا دیا اور دوسری طرف دھوکے میں ڈال دیا، نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ