سودی معیشت کے معاشرتی اثرات

1585

مسز بینا حسین خالدی ایڈووکیٹ
(دوسرا اور آخری حصہ)
زمانۂ طالب علمی میں اکثر ایک سوال ذہن میں ابھرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو رزق دینے کا وعدہ اپنی کتابِ پاک میں فرمایا ہے، یہاں تک کہ سمندر کی گہرائیوں اور پاتال کی آخری تہوں میں بھی اگر کوئی جاندار موجود ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی رزق پہنچاتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے انسانوں کو بھوک، قحط اور غذائی قلت کا سامنا ہے؟ جو لوگ بھوک مٹانے کے لیے ذلت آمیز ذریعۂ روزگار اختیار کرنے پر مجبور ہیں، یہاں تک کہ کوئی اپنا گردہ فروخت کرتا ہے تو کوئی اپنے جگر گوشوں کو فروخت کرنے کے لیے سرِبازار لاکھڑا کرتا ہے… آخر ان لوگوں کے حصے کا رزق کہاں گیا؟ کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے حصے کا رزق نہیں اتارا ہوگا؟
سورۃ حم السجدہ کی آیت نمبر 10 میں ارشاد ربانی ہے ’’اس (اللہ تعالیٰ) نے زمین کو وجود میں لانے کے بعد اس کے اوپر پہاڑ جما دیے اور اس میں برکتیں رکھ دیں، اور اس کے اندر سب مانگنے والوں (یعنی خوراک کے طالبوں) کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک انداز سے خوراک کا سامان مہیا کردیا…‘‘
یعنی رزق تو اتارا گیا تھا، لیکن جن کے لیے اتارا گیا تھا ان کی اکثریت کی پہنچ سے دور کردیا گیا۔ مندرجہ بالا تحقیقی رپورٹ بھی اس قرآنی آیت کی تصدیق و تائید کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کا رزق تو اِس زمین پر سب کی طلب و حاجت کے مطابق اتارا تھا، لیکن سودی و سرمایہ کارانہ نظام کے تحت چند ہاتھوں کے قبضے میں چلا گیا۔ کہیں پر کسی سود خور کی تجوری میں بند رہ گیا، تو کہیں کسی سرمایہ کار کے بینک لاکرز اور کاروباری تجارتی اسکیموں میں کھپ گیا۔ مزدور کو اس کی محنت کا پورا معاوضہ نہ ملا، اور مقروض اپنا پیٹ کاٹ کر سودی قسطیں بھرتا رہا۔ نتیجتاً ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے کے لیے قوتِ خرید ختم ہوکر رہ گئی۔ اسی قوتِ خرید کو حاصل کرنے کے لیے کسی نے اپنا ایمان و ضمیر بیچا، تو کسی نے غیرت و حمیت کا سستے داموں سودا کیا۔ اب اگر ایسے معاشرے میں نام نہاد علما فتویٰ جاری کریں کہ زکوٰۃ ڈھائی فیصد نکال کر باقی ساری دولت آپ سرمایہ کاروں کے لیے حلال و پاکیزہ ہوجائے گی (خواہ وہ باقی اضافی سرمایہ اربوں اور کھربوں ہی میں کیوں نہ ہو) تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔ شریعتِ الٰہی نے ایسی کسی ناانصافی کے لیے کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے۔ اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی (ضرورت مندوں کا) حق ہے۔‘‘
آج زمین پر انفرادی ملکیت کا لامحدود حق، سونے چاندی کے ذخائر کی اجازت، بے شمار دولت سمیٹنے کے لیے درجنوں معاشی یونٹ، اور کھرب پتی بننے پر کسی کی روک ٹوک نہیں۔ بس یہ کام ’’اسلامی بینکاری‘‘ کے ذریعے کیے جائیں۔‘‘ مباح اور سود جائز قرار دیے جا رہے ہیں، سود کی حرمت کے خلاف چہ میگوئیاں ہورہی ہیں اور اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں کہ قرآن حکیم میں ’’سود کی وضاحت موجود نہیں ہے۔‘‘
قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے اپنے احکام میں کلیے کی طرز پر اصولی انداز اپنایا ہے، جزئیات و فروع کی تشریح نہیں کی ہے۔ قرآن حکیم اپنے اختصار کے باوجود جامع ہے۔ کیا معترضین کے لیے سورۃ البقرہ کی یہ ایک چھوٹی سی آیت کافی نہیں ہے جس میں سوال کرنے والوں نے سوال کیا ’’ماذا تنفقون؟‘‘ کیا خرچ کریں؟ یعنی راہِ خدا میں کون سا مال خرچ کریں؟ جواب دیا گیا ’’قل العفو‘‘ کہہ دیجیے (اے نبیؐ) کہ اپنے مال میں سے جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو راہِ خدا میں خرچ کرو۔ عفو کے معنی عربی زبان میں فاضل اور زیادہ کے ہیں۔ جو مال ذاتی ضروریات سے زیادہ ہو، اور ضروریات سے مراد ایسی ضروریات ہیں جو عیاشی یا نمائشی نہ ہوں بلکہ بنیادی اور ہنگامی ضروریات ہوں جن کو پورا کرلینے کے بعد جو مال بچ رہتا ہو وہ ’’العفو‘‘ ہے۔ اس قاعدے کلیے کی رو سے یہ گنجائش کیسے نکل سکتی ہے کہ کوئی بھی صاحبِ ثروت ’’العفو‘‘ کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے کے بجائے تجوریوں اور بینک لاکرز میں سینت سینت کر رکھے اور اسی مال سے مزید مال کمانے کے لیے سودی کاروبار کے نت نئے طریقے ایجاد کرے! اس کلیے قاعدے کی رو سے تو اسلامی بینکاری، مشارکہ سرٹیفکیٹ، انشورنس پالیسی اور اسی طرح کی جدید اسکیمیں بھی نظام زر پرستی کا حصہ ہیں۔ بینکاری کا نظام یہودیوں کی ایجاد ہے۔ اسلام تو بیت المال کا نظام پیش کرتا ہے اور اس سلسلے میں اسلامی ملکوں میں موجود بیت المال کے نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ کس حد تک مستحقین کی حاجت روائی کرنے کے قابل ہے۔
معاشی عدل کا قیام آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ دنیا کے معاشرے اور خاص کر اسلامی معاشرے طبقاتی تقسیم میں مبتلا ہوکر ظلم و عدوان کا منظر پیش کررہے ہیں۔ دیکھا دیکھی سود کا لین دین ضرورت سے زیادہ فیشن بن چکا ہے۔ اگر اللہ کا دین و قرآن اس کو حرام قرار دیتے ہیں تو ایک مسلمان اور اہلِ ایمان کی حیثیت سے سمعنا و اطعنا کہنے کے بجائے وضاحتیں طلب کی جاتی ہیں۔ قرآن حکیم قادرِ مطلق، احکم الحاکمین، خالق و مالک کا کلام ہے، اس کے احکام کا انداز حکمیہ ہی ہونا چاہیے، نہ کہ معذرتی یا وضاحتی۔ اس کے احکام کے بارے میں خود قرآن ہی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہم نے تمام احکام کو کھول کھول کر بیان کردیا ہے تاکہ تم احکامات کی توضیح کے لیے اِدھر اُدھر بھٹکتے نہ پھرو۔‘‘
جو لوگ اپنے آپ کو اللہ کا غلام اور ادنیٰ مخلوق سمجھتے ہیں وہ بلا چوں و چرا اس کے احکامات کی بجا آوری کرتے ہیں۔ اور اجتہاد کی ضرورت تو وہاں پیش آتی ہے جہاں احکامات کی صورت واضح نہ ہو۔ اجتہاد کے بارے میں امام ابن قیمؒ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کا مقصودِ اعلیٰ یہ ہے کہ بندوں کے درمیان عدل و انصاف کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جن طریقوں اور جن راہوں سے عدل و انصاف قائم ہو وہی دین ہوگا، اس کو دین کے خلاف نہیں کہا جائے گا۔ کوئی مسئلہ بھی جو عدل سے ظلم کی طرف موڑ دے، رحمت سے زحمت کی طرف رخ کرے، اصلاح کے بجائے فساد پر منتج ہوجائے، تو وہ مسئلہ شریعت نہیں بن سکتا اگرچہ تاویل کرکے اس کو شریعت بنا بھی دیا گیا ہو۔‘‘ (اعلام الموقعین)
’’قل العفو‘‘ کے حکم کے بعد اب بھلا کیا اس معاملے میں اجتہاد کی ضرورت رہ جاتی ہے کہ ’’العفو‘‘ کو سودی کاروبار میں لگانا جائز ہے یا ناجائز؟ نبی ٔ محترم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا بھی ہو تو میں اسے ایک دن سے زیادہ اپنے پاس نہ رکھوں۔‘‘ لیکن ہم اہل ایمان، نبیؐ کی محبت کا دَم بھرنے والے، مال کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک اپنی ملکیت میں رکھنے کے منصوبے بناتے ہیں، جب کہ فی زمانہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ حلال ذرائع سے، دوسروں کی محنت کا استحصال کیے بغیر، اپنے مال اور وراثت میں سے حق داروں کا حق ادا کرنے کے بعد، اور زیرکفالت افراد کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے یا پس انداز کرلینے کے بعد آپ کے پاس اتنا سرمایہ باقی رہے کہ آپ اس سے بینکاری (خواہ اسلامی بینکاری) کرسکیں۔ اگر کوئی صنعت کار، کوئی تاجر، کوئی لینڈ لارڈ ایسا کرتا ہے تو وہ اسلامی بینکاری کے ذریعے بلاسود قرضے دینے کے بجائے اپنے زیردست لوگوں کو اُن کی محنت اور قابلیت کے مطابق معقول معاوضہ دینے، اور اس سے بھی بڑھ کر زیردست غریب آدمی کے بچوں کی تعلیم اور فلاح و بہبود پر خرچ کیوں نہیں کردیتا؟ کیا ضروری ہے کہ محروم طبقات کی امداد قرض ہی کی صورت میں کی جائے؟ لوگ ناجائز ذرائع، یہاں تک کہ سود کی کمائی سے حج کرتے ہیں، مسجدوں میں اے سی اور بیش قیمت قالین بچھوا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید اس طرح ان کا ’’کالا دھن‘‘ پاکیزہ ہوجائے گا۔ سوال تو یہ ہے کہ اتنا سرمایہ آیا کہاں سے؟ محنت کشوں کا خون نچوڑ کر غربا کو زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے، کیا اس طرح معاشی عدل قائم ہوسکتا ہے؟ اگر ہمارے معاشرے سے سود کی لعنت ختم کردی جائے تب بھی محنت اور محنت کش کا استحصال جاری رہے گا۔ وراثت میں بہنوں، بیٹیوں، بیویوں کے حقق غصب کیے جاتے رہیں گے، اور عین ممکن ہے کہ ان کے حصے چھین کر اسلامی بینکاری میں لگائے جائیں۔
فیڈرل شریعت کورٹ نے 14 نومبر 1991ء کو ایک تاریخی فیصلہ دیا کہ سود اپنی تمام شکلوں کے ساتھ حرام ہے اور ملک کی معیشت کو اس لعنت سے جلدازجلد چھٹکارا دلایا جائے۔ لیکن حکومتِ وقت نے عدالتِ عظمیٰ میں جاکر اس فیصلے کے خلاف حکم التوا حاصل کرلیا تھا اور یہ فیصلہ آج تک عملی طور پر نافذ نہ ہوسکا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آج بھی صاحبِ اقتدار یہ عذر تراشتے ہیں کہ ’’سود کی وضاحت موجود نہیں…‘‘ جب کہ وفاقی شرعی عدالت نے مذکورہ فیصلہ شرعی توضیحات کی روشنی ہی میں کیا تھا، اور یہ وضاحتیں بطور دلیل پیش کرنے والے جید علما اور مفتیانِ کرام تھے۔ 1999ء میں بھی ٹھوس دلائل سامنے آئے۔ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ سود کے حوالے سے صرفی اور پیداواری قرضوں میں فرق کرنا درست نہیں، اور یہ کہ بینکوں کی طرف سے پیداواری اور تجارتی مقاصد کے لیے دیے جانے والے قرضوں پر حاصل ہونے والے سود پر ’’الربا‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔
ہمارے ماہرینِ اقتصادیات ہمیں خوف زدہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر سودی معیشت کو ختم کیا گیا تو سارا نظامِ حکومت و معیشت زمیں بوس ہوجائے گا۔ اُن کے ایسے ڈراووں سے سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سودی نظامِ معیشت کے سہارے کیا موجودہ اقتصادی نظام بہتری کی طرف گامزن ہے؟ سال 2010ء سے 2014ء تک سودی قرضے کی ادائیگی کا ریکارڈ اٹھاکر دیکھ لیجیے، جس کے مطابق 2010ء میں ہم نے 6 کھرب 40 ارب روپے، 2011ء میں 8 کھرب 52 ارب روپے، 2012ء میں 9 کھرب 10 ارب روپے، 2013ء میں 9 کھرب 36 ارب روپے اور 2014ء میں اس مقصد کے لیے 11 کھرب 55 ارب روپے ادا کیے، لیکن پھر بھی سود کو ادا کرنے کے لیے قرض مسلسل لیا جارہا ہے، جب کہ معیشت مزید جکڑی جارہی ہے۔ کیا اس طرح ہم کامیابی یا بہتری کی طرف جارہے ہیں؟
یہ بات بھی سو فیصد درست نہیں ہے کہ پوری دنیا کا نظامِ معیشت سود پر چل رہا ہے۔ سود کے بغیر بھی معاشی معاملات طے پا رہے ہیں۔ جاپان جیسے صنعتی ملک میں شرح سود کم ہوتے ہوتے زیرو کے قریب پہنچی ہوئی ہے، اور امریکا، کینیڈا وغیرہ میں بھی شرح سود ایک فیصد سے بھی کم ہوچکی ہے جس کو آپ سروس چارجز کا نام دے سکتے ہیں۔ یہ کام انہوں نے دینی یا اعتقادی بنیاد پر نہیں بلکہ معیشت کی بہتری کے لیے کیا ہے، جب کہ ترقی پذیر اسلامی ملکوں میں جہاں سود کی خدمت ہمارے دین و اعتقاد کے لیے ایک چیلنج ہے وہاں ایسی کوئی کوششیں نہیں کی جارہی ہیں، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ سود خور، صنعت کار، سرمایہ کار، تاجر اور منافع خور لوگوں کا طبقہ ایک دوسرے کا مددگار بنا ہوا ہے۔ ایک طرف سودخور اور سرمایہ کار عام آدمی کی قوتِ خرید چھین رہے ہیں، تو دوسری طرف منافع خور تاجر خوراک اور غذائی ضرورت کی اجناس دوسرے ملکوں کو برآمد کرکے عام آدمی کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھین لے جانا چاہتے ہیں، اور یہ سب مل کر آدھی سے زیادہ دنیا کو غربت، مہنگائی، اشیا کی مصنوعی قلت، بھوک و افلاس اور قحط کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اگر یہی صورتِ حال چلتی رہی تو ہماری آنے والی نسلوں کو تو شاید ہوا اور پانی کے لیے بھی سرمایہ دار طبقے کا محتاج ہونا پڑے، جب کہ پانی کے بحران کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تو ’’ڈیم بنائو ملک بچائو‘‘ مہم شروع ہوچکی ہے۔ سانس لینے کے لیے جس ہوا کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی صنعت کاروں نے زہرآلود کردی ہے، لہٰذا اب دنیا میں باقی بچا ہی کیا ہے جس کے لیے یہاں دل لگایا جائے! آیئے پھر نبی ٔ رحمت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیثِ مبارکہ کی طرف ’’رجوع‘‘ کرلیں جس میں آپؐ نے فرمایا ’’دنیا میں اس طرح رہو جیسے اجنبی پردیسی‘‘۔ قرآن و حدیث سے منہ موڑ کر آخر دنیا کہاں تک بھاگے گی، واپس لوٹ کر جانا تو اللہ ہی کی طرف ہے۔ بقول شاعر ’’یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے…‘‘

حصہ