ابھی نندن بمقابلہ شاکر اللہ

413

سماجی میڈیا پر یہ ہفتہ تو جذبہ حب الوطنی سے بھرا نظر آیا۔جذبات سے بھر پور ہیش ٹیگ اور ٹرینڈ ز کی دوڑ میں نت نئے آئیڈیاز ،لطائف ،طنز کے تیروں ، جملے و جگت بازیوںکے ساتھ سوش میڈیا بھرا نظر آیا۔
کرے کوئی بھرے کوئی کے مصداق پاک بھارت عوام نے بھی آپس میںبھرپور جنگ لڑی۔ابھی نندن کی چائے تو اتنی مشہور ہوئی کہ چائے پیتے ہوئے کئی میمز وائرل ہو گئیں۔
ویسے ایک اہم ’دکھ ‘کی بات جو مجھے محسوس ہوئی کہ تمام تر جذبہ حب الوطنی کا لیبل پارٹی مفادات یا اپنی اپنی سیاسی جماعت کی سپورٹ کے ساتھ غالب رہا۔اس کا واضح اظہار اُس وقت ظاہر ہوا جب وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے گرفتار بھارتی فضائیہ کے افسر کی رہائی کا اعلان کر دیا گیا۔اس اعلان کے بعد بھارت میںخوب شادیانے بجائے گئے کہ پاکستان نے سخت دباؤ میں آکر بھارتی فوجی افسر کو بالآخر واپس کرنے کا فیصلہ کر لیااور یہ دباؤ پاکستان ایک دن بھی نہیں سہ سکا۔دوسری جانب اہل پاکستان خود گنگ رہ گئے اس اعلان کو سن کر ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کی ہلکی سی پیش گوئی بھارت کا حلیف امریکہ اپنے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ کے ذریعہ بھی کر چکا تھا۔اب سنیں اہل پاکستان پرکیا بیتی، جنہیں اس بڑی کامیابی پر صحیح سے خوش ہونے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔وزیر اعظم کے بیانیے کا دفاع کرنے کے لیے تحریک انصاف کے جوش و جذبہ سے بھرے کارکنان اپنے وزیر اعظم کے فیصلہ کی حمایت میں ’امن کا نوبل انعام ‘ دلوانے کے لیے کود پڑے ۔جنگ سے انکار، امن کے داعی جیسے لیبل لگا کر خوب دفاع کیا گیا ۔بیرونی طور پر تو سارے اہل پاکستان کی مجبوری تھی کہ وہ اسی بیانیے کو لے کر چلتے کیونکہ بھارت نے اس اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر اس بیانیے کے ساتھ بھرپور یلغار کر دی تھی کہ ’پاکستان ،بھارتی دباؤ نہی سہ سکا۔‘ابھی نند ن کی گرفتاری کے اعلان کے بعد چند ہی منٹوں میں ٹوئٹر پر جنیوا کنونشن کا واویلا شروع کر دیا گیاکہ ان کے فوجی کو واپس کیا جائے ۔ بھارتی بیانیے کا اور اپنی رائے عامہ بنانے میںبھارتی میڈیا کا حال کچھ ایسا تھا کہ ایک بھارتی صحافی ویبھئو وشال کی ٹوئٹ وائرل ہو گئی جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہاکہ ’’ ہمارا فوجی ہمیں دے دو اس کے بدلے ہمارے نیوز چینلز کے سارے اینکرزہمیشہ کے لیے لے لو جو کرنا ہے ان کے ساتھ کر لو۔بس ہمی کبھی بھی واپس مت کرنا۔‘‘
بھارتی بیانیہ چلتے چلتے تا دم تحریر کچھ ایسا ہو چکا تھا کہ ’’ بھارت کے سپوت۔ ابھی نندن نے ایک کمتر طاقت و صلاحیت والے طیارے مگ سے ایک بڑے جنگی طیارے ایف سولہ کا بھر پور مقابلہ کیا۔ یہ مقابلہ ایک تین کا تھا، پاکستان کی جانب سے تین ایف سولہ طیاروں نے ابھی نندن کو گھیرا لیکن بھارتی سورما نیسب کا مقابلہ کیا ۔ ابھی نندن نے پاکستانی ایف سولہ کو جب تباہ کیا تو اسکا ایک ٹکڑا اُڑتا ہوا ابھی نندن کے جہاز کی اسکرین سے ٹکرایا اور اسکرین ٹوٹ گئی جس کی وجہ سے وہ جہاز خرابی کا شکار ہوا جس کے نتیجے میںوہ نیچے گر گیا۔وہاں سے وہ نکلے اور بھارت زندہ باد کانعرہ لگایا پاکستان کی مقامی آبادی نے ان پر حملہ کیا لیکن انہوں نے کسی پرگولی نہیں چلائی ۔وہیں قریبی بہتے پانی میںجا کراپنے ضروری کاغذات تلف کیے اس دوران پاکستانی فوج نے انہیں گھیر لیا اور اس طرح پاکستانی جنگی طیارے کو تباہ کرنے والے عظیم بھارتی سورما ابھی نندن گرفتار ہوئے ۔ گرفتار ہونے کے بعد بھی انہوں نے وطن محبت اور سپاہی کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی کوئی معلومات دینے سے صاف انکار کر دیا۔اس طرح یہ عظیم بھارتی سپاہی بھر پور مستعدی کے ساتھ ،دہشت گردی کے خلاف اپنے ملک کا نام بلند کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کے بعدگھر میں گھس کر مارا ہے ابھی نندن ہماراپیاراہے۔بھارت امن کا داعی ہے جسے پاکستان چھیڑکر پچھتا رہا ہے۔عالمی دباؤ کو امن کا ڈرامہ کہہ کر پاکستان اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکے گا۔بھارت کو ابھی نند ن جیسے تگڑے فوجی جوانوںکی ضرورت ہے جنہوں نے دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔‘‘
یہی نہیں آپ میں سے اگر کوئی دوپہر تین بجے جس وقت ابھی نندن کو حوالے کرنا تھا واہگہ بارڈر پر ،اُس دوران اگر آپ کوئی بھی بھارتی ٹی وی کچھ منٹ ہی دیکھ لیتے تو پاکستانی تو کیا ہر غیر جانبدار آدمی کا خون کھول اٹھتا کہ کیوں اس بھارتی درندہ کو رہا کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں اتنا جلد ہونے والے اس عجیب فیصلہ پر سوال اٹھائے گئے : جویریہ صدیق ٹوئٹ کرتی ہیںکہ ’’کشمیر میں استصواب رائے ہوگیا؟بھارت نے ریاستی دہشت گردی بند کردی ؟ حریت رہنما قید سے آزاد ہوگے ؟بلوچستان میں بھارتی دخل اندازی بند ہو گئی؟نیپال سے اغوا ہونے والا کرنل واپس آگیا؟ابھی نندن کل آزاد ہوجائے گا ۔‘‘ اسی طرح جہاں جنیوا کنونشن کو موضوع بنایا گیا وہاں اقوام متحدہ کی قرارداد جس پر بھارتی وزیر اعظم نہرو نے عمل کرنے کا وعدہ کیا تھا اُس پر عمل درآمد کو بھی یاد دلایا گیا۔یہ اس لیے کہ بات تو کشمیر ہی سے شروع ہوئی تھی یعنی ’پلوامہ ڈرامہ‘ سے ،لیکن اس پورے عمل میں کشمیر کو بالکل صاف نکال دیا گیا۔معروف صحافی طلعت حسین ٹوئیٹ کرتے ہیںکہ ’’مودی کشیدگی بڑھانے کی بات کر رہا ہے اور سشما اسلامی تعاون تنظیم کی خصوصی مہمان ہے۔ امن کی کوششیں (پائلٹ کو چھوڑنے میں جلد بازی اور مودی کو فون کرنے کی کوشش) تمام ہوا ہوئی۔ یکطرفہ امن کی بیتابی گلے میں پڑ جاتی ہے۔‘‘ اسی طرح شاہ بانو ٹوئٹ کرتی ہیں کہ’’ٹیپو سلطان کا نام لے کر جس بزدلی کا مظاہرہ کیا گیا ہے یہ مسلمانوں کے شایان شان نہیںہے پارٹی وابستگی سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے ایسا عمل اگر نواز شریف دور میں ھوتا تو اس قسم کے اعلان پر انہیں غداری کے طعنے اور استعفیٰ کے مشورے دیے جاتے۔‘‘اہم بات یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن ، سب خاموش نظر آئیں ۔کسی کی جاب سے اس فیصلہ کی نہ حمایت میں ٹوئٹ آئی اور نہ مخالفت میںکوئی بیان۔مسلم لیگ ن کے رہنما میاں شہباز شریف کی جانب سے کشمیری مسلمانوں (مقبوضہ) کو البتہ ضرور یاد کیا گیا اور بھارتی مظالم جو ان 2دنوں میںخاصے بڑھے تھے ۔جہاں جماعت اسلامی ( مقبوضہ کشمیر) پر پابندی لگا دی گئی تھی اور جعلی آپریشن کے بہاے کئی معصوم کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا۔اسی طرح ابھی نندن کی اتنی جلد اور شرمناک انداز سے رہائی پر تبصرہ کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال سے رہنمائی لیتے ہوئے سید عامر اشرف لکھتے ہیں کہ’’اقبال ؒنے یوں ہی نہیں کہا تھا کہ:

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ ملت، ننگِ دین، ننگِ وطن‘‘

(بنگال کا جعفر اور دکن کا صادق ملت اسلامیہ کیلئے باعث ننگ ، دین اسلامی کے لئے باعث عار اور وطن کے لئے باعثِ شرم ہیں)
اب اس کو ابھی نندن رہائی کے تناظر میں خود مکمل کرلیں۔اس کے علاوہ یہ جو عقلمندی ، دانش مندی اور امن کے انعام کا فلسفہ سوشل میڈیا پر فروخت کررہے ہیں ان کے لیے بھی اقبال نے سلطان ٹیپو کی وصیت میں کہا ہے اورخوب کہا ہے۔

تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو، تو محمل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول

عسکری اور سیاسی قیادت کے حوالے سے موجودہ حالات میں بھی اقبال ؒ کے یہ اشعار کچھ رہنمائی دیتے ہیں: کربلبل وطاؤس کی تقلید سے توبہ بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ حکومتی حمایت میں رؤف کلاسرا تو اس حد تک مشورے میں چلے گئے کہ :’ ابھی نند کو رہائی سے پہلے ایک درخت لگوایا جائے اس سے ماحولیاتی حوالے سے بڑی آگہی ہو گی اس پورے خطے میںخصوصاً جب ہمیں گلوبل وارمنگ کا خطرہ درپیش ہے ۔‘‘ اس کے ساتھ ہی ایک اور اہم ایشو پرپاکستان نے اپنا عجیب رد عمل دیتے ہوئے خود سوالات پیدا کر دیئے ۔ وہ کچھ یوں تھا کہ ایک جانب ’’پکڑے گئے بھارتی قیدی کو رہا کیا جا رہا ہے امن کے نام پر … دوسری جانب او آئی سی کے وزیر خارجہ اجلاس میں بھارت کی شرکت پر احتجاج کرتے ہوئے بائیکاٹ ؟ ایک جانب بھارت کو امن کی جانب لانے کے لیے خیر سگالی کے جذبہ کے تحت ابھی نند کی رہائی …… دوسری جانب بھارت کا مکمل متضاد رویہ ،کشمیر میں جماعت اسلامی پر پابندی ، مزید فوجی کارروائیاں اور کشمیری مسلمانوں کی شہادتیں۔ایک جانب پاکستانی قیدی شاکر اللہ کی بھارتی جیل میں جنونی بھارتیوں کے ہاتھوں شہادت جو کہ کسی طور حکومتی اجازت کے بغیر ممکن نہیں تھی … تو دوسری جانب اپنے ہی شہری کے خون کا بدلہ چکاتے ہوئے بھارتی قیدی کی رہائی ۔ایک جانب مودی آپ کا فون اٹھا نے کو تیارنہیں … دوسری جانب امن کے نام پر قیدی کی رہائی ؟ایک جانب پاکستانی وزیر اعظم کا قوم سے خطاب ، آئی ایس پی آر کا موقف تو دوسری جانب ابھی نند ن کی رہائی ۔ اس ساری صورتحال نے سوشل میڈیاپر کئی سوالات کو جنم دیا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ 27فروری کو پاک فضائیہ کے جوانوں کی کارروائی نے پوری دنیا میں پاکستان کا سر بلند کیا اور بھارتی بیانیے کو سخت دھچکا پہنچا۔اس سے ایک روز قبل بھارت نے پاکستانی حدودمیں داخل ہو کر 1000کلو بم دھماکے کا دعویٰ کیا تھا ،بھارتی بیانیے کے مطابق اس دھماکے میں جہادی ٹریننگ مرکز کو تباہ کرنے اور 300افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔جس کا کوئی ثبوت وہ نہیں دے پائے اور پاکستان کو بھارتی بیانیے کو رد کرنے کا بھر پور موقع ملا ۔جائے وقوعہ کا اگلے روز پاکستان نے تمام ملکی و بین الاقوامی میڈیا کو دورہ بھی کرا دیا جہاں سے درختوں کے تباہ ہونے کے سوا کچھ نہیں ملا ۔ایک شخص کے زخمی ہونے کی ضرور اطلاع تھی ۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے جن کو پاکستانی طیارون نے ٹریس کیا اور واپس بھاگنے پر مجبور کیا۔ واپس بھاگتے ہوئے بھارتی طیارے اپنا وزن نہ برداشت کر سکے اور اپنا اضافی فیول ٹینک پاکستانی حدود میں گرا گئے ۔پاکستان کے پاس تو درختوں کے ثبوت تھے لیکن بھارت اپنے دعوے میں کچھ بھی نہیں پیش کر سکا ۔ اب کیا تھا ، سوشل میڈیا پر جو کچھ بھارت کے ساتھ کیا گیا اُس میں عوام کی خوب تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں ۔ اگلے دن سخت ٹینشن کے باوجود بھارتی طیاروں نے نہ جانے کس کے حکم پر پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی غلطی کی اور پاکستانی فضائی جانبازوں کے نشانے پر آگئے ۔ایک طیارہ پاکستانی حدود میں گرا جس کا ایک پائلٹ ابھی نندن گرفتار ہوا جبکہ دوسرا تا حال لاپتہ ہے۔اس کے بعد پاکستانی عوام نے سوشل میڈیا پر بھارت کی جو دھجیاں اڑائی وہ ناقابل بیان ذلت کے سوا کچھ نہیں۔ساتھ ہی پاکستانی ایئر فورس ٹاپ ٹرینڈ بنارہا ۔ بھارتی طیارے کو اڑانے والے ایک پائلٹ حسن صدیقی جو کراچی سے تعلق رکھتے تھے ۔اُن کی تصاویر ،پوسٹیں ، نعرہ لگاتے ویڈیوز پھر اگلے دن اُن کی کسی سینیر کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو خوب وائرل رہی۔پاک بھارت ٹینشن شدت اختیار کر چکی تھی ، ہوائی اڈے اور انٹرنیشنل و مقامی فلائٹس بند کر دی گئی تھیں۔بھارتی میڈیا شدید بوکھلاہٹ کا شکار تھا اور الٹے سیدھے بیانیے پیش کر رہا تھا۔ابھی اہل پاکستان اس فتح کا بھرپور جشن منا ہی رہے تھے کہ اچانک اگلے روز امریکی اشارے کے بعد وزیر اعظم پاکستان کا حیرت انگیز اعلان سب کی خوشیوں پر مختلف انداز میں پانی پھیر دیا۔

حصہ