سعید شارق کے شعری مجموعے کا مکالماتی جائزہ

675

فیض عالم بابر

بابر: السلام علیکم!
فیضِ عالم: وعلیکم السلام! آج کیسے راستہ بھول گئے؟۔بابر: بس یار بہت دن سے ملاقات نہیں ہوئی تو سوچا مل لوں۔فیض عالم: کس کو پڑھ رہے ہو آج کل ،کچھ تازہ لکھا؟۔ہاں یار کچھ غزلیں کہی ہیں۔سعید شارق کی کتاب پڑھ رہا ہوں۔یہ کون ہے؟ ۔اسلام آباد سے ہے شاید۔جانتا تو میں بھی نہیں ،ابھی تازہ مجموعہ آیا ہے ’’ سایہ‘‘ کے نام سے ۔بہت اچھا شاعر ہے۔ہاہاہا بابر صاحب کے دہن ِمبارک سے کسی شاعر کی تعریف ۔ آج سورج کس طرف سے نکلا ہے؟۔یار یہ کیا بات ہوئی۔جو تعریف کے قابل ہوتا ہے اس کی تعریف تو کرتا ہوں چاہے وہ میرا مخالف ہی کیوں نہ ہو۔مگر یار تم بال کی کھال زیادہ نکالتے ہو ،تنقید بہت کرتے ہو ،تعریف کم بہت کم۔تو تم جانتے تو ہو کہ ایسا میں اس لیے کرتا ہوں کہ شاعر کا کلام ہر طرح کے عیوب و نقائص سے پاک ہو۔جھوٹی تعریفوں پر مبنی یکساں مضامین تو ہر دوسرا نقاد یا شاعر لکھ ہی رہا ہے۔اور جن پر لکھا جارہا ہے وہ بھی خوابِ خرگوش میں گم ہیں ،خود کو میر ،غالب سے کم سمجھتے ہی نہیں،اور اس بات سے تو بالکل لاعلم ہیں کہ ان جھوٹی تعریفوں اور ان پر خوش ہونے سے انہیں تخلیقی طور پر کتنا نقصان پہنچتا ہے۔اگر میں سچ لکھتا ہوں تو اس میں شاعر ہی کا فائدہ ہوتاہے ۔مجھے کیا فائدہ ہے۔یار تونے تو دل پر لے لی ۔چل چھوڑ۔ سعید شارق کے شعر سنا۔ذرا دیکھیں بابر جس کی تعریف کررہا ہے کیا ہے اس کے شعروں میں؟۔

کسی افسردگی کی لو بھڑک اٹھی تھی یک دم
دیارِ تیرہ میں یہ پہلی پہلی روشنی تھی
کیا فرق پڑسکے گا اندھیرے کی شرح میں
کچھ دیر اگر روشنی سے بھر بھی جائوں میں
اب اداسی کسی دیرینہ نشے کے مانند
میری کمزوری بھی ہے اور توانائی بھی
تین حصوں میں بٹا رہتا ہے اب گھر میرا
تیرے آجانے سے کب تیری کمی نکلی ہے
یہ آگ فقط مجھ کو جلاسکتی ہے شارق
میں بھی نہ سنوں تو مری آواز کدھر جائے
دستکیں سنتے ہی اب گونجنے لگتا ہے بدن
اور لگتا ہے کہ پھر مجھ پہ ہنسا ہے کوئی
سبھی ناراض تھے کل شب مجھ سے
اور اُن سب میں خصوصاً میں تھا
نہ جانے کیسا مکاں بن رہا ہے سینے میں
سڑک تو کیا اسے کوئی گلی نہیں لگتی
اندھیری صبح،ویراں رات،یا شامِ افسردہ
مرا ہر لمحہ ان میں سے کسی پر مشتمل ہے

واہ وا بابر ۔۔۔یار مزہ آگیا۔۔فیضِ عالم صاحب! صرف واہ وا سے کام نہیں چلے گا۔ آپ اچھے شعر فہم ہیں ،بتائیں کیسے لگے اشعار؟۔یار بابر! شعر تو واقعی اچھے ہیں مگر یہ تو اداسی،مایوسی سے بھرا ہوا لگتا ہے۔اس کی عمر کتنی ہے؟۔اُسی عمر کا ہے جس عمر میں غالب نے بہترین غزلیں کہی تھیں۔ اوہ ینگ ہے ۔۔تو یار اس عمر میں اتنی پختگی اور ایسی تنہائی۔کسی استاد نے تو مہربانی نہیں کی؟۔۔۔۔ ہاہا ہا توبھی نا فیضِ عالم! شاعروں کے ساتھ رہ رہ کر شاعروں جیسی بے سروپا باتیں بھی کرنے لگا ہے۔یار اس میں بے سروپا والی کیابات ہے۔کیا متشاعروں کی بھرمار نہیں ہے؟ کیا کراچی میں کم جعلی شاعرہیں؟ اسی طرح پورے پاکستان میں ہیں۔ بات تو تیری ٹھیک ہے فیض عالم !مگر یار متشاعر چاہے شعر پڑھے یا کتاب شائع کروائے وہ پکڑا جاتا ہے ۔ ادبی تاریخ گواہ ہے ،ادب میں جعلی شاعر ہو یا شاعرہ ،وہ اپنی موت آپ مرجاتے ہیں۔یہ خودرو پودے کی طرح اُگتے ہیں اور پھر موسم بدلتے ہی خود ہی مر کھپ جاتے ہیں۔سعید شارق صرف شاعر ہی نہیں بھرپور شاعر ہے۔کتاب دوں گا تجھے خود پڑھ کر اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کلام ِ پراسرار ایک ہی وجود کا سایہ ہے۔وہ وجود جسکے پور پور سے تنہائی لپٹی ہوئی ہے۔ ہاں یار یہ تو میں نے بھی شعر سن کر محسوس کیا کہ اس کی شاعری میں تنہائی بہت ہے۔ یار یہ تنہائی عام تنہائی نہیں بلکہ خاص ہے کسی کسی و جود سے لپٹی ہوتی ہے ۔اس نابِ تنہائی کو خلوت کہتے ہیں۔خلوت یعنی ایسی تنہائی جس میں عارضی طور پر ہی سہی آپ کی میں( Ego)غائب ہوجاتی ہے اور پھر دنیا اور دنیا داروں سمیت کائنات کی حقیقت کھلنے لگتی ہے۔اگر ایسا ہے بابرتو پھر سعید شارق کے لیے زیست کرنا تو جوئے شیر جاری کرنے کے مترادف ہوگا۔یہ کیا خطرے کی علامت نہیں ہے؟۔خطرہ تو ہے فیضِ عالم مگر یہ خلوت خدا کی طرف سے خاص انعام بھی ہوتی ہے، گوکہ دنیاوی زندگی بُری طرح سے متاثر یا یوں کہہ لیں ناکام ہوجاتی ہے۔یہ خلوت وجود کی دشمن ہوتی ہے ۔احساس کو مشاہدے میں بدل کر انا کونرگسیت کے ایک خاص سانچے میں ڈھال کر شاعر کو یہ یقین دلاتی رہتی ہے کہ وہ سب سے عظیم ہے۔شاعر کا یقین ایمان بن جائے تو سمجھو وہ گیا۔ ہوگیا اس کا کام۔لیکن اگرشاعر محسوسات کی سطح تک توحید پرست ہے تو اس خلوت کی خوراک بننے سے محفوظ رہتا ہے۔ بصورت ِ دیگر شکیب جلالی، آنس معین،دانیال طریر اور اس قبیل کے دیگر شعرا جیسے انجام سے دوچار ہوجاتا ہے۔میر تقی میر سے لے کر اجمل سراج تک معدودے چند شعرا اسی خلوت کا شکاررہے ہیں۔جو شاعر عاجزی اور انکسار کو اپنے وجود کا حقیقی معنوں میں حصہ بنالیتا ہے وہ اس خلوت کی تالیفِ قلب کرکے بڑے ادب یا کسی بھی شعبے میں اپنے حصے کا بڑا کام کرجاتا ہے۔اچھا ایک بات بتا بابر! یہ خلوت کیا ختم نہیں ہوتی ؟ ہمیشہ رہتی ہے وجود کے فنا ہونے تک؟۔اگر محبوبہ ہوتو کیا وہ بھی اسے ختم نہیں کرسکتی ؟ختم تو چشمِ زدن میں بھی ہوجاتی ہے۔ صرف شاعر لوگوں کی واہ وا کو اپنے اندر سرایت کرلے۔سوشل میڈیا کو حد سے زیادہ استعمال کرے۔ شہرت کی ہوس میں مبتلا ہوجائے۔عجلت پسندی کو اپنا شعار بنالے۔ مشاعروں میں جانا معمول بنالے تو سمجھو شاعر کے اند ر سے احساس،وجدان گیا۔اس کے بعد اس کی شاعری میں استادی نظر آئے گی۔کیفیت ،سرور،والہانہ پن،اکتاہٹ،بیزاری سب عقل کے تابع ہوں گے۔ رہ گئی محبوبہ کی بات تو وہ اس خلوت کو بڑھاوا تو دے سکتی ہے ختم نہیں کرسکتی۔ایسے شاعر کو احساس نہیں ہوتا مگر اس کی پہلی محبوبہ یہی خلوت ہوتی ہے۔جسمانی محبوبہ کو اپنی جگہ لینے ہی نہیں دیتی۔ارے یار فیضِ عالم تو بھی مجھ سے سوال کرکے مجھے کہیں سے کہیں لے جاتا ہے۔ چھوڑ یہ بے تکی باتیں ۔سعید شارق کے کچھ اور شعر سن۔۔۔۔ ہاں ہاں کیوں نہیں ،ارشاد۔
محبوبہ کی تونے بات کی تو اس حوالے سے اس کے کچھ شعر سن۔دیکھ یہ محبوبہ کے بارے میں کیا سوچتا اور کیسا سلوک روا رکھتا ہے۔

تُو آچکا ہے ،دیکھ لیا ،مان بھی لیا
اب اور کیا کروں،تجھے سر پر بٹھائوں میں
جھانک لیتا ہوں کبھی باغ میں آتے جاتے
میں وہاں ہوں کہ نہیں، وہ اُدھر ہے کہ نہیں
شام سے پہلے چلاجائے گا وہ
ختم ہوجائے گی دنیا شام تک
جب بھی کوئی چیز ٹوٹتی ہے
آتا ہے اُسے خیال میرا
یہ اب کھلا کہ میں سایہ ہوں اور کچھ بھی نہیں
گزر گیا ہے وہ آخر ،مجھے ہٹائے بغیر
اک بار پلٹ کر نہیں دیکھی تھیں وہ آنکھیں
ہر وقت یہ لگتا ہے کوئی ہے مرے پیچھے
ہم کیسے دکھائی دیتے اک ساتھ
تصویر یں بناکے دیکھتا ہوں
اک نظر ہی میںاُسے دیکھ لیا ہے اتنا
آنکھ خالی بھی اگر ہو تو بھری کہلائے
ہم دونوں کی ویرانی بھی شامل ہے تو یہ دشت
کیوں دشت نظر آتا ہے،گھر کیوں نہیں لگتا

تو یہ ہے پیارے ! شاعر اور اُ سکی نصیبوں جلی محبوبہ۔۔۔۔ہا ہاہا نصیبوں جلی محبوبہ خوب کہی۔۔۔ ہاں تو اور کیا دیکھا نہیں شعروں میں کہیں محبوبہ سے اُکتایا ہوا ہے تو کہیں اس کے ہوتے ہوئے بھی ہجر لاحق ہے۔محبوبہ ساتھ ہے مگر تنہا ہے بے چارا۔محبوبہ خلوت نشیں ہے مگر حال کے بجائے ماضی کے جزیروں میں اُسے لے جاکر حظ اُٹھارہا ہے۔ ایسے اکھڑ اور خالص شاعر کی محبوبہ بھی بڑے دل گردے والی ہونی چاہیے۔ہاہاہاہا۔۔۔۔ یار بابر تُو تو مجھے ہنسا ہنسا کے مار دے گا۔یار تُو خود دیکھ سُسرے نے محبوبہ کے گال،ہونٹ،گیسو،آنکھیں،قد،ادائوں،سراپا کی تعریف میں کوئی شعر کہا ہی نہیں۔اب کون محبوبہ ایسے بے نیاز عاشق کو برداشت کرے گی۔کچھ اور شعر سُن! یا رُک ذرا چائے بنالوں پھر آکر سناتا ہوں تجھے مزید شعر۔ چائے بعد میں پی لیں گے تو شعر سُنا اور بات کر مجھے مزہ آرہا ہے ۔تُو کبھی کبھی تو ایسے موڈ میں آتا ہے۔یار تجھے معلوم ہے میں نے تو ادب ،شاعری وغیرہ کوکبھی سنجیدہ لیا ہی نہیں۔میرے شوق بدلتے رہتے ہیں ۔ویسے بھی میری منزل ادب نہیں کچھ اور ہے۔ رہ گئی موڈ کی بات تو وہ تو کسی بھی خالص شاعر ،ادیب سے ملوں یا اسکا کلام پڑھوں،سنوں تو از خود بن جاتا ہے۔کوئی عجیب کیفیت ہے جو مجھ پر کبھی کبھی طاری ہوجاتی ہے۔ (جاری ہے)

حصہ