کے ایم سی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن اور یونیورسٹی آف گریجوٹس فورم کی سیمینار و مشاعرہ

326

ڈاکٹر نثار احمد نثار
۔15 فروری 2019ء بروز جمعہ کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ کراچی میں کے ایم سی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن اور یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا کراچی چیپٹر کے زیر اہتمام غالب و صادقین سیمینار اور مشاعرہ ترتیب دیا گیا اس پروگرام کے دو حصے تھے پہلے غالب و صادقین سیمینار ہوا جس کی صدارت مسلم شمیم نے کی جب کہ علی حسن ساجد نے نظامت کے فرائض کی علاوہ خطبہ استقبالیہ بھی پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ کے ایم سی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن اردو ادب کی ترقی کے لیے مصروف عمل ہے ہم اس ادارے کے تحت تسلسل کے ساتھ علمی و ادبی تقریبات منعقد کر رہے ہیں ہمارے کریڈٹ پر کئی عالی شان مشاعرے بھی ہیں کیوں کہ ہمارے نزدیک مشاعرہ ایک ایسا ادارہ ہے جو معاشرے کی ضرورت ہے۔ ارباب سخن معاشرتی مسائل بیان کرتے ہیں اور مستقبل کا لائحہ عمل بتاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ غالب و صادقین‘ فنون لطیفہ کے شعبوں میں دو ممتاز نام ہیں۔ غالب نے شاعری میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے جب کہ صادقین مصوری اور خطاطی کے بے تاج بادشاہ تھے ان کی پینٹنگز اپنی مثال آپ ہیں اور یہ تمام تصاویر و خطاطی کے شاہکار اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ صادقین صاحب ایک مخلص انسان تھے‘ وہ لوگوں کی مدد کرکے خوش ہوتے تھے۔ سلمیٰ خانم نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنظیم کینیڈا میں رجسٹرڈ ہے جہاں ان کے ممبران اردو ادب کی ترقی کے حوالے سے بہت فعال ہیں‘ ہم تسلیم الٰہی زلفی کی سرپرستی میں کراچی چیپٹر کے پرچم تلے بھی ادبی پروگرام منعقد کر رہے ہیں اس کے علاوہ ہم دوسری ادبی تنظیموں کے ساتھ مل کر بھی شعر و سخن کی تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ وہ شرکائے محفل کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے اپنی گونا گوں مصروفیت میں سے وقت نکال کر ہماری تقریب کو کامیاب بنایا ہم ان شاء اللہ پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ اس پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ مجید سے ہوا جس کی سعادت خرم انصاری نے حاصل کی۔ سیمینار کے مقررین میں محسن اعظم محسن ملیح آباد‘ علامہ علی کرار نقوی‘ مسلم شمیم‘ سید سلطان احمد نقوی‘ رونق حیات‘ راحت سعید اور زینت کوثر لاکھانی شامل تھے۔ صاحبِ صدر مسلم شمیم نے صدارتی خطاب میں کہا کہ غالب جیسی قد آور شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے انہوں نے اردور شاعری میں چار چاند لگائے تاہم ان کا فارسی کلام ان کی پہچان بنا۔ ہم غالب سے فیض حاصل کر رہے ہیں جو لوگ غالب کے فکر و فن کو آگے بڑھا رہے ہیں وہ علم و ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ غالب ہر دور میں زندہ ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ ایک بین الاقوامی شاعر تھے۔ ہم مغربی شعرا کے مقابل غالب کو پیش کرتے ہیں ہم گوئیٹے کے سامنے غالب کو پیش کرتے ہیں غالب پر گفتگو ختم نہیں ہوسکتی۔ صاحبِ صدر نے صادقین کے بارے میں کہا کہ وہ شاعری کا عالمی ورثہ ہے ان کا تعلق سقراط کی قبیلے سے ہے وہ خصوصی طور پر سچائی بیان کرتے تھے وہ اشتراکیت کے پُر زور حامی تھے‘ فکری طور پر وہ بہت بلند شخصیت تھے ان کی رباعیات میں زندگی کے تمام رنگ نظر آتے ہیں وہ معاشرے کے دکھوں کو پینٹ کرتے رہے‘ وہ طبقاتی معاشرے میں انسانی استحصال کے خلاف تھے وہ اپنے کرب و دکھ کو شاعری میں ڈھال کر پیش کرتے تھے وہ صوفی منش انسان تھے‘ ان جیسا فن کار اب کہاں۔ محسن اعظم محسن ملیح آبادی نے کہا کہ غالب اپنے زمانے کے ترقی پسند شاعر تھے‘ اردو کا کوئی دوسرا شاعر غالب کے سامنے ٹھہر نہیں پایا۔ غالب فارسی شاعری میں بھی بلند مرتبے پر فائز ہیں‘ یہ وہ شاعر ہیں جن کے کلام کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ غالب نے غزل کو جدید لب و لہجہ دیا‘ انہوں نے انسانی احساسات کو شاعری میں سمویا۔ غالب کی شاعری زندگی کے روّیوں سے جڑی ہوئی ہے وہ بیدار مغز شاعر تھے‘ ان کی غزل ہر دور میں اپنا اعتبار رکھتی ہے۔ غالب نے اپنی شاعری کی ابتدا میں مشکل زبان استعمال کی تاہم ان کی شہرت ’’سہل ممتنع‘‘ سے مشروط ہے انہوں نے سہل ممتنع میں اس لیے اشعار کہے کہ وہ اپنی شاعری عام لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے انہوں نے عام روش سے ہٹ کر شاعری کی ان کے کلام میں ایسے اشعار ہیں جو کہ انسانی ذہن کی نشوونما کرتے ہیں‘ وہ نظریاتی شاعر نہیں تھے بلکہ وہ انسانی زندگی کے تمام مناظر نظم کرتے تھے انہوں نے معاشرتی روّیوں کو تنوع اور عالمگیریت عطا کی۔ غالب نثر کے حوالے سے بھی معتبر ہیں کہ انہوں نے خطوط نویسی کو نیا آہنگ دیا۔ غالب کے دیوان کی طرح خطوطِ غالب بھی ہمارا سرمایہ ہے۔ علامہ علی کردار نقوی نے کہا کہ فنونِ لطیفہ کے معتبر قلم کاروں میں صادقین انتہائی اہمیت کے حامل ہیں انہوں نے آمریت زدہ معاشرے میں سچائی پروان چڑھائی‘ وہ ساداتِ امروہہ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے مصوری‘ خطاطی‘ ٹیلی گرافی اور شاعری میں نام کمایا انہوں نے بے شمار قرآنی آیات کو پینٹ کیا انہوں نے غالب کے کلام کو پینٹ کیا۔ فنون لطیفہ کے تمام آرٹسٹ بھی مل کر وہ کام نہیں کر سکے جو صادقین نے تن تنہا کر دکھایا۔ رونق حیات نے کہا کہ غالب نابغۂ روزگار شخصیت تھے غالب سے محبتوں کا اظہار کرنے والے ان کی شاعری کی جستجو میں مصروف ہیں۔ غالب نے ہر طبقۂ فکر کو متاثر کیا ہے اس انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیا کیوں کہ غالب کا فلسفے میں بھی عمل دخل تھا۔ وہ مغلیہ دور کے نوحہ گر تھے انہوں نے زمانے کے عروج و زوال دیکھے تھے وہ معاشرتی روّیوں کو نظم کرتے تھے۔ ادبیات کا سماجی منظر نامہ غالب نے اجاگر کیا ہے ہر زمانے میں ان کے مضمون نئے نئے انکشافات کا سبب ہیں۔ راحت سعید نے کہا کہ صادقین محبتوں کے انسان تھے‘ وہ زندہ دل شخصیت ہونے کے باعث شمع محفل بن جاتے تھے‘ ان کی خطاطی کی نقل اتاری جارہی ہے لیکن وہ بات پیدا نہیں ہو سکتی جو صادقین میں تھی۔ سید سلطان احمد نقوی نے کہا کہ وہ صادقین کے بھتیجے ہیں انہوں نے صادقین سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ صادقین غالب سے بہت عقیدت رکھتے تھے انہوں نے غالب کی غزلوں کو پینٹ کرکے شہرت کمائی‘ وہ غالب کے دیوانے تھے۔ انہیں دیوانِ غالب زبانی یاد تھا۔ زینت کوثر لاکھانی نے کہا کہ غالب چاہتے تھے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے‘ شاعری میں انہوں نے تصوف کو بھی جگہ دی ان کے اشعار سن کر محسوس ہوتا ہے کہ غالب اس کائنات کے اسرار و رموز سے واقف تھے۔ تقریب کے دوسرے دور میں محسن اعظم ملیح آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔ مشاعرے کی نظامت آئرن فرحت نے کی۔ جن شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا ان میں محسن اعظم ملیح آباد‘ مسلم شمیم‘ رونق حیات سبکتگین صبا‘ ظفر محمد خاں ظفر‘ راشد نور‘ سعدیہ حریم‘ ریحانہ روحی‘ حجاب عباسی‘ ریحان احسان‘ حنیف عابد‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ پروفیسر علی اوسط جعفری‘ سحر تاب رومانی‘ مصدق لاکھانی‘ سعد الدین سعد‘ عظیم حیدر سید‘ احمد سعید خان‘ تنویر سخن‘ زینت لاکھانی‘ شاہدہ عروج‘ آئرن فرحت‘ عشرت حبیب‘ یاسر سعید صدیقی‘ عاشق شوکی اور علی کوثر شامل تھے۔ تقریب میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ راقم الحروف بھی اس پروگرام کے نثری دور میں شامل تھا‘ میں نے لوگو ں کو یہ کہتے سنا کہ سردی کے موسم میں یہ پروگرام گراسی گرائونڈ اور اوپن ایریا کے بجائے عمارت کے covered ایریا میں ہونا چاہیے تھا جس کی سہولت بھی موجود تھی اس کے ساتھ مجھے کچھ فون بھی آئے کہ تقدیم و تاخیر کے مسائل بھی اس مشاعرے میں پیدا ہوئے۔ راقم الحروف کے نزدیک ناظم مشاعرہ کو سب سے پہلے پڑھنا چاہیے کیوں کہ یہ مشاعرے کی روایت ہے اور ناظم وہ ہونا چاہیے جو تمام شعرا کے کوائف سے واقف ہو۔ تقریب بہت منظم اور باوقار تھی‘ دونوں ادارے قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے یادِ رفتگاں کے حوالے سے اردو ادب کے محسنوں کو یاد کیا اور نوجوان نسل تک ادبی ورثہ منتقل کرنے کی کوشش کی۔

بزمِ نگارِ ادب پاکستان کا مشاعرہ

بزمِ نگارِ ادب پاکستان کراچی ایک ایسی ادبی تنظیم ہے جو تواتر کے ساتھ مشاعروں کے علاوہ مذاکروں کا اہتمام بھی کر رہی ہے اس تنظیم کے پروگرام کراچی کے مختلف علاقوں میں ہو رہے ہیں جس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس تنظیم کے ساتھ علم دوست شخصیات جڑی ہوئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے اس تنظیم کے روح رواں سخاوت علی نادر نے مجلس سماجی کارکنان شاہ فیصل کالونی کراچی کے مرکزی دفتر میں ایک اہم اجلاس طلب کیا جس میں عہدیداران کی ذمے داریوں کا احاطہ کیا گیا‘ مرکزی مجلس عاملہ کی تشکیل کی گئی جس کے بعد غلام علی وفا کی صدارت میں نثری اور شعری دور کا آغاز ہوا۔ نسیم وارثی اور نصیرالدین نصیر بدایونی مہمان خصوصی تھے۔ واحد راضی اور فرید خاور مہمانانِ اعزازی تھے۔ تنویر سخن نے نظامت کے فرائض انجام دیا۔ جمیل ادیب سید نے اپنا افسانہ پیش کیا جس میں مسلمانان ہسپانیہ کے حالات کے علاوہ ہسپانیہ میں مسلم حکومت کے زوال پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی۔ اجلاس میں شامل تمام افراد نے اس افسانے کو پسند کیا اس کے بعد ساجدہ سلطانہ نے انشائیہ پیش کیا جو بہت توجہ سے سنا اور پسند کیا گیا۔ اس دور کے بعد شعری نشست کا آغاز ہوا جس میں غلام علی وفا‘ نصیرالدین نصیربدایونی‘ واحد راضی‘ جمیل ادیب سید‘ عادل شاہ جہاں پوری‘ سلمان عزمی‘ وسیم احسن‘ ساجدہ سلطانہ‘ حجاب فاطمہ‘ تاج علی رانا‘ غضنفر زیدی‘ تنویر سخن اور سخاوت علی نادر نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ اس موقع پر سخاوت علی نادر نے کہا کہ ہم کراچی کے ادبی منظر نامے میں موجود ہیں اور اردو زبان و ادب کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں ہمارے منشور میں یہ شامل ہے کہ قلم کاروں کے مسائل پر آواز اٹھائیں‘ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے مسائل حل ہوں‘ جن اداروں کے ذمے ادب کی ترویج و اشاعت ہے‘ وہ اپنی ذمے داریاں پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کریں۔

بزمِ تقدیس ادب کا ماہانہ مشاعرہ

۔10 فروری 2019ء بروز اتوار شادمان ٹائون کراچی میں بزمِ تقدیس ادب پاکستان کے زیراہتمام ایک بہاریہ مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں صاحب صدر عباس حیدر زیدی‘ مہمانانِ خصوصی رفیع الدین راز اور ڈاکٹر جاوید منظر مہمان اعزازی ڈاکٹر مظہر حامد اور ناظم مشاعرہ احمد سعید خان کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا ان میں سید آصف رضا رضوی‘ اختر سعیدی‘ سید علی اوسط جعفری‘ سید فیاض علی‘ ڈاکٹر شوکت اللہ جوہر‘ حامد علی سید‘ عبدالوحید تاج‘ نسیم شیخ‘ کشور عدیل جعفری‘ عتیق الرحمن عتیق‘ سعد الدین سعد‘ عاشق شوکی‘ شاہدہ عروج‘ علی کوثر‘ چاند علی اور دیگر شامل تھے۔ میزبانِ مشاعرہ احمد سعید خان نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ زبان و ادب کی ترقی میں اربابِ سخن کا اہم کردار ہے‘ صاحبِ قلم اپنے معاشرے کا سفیر ہوتا ہے‘ اس کے کاندھوں پر ذمے داری بھی عائد ہے کہ وہ معاشرے کے مسائل اجاگر کرے اور مسائل کا حل بتائے‘ جس معاشرے نے قلم کاروں کو نظر انداز کیا وہ تباہ و برباد ہوگئے۔ آج کے دور میں شاعروں اور ادیبوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ جن اداروں کو حکومت نے ادب کی ترویج و ترقی کے لیے نامزد کیا ہے وہ اپنا کام مکمل ایمان داری سے نہیں کر رہے نیز ادب کی گروہ بندیوں سے بھی بہت نقصان ہو رہا ہے جب تک ہم ایک پلیٹ فارم پر نہیں آئیں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس وقت ہمارا ملک پاکستان بھی بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے‘ ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دیں اگر ہم خوابِ غفلت سے نہیں جاگیں گے تو ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے‘ آمین۔

غزل

ڈاکٹر ظفر اقبال (سعودی عرب)

میں اپنے آپ سے شرما رہا ہوں
یہ کس دنیا میں چلتا جا رہا ہوں
امیدوں کے بجھا کر سب دِیے میں
ذرا مایوس ہونے جا رہا ہوں
تساہل کی بھی کوئی حد ہے یارو
میں جل سے برف ہوتا جا رہا ہوں
کھرا پہلے بھی کچھ ایسا نہیں تھا
میں کھوٹا اور ہوتا جا رہا ہوں
جو تو دائیں کو جھکتا جا رہا ہے
میں بائیں کی طرف کو جا رہا ہوں
نظر سے ہو گیا ہوں میں نظارہ
تھا چشم نم مگر پتھرا رہا ہوں
صدائے کن پہ تکیہ کر لیا ہے
عمل سے دور ہوتا جا رہا ہوں

حصہ