شریکِ مطالعہ

734

نعیم الرحمن
برصغیر میں اردو کے ادبی جرائد کی تاریخ کم و بیش ڈیڑھ صدی پرانی ہے۔ مشہور ادیب اور دانشور انورسدید نے اپنی کتاب ’’اردو کے ادبی جرائد‘‘ میں لکھا ہے کہ انیسویں صدی میں اردو کے پچاس علمی اور ادبی جریدے ایسے تھے جن کے مطالعے سے اُس دور کی ادبی روایات کا سراغ ملتا ہے۔ تقسیم سے قبل ہند و پاک میں ان ادبی روایات کو فروغ ملا۔ مخزن، ہمایوں، اردوئے معلی، عصمت، نگار، ادبی دنیا، نیرنگِ خیال، عالمگیر، زمانہ، ساقی، شاعر، ادب لطیف، شاہکار اور نیا دور جیسے بے شمار رسائل نے ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سویرا، سحر، فانوس، کائنات اور پھر ان سب سے بڑھ کر نقوش نے اپنا رنگ جمایا۔ فنون، اوراق، ماہ نو، سیپ، تخلیق جیسے ادبی جرائد کا آغاز ہوا جن میں اکثر اب بھی جاری ہیں۔ بعد میں قومی زبان، صحیفہ، مکالمہ، کولاژ، معاصر، نقاط، لوح، دنیا زاد، آج، اجرا، روشنائی اور ادبیات بھی ادب کی روشنی پھیلانے میں مصروف ہیں۔
بھارت میں بھی شاعر، شاہراہ، تحریک، سوغات، شعر و ادب، نیاورق اور شب خون جیسے ادبی رسائل نے ادب کے فروغ میں بھرپور کردار ادا کیا۔ شمس الرحمن فاروقی نے ’شب خون‘ کے ذریعے چالیس سال تک تین نسلوں کو ادب سے روشناس کرایا۔ فاروقی صاحب نے خرابی ٔ صحت کے باعث ’شب خون‘ یادگار چالیس سالہ نمبر کی اشاعت کے ساتھ بند کردیا۔ ’نیا ورق‘ کو ساجد رشید کے انتقال کے بعد اُن کے صاحبزادے شاداب رشید جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اشعر نجمی بھارت کے مشہور شاعر اور ادیب ہیں۔ وہ 1960ء میں جمشید پور میں پیدا ہوئے۔ اشعر نجمی نے 2008ء میں ادبی جریدے ’اثبات‘ کا آغاز کیا اور بطور مدیر بھی اپنی دھاک بٹھا دی۔ ’اثبات‘ نے نقشِ اوّل سے ہی منفرد انداز اختیار کیا۔ اس شمارے میں گبریل گارشیا مارکیز، شمس الرحمن فاروقی اور پاکستان کے ظفر اقبال اور منشایاد کی نگارشات شائع ہوئیں۔ ’اثبات‘ کا نواں شمارہ فیض احمد فیضؔ صدی کا شخصیت نمبر تھا، جو فیض پر شائع ہونے والے رسائل کے خصوصی شماروں میں اپنی انفرادیت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ چند سال تعطل کے بعد اشعر نجمی نے ’اثبات‘ کی اشاعتِ نو شروع کی۔ اِس بار منفرد موضوعات پر خصوصی شمارے شائع کرکے ’اثبات‘ کو پاکستان اور بھارت کے اہم جرائد میں جگہ دلا دی۔ یہی نہیں، اشعر نجمی نے علمی و ادبی جریدے ’اثبات‘ کے دو خصوصی شمارے بیک وقت پاکستان اور بھارت میں شائع کرکے ایک نئی روایت بھی قائم کردی۔ بے شمار تلخیوں اور تنازعات کے ساتھ اس مشترکہ علمی و ادبی شمارے کی دونوں ملکوں میں اشاعت ایک مثبت قدم ہے۔
سرقہ نمبرکے ذریعے اشعر نجمی کا ’اثبات‘ ایک نئے دور میں داخل ہوا۔ ’اثبات‘ کا یہ ضخیم سرقہ نمبر بیک وقت بھارت اور پاکستان سے شائع ہوا۔ پاکستان میں عکس پبلشرز نے اس بے مثال نمبرکو شائع کیا ہے۔ اس مشترکہ اشاعت کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے ادبی جرائد ایک نئے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ امید ہے کہ ادبی سطح پر یہ اشتراک دونوں ملکوں کے درمیان اچھے روابط کے فروغ کا بھی باعث بنے گا۔
ادبی سرقہ بازی پر اردو میں بہت کم کام ہوا ہے۔ نصف صدی قبل ’مہرِ نیم روز‘ نے ’’چہ دلاور است‘‘ کے زیرعنوان مستقل کالم کے تحت مشاہیر کی سرقہ بازیوں کا پردہ چاک کیا تھا۔ ’مہرِ نیم روز‘ کی ادبی سراغ رسانی کی ان کاوشوں کو کراچی یونیورسٹی کے علمی اور ادبی مجلے ’جریدہ‘ نے ایک خصوصی شمارے کی صورت میں شائع کیا تھا۔ ’اثبات‘ کے سرقہ نمبر میں علم و ادب کے نامور ادیب و شعرا کی سرقہ بازی کی نقاب کشائی کی گئی ہے جس میں ’جریدہ‘ کے خصوصی شمارے سے بھی استفادہ کیا گیا ہے لیکن کتابی شکل میں 488 صفحات کے ضخیم شمارے میں بیشتر نگارشات نئی اور چشم کشا ہیں۔ عکس پبلشرز نے اس شمارے کی قیمت دو ہزار روپے رکھی ہے جو کہ قاری کے لیے زیادہ ہے۔ لیکن براہِ راست منگوانے پر معقول رعایت بھی دے رہے ہیں۔ یہ ادارے کا مثبت قدم ہے۔
اشعر نجمی نے اس خصوصی اشاعت کو ’’چوں کفر از کعبہ بر خیزد‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ سرورق پر ’’مشاہیرعلم و ادب کے سرقوں کا محاسبہ‘‘ ذیلی عنوان دیا گیا ہے۔ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘ کے عنوان سے اشعر نجمی نے اداریے میں اس شمارے کی اشاعت کا مقصد بہت خوبی سے واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’کہتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا ہے، یعنی ہر انسان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں خواہ وہ کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو۔ مذہبی صحائف میں حضرت آدم ؑ اور حواؑ کا قصہ مذکور ہے کہ ان دونوں نے شیطان کے بہکاوے میں آ کر شجرِ ممنوع کا پھل کھانے کی غلطی کی، اور بعد میں اپنی غلطی پر شرمسار ہوئے، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی ’’اے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اگر آپ معاف نہیں فرمائیں گے اور ہم پر رحم نہیں فرمائیں گے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘۔ ظاہر ہے کہ اعترافِ جرم اور معافی تلافی کے بعد آدمؑ و حواؑ کے مرتبے میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ ان کی بزرگی میں اضافہ ہوا۔ شخصیت پرستی کا رحجان زمانہ قدیم سے کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است‘‘ جیسے ضرب المثل محاورے اور روزمرہ نے شخصیت پرستی کے فروغ میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک ایسی فائر وال ہے جس نے بزرگوں اور مشاہیر پر تنقید کو ممنوع بنادیا اور اس بنیادی اصول کو سرے سے نظرانداز کردیا کہ جو قومیں اپنے بزرگوں کے کارناموں اور غلطیوں کے درمیان تفریق نہیں کرتیں وہ ان غلطیوں کو آہستہ آہستہ اپنے اندر سموتی چلی جاتی ہیں۔ علم و ادب کے شعبے میں تصنیف و تالیف، ترجمہ اور تلخیص اور اخذ و استفادہ کے اصول و حدود متعین ہیں جنہیں رواداری یا چشم پوشی سے پامال نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں پامال کرنے والا خواہ بزرگ ہو یا طفلِ مکتب، زندہ ہو یا مُردہ قابلِ مواخذہ ہے۔ البتہ بزرگوں اور مشاہیر کی خطائیں اس لیے زیادہ لائقِ گرفت ہیں کہ ان کے خطرناک اثرات نئی نسل کے اخلاق پر مرتب ہوتے ہیں جس کی ایک جھلک آج ہم تعلیمی اداروں میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں جہاں اس طرح کی جعل سازیوں کا بازار گرم ہے۔ ’مہر نیم روز‘ کے ادبی سراغ رساں سید حسن مثنیٰ ندوی نے سعدی کا حوالہ دیتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ بادشاہ اپنی رعایا کے گھر سے مرغی کا ایک انڈا بھی چوری کرلیتا ہے تو اس کے وزرا و عمال ڈربے کے ڈربے صاف کرجاتے ہیں۔ لہٰذا علم و ادب کا معاملہ صرف ایک انڈے کا نہیں بلکہ پورے پولٹری فارم کا ہے۔ لغزش بہرحال لغزش ہوتی ہے جس کی اصلاح تو ہوسکتی ہے لیکن اس کی تقلید ہرگز نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا یہ خصوصی شمارہ علم و ادب کے حلقوں میں سنسنی پھیلانے کے بجائے شخصیت پرستی سے آزادی، علمی و ادبی سرقوں کی حوصلہ شکنی اور نئی نسل کے لیے ماحول نسبتاً سازگار کرنے کی جانب ایک پہل ہے۔‘‘
سرقہ نمبرکا پہلا باب ’’محاضرات‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں پانچ مضامین میں سرقہ بازی کی مختلف صورتوں پر نظر ڈالی گئی ہے۔ خالد جامعی کا پہلا طویل مضمون ’’سرقے کی روایت تاریخ کی روشنی میں‘‘ جامعہ کراچی کے علمی مجلے ’جریدہ‘ سے لیا گیا ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ خالد جامعی نے عمر حمید ہاشمی اور سمیہ ایوبی کے اشتراک سے لکھا ہے۔ جس کا تعارف ’اثبات‘ کے مدیر نے اپنے شذرے میں یوں کرایا ہے کہ ’’زیر نظر مقالہ فارسی، عربی اردو اور یورپی زبان میں سرقوں کی مختصر تاریخ پر مشتمل ہے جو 120 صفحات پر پھیلا ہوا ہے، جسے زیر نظر شمارے میں مکمل شائع کرنا مشکل تھا، لہٰذا اس کی تلخیص پیش کی جا رہی ہے۔ چوں کہ یہ شمارہ اردو سرقوں پر مبنی ہے، لہٰذا دوسری زبانوں کے سرقوں کو حذف کردیا گیا ہے اور بعض اساتذہ کے سرقوں کے نمونے بھی اسی لیے حذف کردیے گئے ہیں، چوں کہ انہیں عندلیب شادانی کے حوالے سے مقالے میں شامل کیا گیا تھا، جب کہ زیرنظر شمارے میں عندلیب شادانی کا اصل مضمون براہِ راست شاملِ اشاعت کرلیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مقالے میں شامل کچھ ضمنی مباحث کو بھی ایڈٹ کیا گیا ہے۔ اس مقالے کو کراچی یونیورسٹی پریس کے ڈائریکٹر سید خالد جامعی (جو اس مقالے کے مرتبین میں بھی شامل ہیں) کی اجازت سے شائع کیا جارہا ہے جس کے لیے ہم اُن کے شکر گزار ہیں۔ ہم ڈاکٹر صلاح الدین درویش صاحب کے بھی شکر گزار ہیں جن کے توسط سے ہمیں یہ اجازت حاصل ہوئی۔‘‘
اس مقالے میں ادب میں سرقہ بازی کی مکمل تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے جس سے قاری کو سرقہ کی نوعیت اور سرقہ بازوں کے طریقہ کار کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔ بلاشبہ یہ اپنے موضوع پر بہت معلوماتی اور بھرپور تحریر ہے۔
(جاری ہے)

غزلیں

عاطف مرزا

صدا لگاتا ہے شہر بھر میں، عجب سی یہ بار بار پاگل
وہ ہجر کیا ہے کہ جو کسی کو نہ کر سکے بے قرار، پاگل
تمھاری دنیا کے ڈر سے ہم نے یہ قید خود اختیار کی ہے
تمھاری دنیا کے لوگ ہم کو پکارتے ہیں گنوار، پاگل
پرانی یادوں کے ڈھیر سے تم نہ جانے اب کیا کریدتے ہو؟
ذرا سنبھل کر! بھڑک نہ اٹھے، دبا ہوا اک شرار پاگل
سنا تھا مسکن ہے اہلِ دانش کا راز لیکن یہ اب کھلا ہے
ہرایک در پر، ہر اک گلی میں، یہاں وہاں بے شمار پاگل
کچھ ایسے بل کھاتے راستوں پر ہمارے قدموں نے رقص سیکھا
جہاں پہ اکثر کے پاؤں پھسلے، ہوئے جہاں کچھ سوار پاگل
ہمارے لفظوں میں سادگی ہے ، ہمارے لہجے میں تازگی ہے
ہماری باتوں کو مانتے ہیں ہمارے جیسے ہی چار پاگل
محبتوں کا علم اٹھاؤ، وفا کے، چاہت کے گیت گاؤ
گلی گلی اب صدا لگاؤ، کہے یہ دنیا ہزار پاگل
شعور سے جو بھی ماورا تھا فقط جنوں کی سمجھ میں آیا
روایتوں میں لکھا ہے عاطف، ہوئے ہمیشہ نثار پاگل

نجیب ایوبی

بزم تنہائی میں تنہا بھی کدھر ہوتے ہیں
میر ہوتے ہیں کبھی جون ادھر ہوتے ہیں
میرے اشعار میں مل سکتے ہیں مرحوم رسا
نظر آتے نہیں در پردہ مگر ہوتے ہیں
قتل تو کرتے ہیں آزار نہیں دیتے کوئی
آپ جیسے بھی تو کچھ اہل ہنر ہوتے ہیں
آپ ہی آپ ہیں ہر لمحہ خیالوں میں مرے
اک عجب کیف میں دن رات بسر ہوتے ہیں
عشق خود سر ہے بہت یہ بھی مگر یاد رہے
دست عشّاق میں تو اپنے ہی سر ہوتے ہیں
میرے بچے مرا آہنگ مرے بام و در
در و دیوار سے پیوست بھی گھر ہوتے ہیں
بے ثمر ہوتا نہیں کوئی بھی دنیا میں نجیب
دھوپ میں چھاؤں یہی بوڑھے شجر ہوتے ہیں

شہیر سلال

مجھے تلاش مسلسل میں موت آ جائے
خدا کرے کہ مجھے زندگی نہ بھا جائے
خدا، خدا کی محبت، خدا کی تنہائی
تمام بندشوں کو زندگی کہا جائے
تمہارے در سے مجھے مسترد کیا گیا ہے
ہوا چلے مرا نام و نشاں مٹا جائے
عذاب بن گیا جیون، محال جینا ہوا
اس آگہی سے کہو آج مجھ کو کھا جائے
ہمارے بعد ہمیں جانتا نہ ہو کوئی
ہمارے بعد ہمیں خاک راس آ جائے

حصہ