سنو سب کی کرو اپنی

656

مریم شہزاد
بچپن میں جب بھی طویل بات کرنے کی کوشش کی، ہمیشہ ہی بڑوں سے اور خاص کر امی سے یہی سننے کو ملا کہ ’’بات مختصر کیا کرو‘‘۔ اور یہ جملہ سنتے سنتے بات مختصر پیرائے میں کرنے کے عادی ہوگئے۔
’’تم نے تو ذرا سی بات کو افسانہ بنا دیا۔‘‘
’’کم بولنا عافیت ہے۔‘‘
’’سنو زیادہ، بولو کم۔‘‘
ایسے کتنے ہی جملے سنتے سنتے آخر ہم نے لکھنا شروع کردیا کہ دل کی دل میں ہی نہ رہ جائے، کچھ تو ہم ’’دردِ دل‘‘ دوسروں تک بھی پہنچا دیں کہ ہمارے دماغ میں جو الفاظ کا، معلومات کا اور کچھ باتوں کا خزانہ ہے وہ اندر ہی اندر نہ رہ جائے۔ مگر افسوس، یہاں بھی مات کھائی اور معلوم یہ ہوا کہ بندیِ ناچیز اس میں بھی کمزور ہے کہ بولنا تو کم کم تھا مگر جناب جب لکھنا شروع کیا تو معلوم یہ ہوا کہ اب اپنی بات کم سے کم الفاظ میں نہیں سمجھانی، اب تو ایسے جملے سننے کو ملے کہ ادراک ہوا بولنا کم مگر لکھنا طویل ہے۔
’’آپ کی تحریر اچھی ہے مگر مختصر ہے۔‘‘
’’کچھ تشنگی رہ گئی۔‘‘
’’بس ختم؟‘‘
’’کچھ تو طویل لکھیں، بڑی مشکل سے 2 صفحے بنتے ہیں۔‘‘ (ایڈیٹر)
ایسے جملے سن سن کر آخر جوش آ ہی گیا، اِس دفعہ افسانہ لکھنا شروع کیا تو تہیہ کرلیا کہ اب تو طویل لکھنا ہی لکھنا ہے۔ تو پہلی لائن لکھی ’’آمنہ اپنے گھر کے صحن میں تخت پر بیٹھی تھی۔‘‘ اوہو یہ تو غلط ہوگیا… میں نے دل میں کہا۔
’’آمنہ اپنے چھوٹے سے گھر کے صحن میں درخت کے نیچے بچھے تخت پر بیٹھی تھی۔‘‘ نہیں اور مزید … دل نے دہائی دی۔
’’آمنہ اپنے چھوٹے سے گھر کے صحن میں نیم کے درخت کے نیچے بچھے تخت پر بیٹھی تھی۔‘‘ ابھی اور مزید گڑ ڈل سکتا ہے۔ میں نے سوچا۔
’’آمنہ اپنے چھوٹے سے گھر کے صحن میں نیم کے درخت کے نیچے بچھے تخت پر بیٹھی تھی، جس پر پھول دار چادر بچھی ہوئی تھی…‘‘ اونہوں … اور…
’’آمنہ اپنے گھر، (سوری) چھوٹے سے گھر کے صحن میں نیم کے درخت کے نیچے تخت پر بیٹھی تھی جس پر صاف ستھری پھول دار چادر بچھی تھی۔‘‘ ہاں اب ٹھیک ہے، میں نے سکون کا سانس لیا۔ اچھا اب آگے چلتے ہیں۔ ’’آمنہ کیوں بیٹھی تھی؟‘‘
’’اُف توبہ، یہ تو کہانی ہی دماغ سے نکل گئی۔ بہت دماغ لڑایا تو آگے کے جملے یاد آئے ’’وہ گہری سوچ میں تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی…‘‘ پھر وہی مختصر۔
’’وہ سر پر دوپٹہ اوڑھے گہری سوچ…‘‘ نہیں بھئی ’’وہ سر پر سفید دوپٹہ اوڑھے گہری سوچ میں تھی جس میں اس کا چہرہ بہت پُرنور لگ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔‘‘
’’اتنی جلدی دستک؟‘‘
’’زوردار دستک ٹھیک رہے گا۔‘‘ میں نے سوچا۔ ارے موسم اور وقت کا ذکر کہاں ہیں!
یعنی اب یہ دو سطریں اس طرح سے ہوں گی:
’’بہار کا موسم تھا، شام کا سہانا وقت تھا، آمنہ اپنے چھوٹے سے گھر کے صحن میں نیم کے درخت کے نیچے تخت پر بیٹھی تھی جس پر صاف شفاف پھول دار سفید چادر بچھی تھی، وہ سر پر سفید دوپٹہ اوڑھے، جس میں اُس کا چہرہ بہت پُرنور لگ رہا تھا، گہری سوچ میں تھی کہ دروازے پر زوردار دستک سے وہ بری طرح چونک گئی۔‘‘
’’لاحول ولاقوۃ، یعنی ایک گھنٹہ ہوگیا اور وہ بھی صرف دو جملے ترتیب دینے میں۔‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا۔
’’مگر طویل افسانہ تو ایسے ہی ہوگا ناں۔‘‘ دل نے دہائی دی۔ بھاڑ میں جائے ایسی طوالت… کہانی کا سارا پلاٹ ہی دماغ سے نکل گیا، لو بھلا بتائو ’’ذرا سی بات کو فسانہ بنادیا!‘‘ نہیں لکھتی میں طویل، جو لکھ سکتا ہے لکھے، میں تو مختصر ہی لکھوں گی ورنہ بہتر ہے کہ نہ لکھوں۔ اس کے بعد میں نے اپنا مختصر افسانہ قلم بند کیا اور سکون کا سانس لیا، اور اپنے آپ کو تسلی دی کہ کم بولنا ہی نہیں مختصر لکھنا بھی عافیت ہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو جامع الکلام تھے، مختصر بات کرتے تھے، تو ہم کیوں اتنی طویل بات کریں! شاید ہماری یہی ادا ہمارے اللہ کو پسند آجائے۔ اور ڈائری بند کردی۔

الفاظ کا خزانہ

آلا: دیوار میں چراغ وغیرہ رکھنے کی جگہ، طاقچہ۔ اس زخم کو کہتے ہیں جو مندمل ہوکر

 پختہ نہ ہوا ہو (استعمال: آغازِ محبت میں نہ دے پند کہ ناصح… ٹھیس اس کو لگاتے ہیں جو زخم ہو آلا)
آلات: ہتھیار، اوزار، سازوسامان، لوازم۔

آلام: (الم کی جگہ) رنج و غم
آلان: باندھنے کی چیز، وہ کڑا یا زنجیر جس سے ہاتھی کا پائوں باندھا جاتا ہے، ہاتھی کی پیٹ

ھ کا گدا۔
آلائش: میل کچیل، آلائش، پیٹ کی انتڑیاں، پھوڑے کی پیپ اور لہو۔
آلتی پالتی: ایک قسم کی نشست، چار زانو۔ (استعمال: آلتی پالتی مار کر بیٹھنا)
آلکسی: کاہلی، سستی
آماج: نشانہ، جس چیز یا جس مقام کو تاک کر تیر یا گولی لگائیں (رخ ہے دل و جگر کی طرف آج تیر کا۔ دیکھیں تو کون ہوتا ہے آماج تیر کا)
آمادہ: مستعد، راضی، تیار۔
آموختہ: پچھلا سبق، پچھلا پڑھا ہوا سبق۔
آموزگار: سکھانے والا، معلم، استاد۔
آنکڑا: کانٹا، ٹیڑھی آہنی سیخ، قبضہ، گرفت۔
آنکس: وہ آنکڑا جس کو فیل بان ہاتھی پر سواری کے وقت ہاتھ میں رکھتے ہیں اور اس سے ہاتھی کو چلاتے ہیں۔

حصہ