میڈیا بنائے معاشرہ

296

مرکزی شعبہ نشرواشاعت خواتین
کسی بھی معاشرے میں میڈیا، مکتب اور ماں شبنم کی طرح کام کرتے ہیں۔کیا طلوعِ آفتاب سے پہلے کسی نے شبنم کی آمد کی آہٹ سنی ہے؟ ہرگز نہیں، لیکن علی الصبح شبنم ماحول کے ذرے ذرے کی رگوں میں اتر کر اسے سیراب کردیتی ہے، کوئی چاہے یا نہ چاہے شبنم میں بھیگنے سے بچ نہیں پاتا۔ یہی حال دیمک کا ہے، دیمک جہاں بسیرا کرلیتی ہے وہاں خاموشی سے اپنا کام جاری رکھتی ہے، اور اس کے اچانک در و دیوار پر مٹی کے گھروندوں کی صورت میں نمودار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کے کام کا آغاز ہوا ہے، بلکہ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ وہ اپنا کام مکمل کرچکی ہے، عمارت کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی ہیں، اس نے رفتہ رفتہ اپنا کام جاری رکھا ہوا تھا، اور بے خبر رہنے والے سوتے رہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہی کردار آج ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں میڈیا کا ہے۔ میڈیا مملکت کے چوتھے ستون کی حیثیت سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے، میڈیا کے مقاصد میں باخبر رکھنا اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنا ہے، میڈیا کے معاشرے پر مثبت اثرات کسی شبنم کی مانند اسے تروتازگی بخشتے ہیں، اور منفی اثرات دیمک کی طرح اس کے تہذیبی و اخلاقی ڈھانچے کو چاٹ جاتے ہیں۔گویا صحت مند معاشرہ میڈیا کی دی ہوئی صحت بخش خوراک کا مرہونِ منت ہے۔
صحت بخش میڈیا…صحت مند معاشرہ
صحت بخش میڈیا سے کیا مراد ہے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ صحت مند میڈیا وہ ہے جو اپنے مقاصد یعنی معاشرے کو حقیقی صورت حال سے باخبر رکھنے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دے رہا ہو۔ صحت مند معاشرہ صحت مند افراد سے مل کر بنتا ہے۔ اور بیمار افراد، بیمار معاشرے کا عنوان بن جاتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق ایک تصویر 500 الفاظ کا نعم البدل ہوتی ہے۔ ہم میڈیا کے ذریعے معاشرے کی جو تصویر پیش کرتے ہیں، کچھ عرصے بعد وہی معاشرے کا عکس بن جاتی ہے۔
معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان
ہمارا خاندانی نظام اور ہماری اقدار ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ میڈیا چینلز کی رسائی ہمارے گھر کی دہلیز سے گزر کر آج ہمارے ٹی وی لاؤنج اور بیڈروم تک ہے، اس لیے آج خاندان کا ہر فرد اس سے براہِ راست متاثر ہوتا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ خاندان کے ہر فیصلے، رسوم و رواج میں میڈیا کا درجہ مسلمہ ہوچکا ہے۔
نوجوان نسل اور میڈیا
نوجوانوں کی تربیت والدین، تعلیمی ادارے، معاشرہ، ماحول اور مروج کلچر مل کر کرتے ہیں۔ کامیاب سوسائٹی وہ ہوتی ہے جس کے نوجوان اپنا ایک نصب العین طے کریں۔ اعلیٰ تعلیم کا حصول، سائنسی ایجادات اور تحقیق کے لیے ان کے پاس رہنمائی موجود ہو۔ اور میڈیا ایک ایسا ذریعہ ہے جو نوجوانوں کی صلاحیتوں کی نشوونما میں بھرپور رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ نوجوانوں کے پاس قوت اور کوئی بھی کارنامہ انجام دینے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، اور میڈیا کی رہنمائی ان صلاحیتوں کو کئی گنا بڑھا سکتی ہے۔
میڈیا کی اہم ذمہ داریاں
میڈیا وسیع تر اور مؤثر ترین ذریعۂ ابلاغ ہونے کی وجہ سے آج معاشرے کا اہم جزو ہے، اور محسوس و غیر محسوس طریقوں سے انسانی زندگی کو متاثر کررہا ہے۔ عائلی زندگی ہو یا کاروباری، سیاسی نظام ہو یا اقتصادی، تعلیم، تجارت ہو یا صنعت، زراعت ہو یا صحت، انتظامی امور ہوں یا امن عامہ، ملک کے داخلی معاملات ہوں یا ادبی میدان، معاشرتی مسائل کے حل کی نشاندہی ہو یا اہم موضوعات پر تحقیقات اور علمی نظریات پر مباحثے… الغرض زندگی کا کوئی شعبہ، کوئی گوشہ اور کوئی پہلو میڈیا کے دائرۂ کار سے باہر نہیں۔ میڈیا انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبے کا ترجمان ہے۔
تعلیم کا فروغ میڈیا کی اہم ذمہ داری
تعلیم اور ذرائع ابلاغ کا رشتہ بہت قدیم ہے۔ تعلیم و تبلیغ کے دوسرے ذرائع میں اتنی وسعت نہیں ہے جتنی وسعت میڈیا کی ہمہ گیری نے اس کو دے دی ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور میڈیا کا تعلق بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ اس خطے میں مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے کالج اور یونیورسٹی کا خواب جنگِ آزادی کے بعد کے قلمکاروں اور صحافیوں نے دیکھا اور اسے تعبیر بخشنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ کالج، یونیورسٹی اور رسائل اور اخبارات کے ذریعے مسلمانوں کی غلامی سے آزادی کا خواب دیکھا۔ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ذرائع ابلاغ درختوں کی مانند ہیں جو معاشرے کی رگوں سے مضر صحت زہریلے مادوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور معاشرے کو تازہ حیات بخش آکسیجن فراہم کرنے کا فریضہ بحسن و خوبی ادا کرسکتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے ٹی وی چینلز بالخصوص ڈراموں اور اشتہارات کا کردار کیا ہو؟ یہ ہمیں سوچنا چاہیے۔
ایک پروگرام میں ماضی کی مشہور ڈراما نویس نے موجودہ دور میں اپنے ڈرامے نہ لکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے پاکستان کے حالیہ ڈراموں کے معیار اور موضوعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے ڈرامے دیکھ کر افسوس اور تکلیف ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آج پاکستان کے ہر ڈرامے میں لڑکیوں اور عورتوں کو مار کھاتے ہوئے، روتے ہوئے اور تشدد کا نشانہ بنتے ہوئے دکھایا جاتا ہے جو انتہائی غلط اور افسوسناک ہے، میں ڈراموں میں عورتوں کو تذلیل کا نشانہ بنتے ہوئے نہیں دکھا سکتی‘‘۔ میڈیا کی یہ تصویر آج ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے، آج کا میڈیا کل کا عکس ہوگا، اس لیے ہمیں آج ہی یہ فیصلہ کرنا ہے کہ میڈیا پر کس طرح کے پروگرام نشر کیے جانے چاہئیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا معاشرہ اور خود میڈیا کے اربابِ اختیار اس کے پیش کردہ پروگراموں، مارننگ شوز، ٹاک شوز اور اشتہارات سے مطمئن ہیں؟ سوچیے، ضرور سوچیے۔

حصہ