بچوں کو مٹاپے سے بچائیں

354

سمیرا انور
’’ماما مجھے برگر کھانا ہے اور اس کے بعد آئس کریم بھی کھانی ہے۔‘‘ حورین نے اپنی ماما سے پیار بھرے انداز سے کہا تو انہوں نے جھٹ سے اس کی فرمائش پوری کردی، حالانکہ اِس سے پہلے وہ پیٹ بھر کر کھانا بھی کھا چکی تھی۔ بچوں سے لاڈ پیار اپنی جگہ، لیکن اُن کی صحت پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاسکتا۔
مائیں اپنے بچوں کے کھانے پینے کی روٹین خود خراب کرتی ہیں، پھر جب وہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ جتنا زیادہ بچوں کو کھلائیں گی وہ اتنے ہی زیادہ صحت مند ہوں گے۔ مگر یہ سوچ بالکل غلط ہے بلکہ آپ کے بچوں کی صحت کے لیے خطرناک حد تک نقصان دہ بھی ہے۔ اس امر میں صرف ماں کا نہیں باپ کا بھی اتنا ہی اہم کردار ہوتا ہے۔ وہ بچوں کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے انہیں جی بھر کر تلی ہوئی چکنی چیزیں کھلاتے ہیں، اور اس معاملے میں ذرا بھی احتیاط نہیں برتی جاتی، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ بچوں کی یہی تو عمر ہے کھانے پینے کی۔ لیکن کیا انہیں صحت مند اور توانا دیکھنا والدین کی خواہش نہیں ہوتی؟ بچوں کی کھانے پینے کی روٹین جب خراب ہوتی ہے تب ان کا جسم موٹاپے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بچپن کا موٹاپا نوجوانی کی عمر میں پہنچ کر بہت سی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
بچپن میں مائیں بچوں کو فربہ اور صحت مند بنانے کے چکر میں خوب کھلاتی پلاتی ہیں تاکہ اہلِ خاندان اور دوست احباب یہ کہہ سکیں کہ ان کے بچے کتنے صحت مند ہیں۔ حالانکہ بچوں کو غیر ضروری اور بے وقت کا کھلانا موٹاپے کی نشانی ہے۔ اگر متوازن غذا کے اصول دیکھتے ہوئے بچوں کی خوراک کا اہتمام کیا جائے تو ان کی جسمانی نشوونما صحت مند طریقے سے ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر سبزیوں اور پھلوں کی تاکید کرتے ہیں، لیکن اگر بچے شروع سے ہی ان کے عادی نہ ہوں تو کھانے کے معاملے میں وہ بہت تنگ کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چار سال کی عمر کے بعد اگر بچے کا وزن اُس کے قد کے اعتبار سے زیادہ ہو تو اس بات کو سنجیدگی سے لیں اور ڈاکٹروں سے مشاورت کریں، اور فوری طور پر اس کے بڑھتے وزن پر قابو پائیں، کیوں کہ بڑھتی عمر کے ساتھ بچے کا وزن کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بچوں کی بہتر نشوونما کے لیے انہیں توانائی والی غذائیں دیں، ایسی غذائیں جن میں پروٹین، چکنائی اور وٹامن کم مقدار میں ہوں، ورنہ اس سے بچے کی جسمانی اور ذہنی نشوونما بھی رک جائے گی۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی غذا کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے ساتھ صبح یا شام کے اوقات میں ورزش کے لیے باہر ضرور لے جائیں تاکہ ایک تو انہیں ورزش کی عادت پڑ جائے اور دوسرے وہ جسمانی طور پر تندرست رہیں۔ موٹاپا بچے کی شخصیت کو بنانے کے بجائے بگاڑتا ہے، اس سے بچے کی ذہنی صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بھدا جسم بچوں کو چڑچڑا اور بدمزاج بنادیتا ہے، وہ بات بات پر لڑتے جھگڑتے ہیں اور پھر احساسِ کمتری کا بھی شکار ہوجاتے ہیں اور انہیں ہر چیز میں برائی نظر آتی ہے۔ وہ کھیل کے مقابلوں اور ریس میں حصہ نہیں لے پاتے۔ ذرا چلنے سے ان کا سانس پھولنے لگتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ صحت مند نہیں ہیں اور موٹاپے نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

حصہ