ارادہ بنا عمل

179

حریم شفیق
’’امی جان… امی جان…!‘‘ گڈو باہر سے آوازیں لگاتا ہوا آیا۔
’’کیا ہوا بیٹا، خیریت ہے ناں؟‘‘ ندرت نے باورچی خانے سے آواز لگائی۔
’’امی جان! آپ کو معلوم ہے میں نے اور میرے دوستوں نے ایک زبردست منصوبہ بنایا ہے۔‘‘ گڈو بہت پُرجوش تھا۔
’’اچھا! میرا بیٹا تو بہت خوش ہے، بھلا بتائو تو؟‘‘ ندرت نے پیار سے اپنے دس سالہ بیٹے کو دیکھا۔
’’امی جان! ہم سب دوست ساری گلی سے سو، سو روپے جمع کریں گے اور ان پیسوں سے ساری گلی سجائیں گے، رنگ برنگی پتنگیں لائیں گے اور بسنت خوب اچھی طرح سے منائیں گے، بڑا مزا آئے گا۔‘‘ گڈو نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔
ندرت نے حیران نظروں سے گڈو کو دیکھا اور کسی گہری سوچ میں کھو گئی۔ آج ہی تو اس کو معلوم ہوا کہ بسنت کا یہ ہندوانہ تہوار اس کے مذہب، اس کی پہچان پر کتنا بڑا اور کاری وار تھا جس نے اس کے ہم وطنوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔ وہ بنا سوچے سمجھے اس تہوار کو منانے کی تگ و دو میں مصروف تھے۔ نہ صرف پاکستانی عوام، بلکہ حکومت بھی ان کا ساتھ دے رہی تھی۔ کل تک تو وہ صرف یہ سوچتی تھی کہ بسنت ایک فضول خرچی اور قاتل تہوار ہے، وہ ہمیشہ سے اس کے خلاف رہی ہے، مگر جب اسے اس تہوار کی حقیقت معلوم ہوئی تو اس کا خون کھول کر رہ گیا، اور اب اس کا معصوم بیٹا بھی اس آگ کی لپیٹ میں آنے والا تھا جو کفار و مشرکین کی ایک سازش تھی مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دور کردینے کی۔ وہ تڑپ کر رہ گئی، اس کا بس نہ چلتا تھا کہ وہ ایک ایک کا ہاتھ پکڑ کر بتائے کہ زندگی کی جن رنگینیوں میں وہ کھونے جارہے ہیں وہ ان کے لیے دنیاوی تباہی تو لائیں گی ہی، ان کی آخرت بھی برباد کردیں گی۔ بھلا اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے گستاخ کی یاد میں خوشی منانے والے کسی تہوار کا حصہ مسلمان کیونکر بن سکتے ہیں! وہ حیران تھی کہ گزشتہ برسوں میں تو اس تہوار پر پابندی تھی کیوں کہ یہ تہوار بہت سی انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بنا تھا، بہت سے حادثات ہوجاتے تھے، مگر اب حکومتی سطح پر اس کو منانے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ جب کہ یہ حقیقت بھی سامنے آگئی کہ اس تہوار کی تاریخ کیا ہے۔ اس کی تاریخی حیثیت سب پر واضح ہوچکی ہے، اس کے باوجود!
وہ سوچ رہی تھی کہ آج اس کے گڈو جیسے ہزاروں بچے کس وجہ سے اتنے پُرجوش ہورہے ہیں اس تہوار کے سلسلے میں؟ تو سمجھ میں یہ آیا کہ یہ میڈیا کی رنگینیاں ہیں جو بچوں کو، نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ یقینا بچے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہی تو سب سیکھ رہے تھے… تو اب اسے کیا کرنا چاہیے؟ اس یلغار سے اپنے گڈو اور دوسرے سیکڑوں بچوں کو کیسے بچانا ہے جو آگ سے کھیلنے جارہے تھے جس میں ان کی اپنی جان کے جانے کا بھی خطرہ تھا اور ایمان کے ہاتھ سے جانے کا خطرہ بھی تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا وہ ایسا نہیں ہونے دے گی، اور اپنی قوم کے ان نونہالوں کو آگاہی دے گی، شعور دے گی۔
اگلے ہی دن ایک بہت پیاری سی تقریب ندرت کے گھر پر منعقد ہوئی۔ بچے بہت خوش تھے اور پُرجوش بھی۔ کوئی ترانہ سنا رہا تھا، کوئی پینٹنگ کررہا تھا… عجب سماں تھا۔ پھر آخر میں ندرت نے بچوں کو بسنت کی حقیقت بتائی اور اُن سے سوال کیا کہ کیا وہ ایسے کسی تہوار کا حصہ بن سکتے ہیں جو ان کے مذہب کا، ان کے پیغمبرؐ کا مذاق اُڑانے کے لیے ہندو مناتے ہوں؟ اور یہ دیکھ کر اور سن کر اس کے اندر طمانیت کا احساس پیدا ہوا کہ ہر بچے کا جواب نہ صرف نفی میں تھا بلکہ انہوں نے وعدہ بھی کیا کہ وہ اور ساتھیوں کو بھی آگاہی دیں گے۔
ندرت سوچ رہی تھی کہ دریا کے مخالف سفر کرنا آسان نہیں… میڈیا بے راہ روی کا بپھرتا دریا ہے، لیکن جذبے، محنت اور مستقل مزاجی سے اس کو صحیح سمت میں موڑا جا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یہ کام کیا جائے۔ دل ہی دل میں ندرت نے اس کے لیے اپنی ساری سہیلیوں کو اپنے ساتھ ملانے کا عہد کیا۔
اُس کو محسوس ہوا کہ اِس سوچ نے اُس کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑا دی ہے، اور ایک مسکراہٹ اُس کے لبوں پر پھیل گئی۔

حصہ