استاد کی عزت

882

سید شاہ زمان شمسی
دور حاضر جدید علم و ٹیکنالوجی کی ترقی اور انسانی ارتقاء کا دور ہے۔ اس دور میں انسان نے چاند پر قدم رکھا‘ سورج کی شعاعوں کو حسب ضرورت استعمال کے طریقے ڈھونڈ لیے۔ موجودہ دور میں حیات کے آثار ڈھونڈے جانے لگے۔ بینائی سے محروم آنکھوں کو روشنی دے کر قابل دید بنا دیا گیا۔ بے کار ہوتے ہوئے قلب کو عمل جراحی کر کے کارآمد بنا دیا گیا۔ بند شریانوں میں خون کا دریا رواں کر دیا گیا۔
ان سب ترقی کے اس پس منظر میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علم کی دولت تقسیم کرنے والا سر فخر سے بلند ہوتا ہوا نظر آتا اور علم کی خیرات پانے والا سراپا انکسار ہو جاتا، لیکن نتائج اس کے بر عکس دیکھنے کو ملتے ہیں۔ علم و دانش کے جدید دور کی آسائش میں طلبہ اخلاقی طور پر پسماندگی کا شکار ہیں۔ نہ رشتوں کا احترام ہے نہ تقدس موبائل اور رنگ برنگے چینلز پر چلنے والے پروگرام ذہنی پسماندگی کی وجہ بن رہے ہیں۔ جس نے بہت حد تک تعلیم یافتہ طبقے کو دینی اور اخلاقی سرگرمیوں سے دور کر کے تنزلی کا شکار کر دیا ہے۔ کسی شاعر نے خوب کہا تھا کہ

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

اسلام نے استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا ہے۔ جس نے اپنے علم کو لفظوں کی مٹھاس اور تاثیر کے ذریعے طلبہ کے اندر روحانی غذا کا اہتمام کر کے پاکیزگی پیدا کرنی ہوتی ہے تا کہ طالب علم جدید تقاضوں کے مطابق حصول علم کے ساتھ مذہبی و اخلاقی سرگرمیوں سے وابستہ رہ کے سماج میں احسن طریقے سے زندگی بسر کر سکے۔ بے راہ روی اور اخلاقی تنزلی کے اس معاشرے میں طلبہ میںمہذب پن اور شائستگی کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس دور میں اگر کوئی چیز نایاب ہوتی جا رہی ہے تو وہ ہے استاد کی عزت و احترام خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقہ میں استاد کے لیے عزت کا فقدان، آخر اس کے اساب و وجوہات کیا ہیں اور اس کا سد باب کیسے ہو سکتا ہے اسے درج ذیل نکات میں وضاحت کر کے سمجھایا جا سکتا ہے۔
معلم کی خلوص میں کمی:
دور حاضر میں چھوٹے سے اسکول سے لے کر بڑی و مرکزی دانش گاہ (یونیورسٹی ) میں اس بات کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کہ استاد میں طلبہ کے لیے خلوص و محبت اور ہمدردی میں کمی آئی ہے۔ کل کا استاد اپنا یہ فرض منصبی سمجھتا تھا کہ طلبہ میں صرف علم کی روشنی نہ بکھیرے بلکہ علم کے ساتھ عملی طور پر ایثار و قربانی اور مہر و محبت کی روح پھونکے اور ان کے عزم و عمل کو بیدار کرتے ہوئے انہیں سماجی و معاشرتی اور معاشی زندگی کے لیے تیار کرے لیکن اب ایسا کچھ نہیں‘ عام طور پہ استاد ادارے کی طرف سے دیے گئے نصاب کو پروفیشنل ڈیوٹی سمجھتے ہوئے مقررہ وقت پہ پورا کر دیتا ہے۔ آج کے استاد کا نصب العین طلبہ کے ذہن کو بیدار کرنا نہیں بلکہ پیشہ ورانہ ذمہ داری سمجھتے ہوئے نصاب تعلیم کو بر وقت پورا کرنا ہوتا ہے۔
جو طلبہ ذہنی طور پہ درس گاہ میں حاضر نہیں ہوتے یا پڑھنے کو آمادہ نہیں رہتے انہیں یا تو ٹیوشن سینٹر اور اکیڈمی کا سہارا لینا پڑتا ہے یا امتحان میں کامیابی سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ اس لیے کہ وہی استاد جس نے درس گاہ میں سبق پڑھایا وہی دوبارہ کلاس روم میں یا فراغت میں اس طالب علم کو کچھ بتانے سے گریز کرتا ہے۔
علم کو صرف ذاتی یا مالی منفعت قرار دینا:
اس وقت بہت سے تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو علمی مراکز کو صرف ذاتی اور مالی منفعت کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اور یہ ایک کلیہ ہے کہ جب کسی کام میں ذاتی یا مالی منفعت شامل ہو جائے تو خلوص رخصت ہو جاتا ہے۔ جب ایک شخص کسی طالب علم کو مالی منفعت کے لیے علم و ہنر سے فیضیاب کر رہا ہے تو ہر اس طالب علم کی طرف سے ادا کی جانے والی فیس ہی استاد کے لیے خاص ہے۔ اب اگر کوئی طالب علم ایسے استاد کی عزت و توقیر کرتا ہوا نظر آئے تو پھر یہ اس طالب علم کی تربیت خاندانی پس منظراور حسن عمل کے علاوہ کچھ نہیں۔
بنیادی مذہبی معلومات کی کمی:
طلبہ میںبنیادی مذہبی معلومات کی کمی بھی استاد کے احترام میں کمی کی ایک وجہ ہے۔ اگر ہم اسلامی اسباق پر نظر کریں تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے استاد و شاگرد کے اس رشتہ کو اپنے قول میں آشکار کر دیا، ’’جس نے مجھے ایک لفظ کی بھی تعلیم دی اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا‘‘۔
اب غلام کبھی بھی آقا کے سامنے سر بلند نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اس کے سامنے اپنے کندھوں کو جھکائے رکھتا ہے جس کے پیش نظر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول ہو وہاں صاحب ایمان کبھی اور کسی مقام پر استاد کی عزت و احترام میں کمی نہیں کر سکتا۔
علم کی روح سے خالی قلب:
ان حالات کے پیش نظر اگر جائزہ لیا جائے تو اچھے سے اچھے تعلیم یافتہ جوان کا دل روح علم سے خالی نظر آئے گا۔ اس لیے کہ روح علم عملی طور پر تہذیب و اخلاق سے آراستہ ہونے کا نام ہے۔ جب علم تقسیم کرنے والے اور علم حاصل کرنے والے کا نظریہ علم برائے مال ہو نہ کہ روح کی سیرابی تو معاشرے میںدولت کی فراوانی تو ہو جائے گی لیکن ساتھ ہی ساتھ اخلاقی پستی بھی آتی جائے گی۔ اس لیے کہ علم اصلاح سماج کے لیے نہیں بلکہ حصول مال کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
نتیجہ: استاد کے لیے طلبہ میں عزت و احترام کا قلبی جذبہ پیدا کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ خود استاد میں شعبہ تعلیم کی طرف سے خلوص و ہمدردی کا جذبہ اجاگر ہو نیز طلبہ میں دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی بیداری پیدا کی جائے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

حصہ