سوشل میڈیا

354

صدف نایاب
موجودہ دور کا سب سے بڑا فتنہ سوشل میڈیا ہے۔ سوشل میڈیا آج کے انسان کو وہ کچھ دکھا رہا ہے جس کا تصور بھی کچھ سالوں پہلے تک محال تھا۔ شعور کی آنکھ سے دیکھا جائے تو میڈیا اپنی ذات میں اچھا برا نہیں بلکہ اس کا استعمال ہم جیسے کمزور انسانوں کے ہاتھ میں ہے۔ سوشل میڈیا آج کے تیزترین ترقی یافتہ دور کی ضرورت ہے اور اس کے فوائد سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
جدید دور کی جدت دیکھیے، دور دراز رہنے والوں سے آج واٹس ایپ، اسکائپ، فیس بک کے ذریعے سارے فاصلے بالکل ختم ہو چکے ہیں۔ حج کے دنوں میں سعودی عرب کی براہ راست کوریج دیکھنا، اب کچھ مشکل نہیں رہا۔ میلوں دور مقیم رشتے داروں سے بات چیت ٹیلی فونک ملاقات آج سوشل میڈیا کی بدولت سیکنڈوں کا کام ہے۔
گوگل جیسی سائٹس نے دنیا بھر کی انفارمیشن لا کر ہمارے قدموں میں رکھ دی ہے۔ پہلے کبھی کسی معلومات کے حصول کے لیے دوردراز سفر کرنا پڑتے تھے یا پھر بے شمار کتابیں چھاننی پڑتی تھیں۔ مگر اب ایک لفظ گوگل پر لکھ کر سرچ کرنے سے کیا کچھ کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آج کل لوگ بلاگز، ای میگزین وغیرہ پڑھنے کو اخبار و جرائد کی نسبت زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
آج کی جدید ایپلیکشنز کے ذریعے مثلاً اقبال کے اشعار پر مبنی ایپ سے آپ کوئی بھی شعر بآسانی تلاش کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ایپلیکشنز کے ذریعے آپ دنیا بھر کی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔
؎ٹوئتر اور فیس بک پر موصول ہونے والی خبروں کے ذریعے دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے آپ سب کچھ گھر بیٹھے جان سکتے ہیں۔ ملکی حالات اور سیاست سے باخبر رہ سکتے ہیں۔ اسی طرح میڈیا میں شامل زوم، واٹس ایپ پر ہونے والی آن لائن کلاسز ہیں جن کا آج سب سے بڑا فائدہ گھریلو خواتین کو ہے۔ چاہے وہ انگلش کی ہوں یا قران کی کلاسز ہوں۔ اس طرح معاشرے کا بڑا طبقہ آن لائن کاروبار اور مارکیٹنگ کے ذریعے گھر بیٹھے آمدن کما رہا ہے۔
فیس بک وغیرہ پر بننے والے ایسے گروپ جو صحافت کو فروغ دیتے ہیں۔ نئے لکھنے والوں کے لیے سونے کی چڑیا کے مترادف ہیں۔ اس طرح ان کی لکھی ہوئی تحریریں بھی اخبار میں شائع ہو جاتی ہیں۔
فیس بک دوکاروبار کرنے والے مرد و خواتین کے لیے سب سے بہترین جگہ ہے جہاں وہ اپنے کھانے، کپڑوں، برتنوں کی کھل کر مارکیٹنگ کر سکتے ہیں۔
یہ تھے سوشل میڈیا کے وہ فوائد جن سے کثیر تعداد میں عوام الناس مستفید ہورہے ہیں اب اگر بات کریں سوشل میڈیا کے نقصانات کی تو وہ ہماری ذرا سی لاپروائی اور بے توجہی کے سبب بے حد خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
.سب سے پہلے تو ہماری نوجوان نسل بے راہ روی اور بے حیائی کا شکار ہو رہی ہے۔ گوگل پر غلطی سے بھی اگر کچھ غلط سرچ کر دیا جائے تو فحاشی کے وہ اڈے کھل کر سامنے آئیں گے کہ انسان خود اپنے آپ سے شرما جائے۔اسی طرح ٹک ٹاک جیسی ایپ انسان کو اور بے شرم بناتی ہیں۔ بلیو وہیل جیسی ایپ انسانوں کو اپنی زندگیاں ختم کرنے پر اکساتی ہے۔فیس بک دنیا کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپ ہے۔ بے شمار معلومات موجود ہیں جس کی کوئی حد نہیں۔ ایسی معلومات میں سے صحیح اور سچی بات چننا جان جوکھوں کا کام ہے۔
نائٹ پیکجز دے کر ہماری نوجوان نسل کو جس بے حیائی کے دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے اس کے خوفناک نتائج کی ذمہ داری ایک دن خود ہمیں ہی اٹھانی پڑے گی۔ اسی طرح اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ نیٹ پر بیٹھ کر آپ کس عمر کے بندے سے بات کر رہے ہیں آپ کو علم نہیںکہ وہ بزرگ یا چھوٹا بچہ ہو مرد ہو یا عورت ہے۔ اس طرح کی چیٹنگ کے شدید نقصانات وقتا فوقتا سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس ان دیکھی بات چیت نے آج ادب و لحاظ کے سارے بندھن توڑ ڈالے ہیں۔
سوشل میڈیا برائی اور اچھائی کا مشترکہ مجموعہ ہے۔ لہذٰا اس کا استعمال احتیاط سے کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ فیصلہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آیا اس کے مثبت استعمال سے ہم دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنوار لیں یا دونوں جہانوں کی ناکامی اپنے سر لے لیں۔

حصہ