فرصت کے رات دن۔۔۔

314

ثمرہ رباب
ایک عرصہ قبل روابط بے حد مضبوط تھے ہم اپنے بڑوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے زندگی ایسے ہی ہنستی کھیلتی گزر رہی تھی کیونکہ روابط مضبوط تھے گلی کا کوئی بچہ اسکول کے وقت کھیلتا نظر آجاتا تو گلی کا کوئی بھی مرد اس کا گریبان پکڑ کر گھر تک چھوڑ کر آتا کہ بھائی تمہارا بچہ فلاں جگہ آوارہ گردی کررہا تھا۔ خواتین گھر کا کام نمٹانے کے بعد کھلی فضا میں درخت کے سائے میں مل بیٹھ کر اپنے اپنے دکھڑے بیان کرتیں اور سکون محسوس کرتیں اور کچھ دیر سستا کر اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتیں۔ تمام گھر والے 8 بجنے کا انتظار کرتے قسط وار اردو کھیل دیکھنے کے لیے اور ٹھیک 9 بجے گھر کے بڑوں کا وقت ہوتا کیونکہ خبریں آتیں۔ موسم سرما میں کوئی نہانے جاتا تو گھر کا کوئی مرد پانی گرم کرکے غسل خانے کے دروازے تک دے آتا۔ رمضان کی آمد آمد ہوتی تو گھروں میں خوشیوں کی فضا دوڑ جاتی اور سب پرجوش انداز سے رمضان المبارک کے استقبال کی تیاریاں کرتے ۔ جب رمضان آجاتا تو ایسی بہار آجاتی جیسے نور ہوائوں میں ہے۔ رمضان کا اتنا احترام کیا جاتا تھاکہ ٹی وی کو تالے لگ جاتے اور جب رمضان کی رونقوں میں گم ہوجاتے۔عید کی تیاری کے لیے بازار جانے کا وقت آتا اور ابا جان جوتیوں کی ایک دکان پر لے جاتے اور بچے خوشی خوشی خرید لاتے ان وقتوں میں چند مخصوص خریداری کے لیے دکانیں ہوا کرتی تھیں۔ سہ پہر کے بعد بچوں کا ٹیلی ویژن ٹائم شروع ہوتا جو 2 گھنٹے چلتا جس میں بچوں کے کھیل، کارٹون اور نظموں کے پروگرام دکھائے جاتے۔ یہ سب صرف ایک پاکستان ٹیلی ویژن کا کمال تھا کہ ہر عمر کے لیے دن کا ایک مخصوص حصہ مختص کیا جاتا۔ غرض یہ کہ ہر چیز بہت خاص تھی۔
ہفتے کے آخر میں سب رات جاگتے، پی ٹی وی کی ٹیلی کاسٹ دیکھنے کے لیے جس میں ایک ٹیلی فلم ایک پاکستانی فلم شامل تھی۔ صبح جب روشن پاکستان آیا کرتا تھا تو سب کی صبح روشن ہو جایا کرتی تھی کیونکہ پی ٹی وی پر تلاوت کی آواز گلی محلے کی دکانوں اور گھروں میں گونجا کرتی تھی جو ہر گھر کو رحمت سے ہرا رکھتی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ گلی کا کوئی بھی بچہ اسکول کے بجائے کہیں جائے کسی کو کوئی خبرنہیں درخت کے سائے ختم ہوتے تھے وقت ختم ہوتا گیا۔ درخت کے سائے لوگوں کی چہچہاہٹ سے ویران ہوتے گئے لوگوں کی پریشانیاں اور مشکلات بڑھتی گئیں، فکرات پہلے سے زیادہ ہوگئیں، خوشیاں جاتی رہیں کیونکہ روابط ٹوٹ گئے ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوا۔ (بس اپنے بڑوں کے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں رہا) کوئی گھر کا فرد دوسرے فرد کو پانی گرم کرکے دیا کرتا اب گیزر آگیا۔ کیا ہوا؟ ایک رابطہ ٹوٹ گیا۔ گھر کے جو افراد مل بیٹھ کر ٹی وی دیکھا کرتے تھے، موبائل کی آمد نے یہ رابطہ بھی توڑ دیا اب کوئی انتظار نہیں کرتا کہ رات میں مل بیٹھ کر اردو کھیل دیکھیں گے۔ غرض یہ کہ ٹیکنالوجی نے رابطہ توڑ کر رکھ دیا۔ اخلاقیات کو تباہ کردیا لوگوں کے پاس وقت نہیں رہا اور خوشیاں ختم ہوتی گئیں، جو کہتا ہے کہ ٹیکنالوجی نے آسانیاں دیں قطعاً یہ بات درست نہیں۔ ٹیکنالوجی نے آسانیوں کے بجائے مشکلات میں اضافہ کیا۔ معاشرے سے بھائی چارہ انسانیت سب ختم ہوگیا۔ ہر چیز جو خاص ہوا کرتی تھی اب عام ہے ٹی وی پر ہزاروں اردو کھیل آتے ہیں۔ رمضان کا احترام عید کی خوشیاں سب ٹیکنالوجی کی نظر ہوگئی ہر تیسرا فرد تنہائی کا شکار ہے ہمارے معاشرے کو تباہ کرنے میں ٹیکنالوجی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

حصہ