مرغِ باد نما

1447

بچو! مرغِ بادنما ایک ایسا مرغ ہے جو ہوا کا رخ بتارہا ہوتا ہے۔ اب تو یہ بلند و بالا عمارتوں میں کہیں کہیں نظر آتا ہے لیکن کسی زمانے میں یہ اکثر بڑے گھروں کی چھتوں پر نظر آتا تھا۔ یہ مرغے کی شکل کا ہوتا ہے اور عام طور پر ٹین کی ایک مناسب موٹی چادر سے بنایا جاتا ہے۔ اس کو دیکھو تو اس کی ایک آنکھ، ایک پر اور ایک ہی ٹانگ ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی مرغے کو سر، چونچ، پَر اور دُم سمیت بالکل درمیان سے کاٹ دیا ہو۔ اس کے بیچوں بیچ ایک گھومنے والی سلاخ لگادی جاتی ہے جو ہوا کے مطابق اس کو چونچ کی سمت سے ہمیشہ ہوا کے رخ پر رکھتی ہے جس سے ہر عام و خاص کو یہ علم ہوجاتا ہے کہ اس وقت ہوا کس رخ سے چل رہی ہے۔ آج میں آپ کو بتاتا ہوں کہ سب سے پہلے ہوا کا رخ بتانے والا یہ آلہ، یعنی مرغِ بادنما بنانے کا خیال کیسے آیا۔
کسی گاؤں کے ایک گھر میں ایک بہت خوبصورت تیز براؤن رنگ کی ایک مرغی پلی ہوئی تھی۔ یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اس کا زمیندار ایک اچھی شہرت کا مالک تھا اور گاؤں والوں کا بہت خیال رکھا کرتا تھا۔ مرغی کسی کے گھر میں ضرور رہتی تھی لیکن اس نے اپنے لئے گھر سے کچھ دور اپنا ایک گھر بنایا ہوا تھا۔ سات انڈے دینے کے بعد ہی وہ کڑک ہو گئی۔ جب مرغی کڑک ہوجاتی ہے تو وہ انڈے دینا بند کر دیتی ہے اور اگر اس کے نیچے کوئی انڈے رکھ دے تو وہ ان انڈوں کو اپنے پروں سے ڈھانپ کر ان پر بیٹھ جاتی ہے اور اللہ کی قدرت سے ٹھیک بیس اکیس دنوں کے بعد انڈوں سے بچے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مرغی کے پاس تو اپنے ہی انڈے تھے اس لئے اسے اس بات کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ کوئی اس کیلئے انڈوں کا انتظام کرتا۔ وہ دن رات انڈوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی رہی۔ کبھی کبھی دانہ چگنے، پانی پینے یا کسی بہت ہی ضروری کام کی وجہ سے وہ بے شک انڈوں کو چھوڑ کر اٹھ جایا کرتی تھی ورنہ وہ انڈوں پر ہی بیٹھی رہتی تھی۔ ٹھیک اکیسویں دن اس میں سے بچے نکلنا شروع ہو گئے۔ پہلے دن چاربچے نکلے اور دوسرے دن صبح کے وقت دو اور نکل آئے۔ ایک انڈے میں لگتا تو تھا کہ بچہ انڈا توڑ کر باہر آنے کی کوشش کررہا ہے لیکن شاید کمزوری کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو پارہا تھا۔ یہ دیکھ کر مرغی نے چونچ مار کر انڈا توڑ دیا لیکن اس میں سے جو بچہ نکلا اس کو دیکھ کر مرغی حیران بھی رہ گئی اور گھبرا بھی گئی جبکہ مرغی کے دیگر بچے سہم کر رہ گئے۔ وہ بچہ تو بالکل ایسا تھا جیسے کسی بچے کو سر سے ناف تک کاٹ کر آدھا کردیا جائے۔ یہ عجیب و غریب بچہ گو کہ عجیب الخلقت تھا لیکن تھا تو اسی کا بچہ۔ یہ حیرانیچ اور گھبراہٹ تو ایک فطری عمل تھا اس لئے مامتا فوراً ہی بیدار ہوئی لیکن مرغی یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ وہ اس کے دیگر بچوں کی طرح چست و چالاک ہو گیا اور عام چوزوں کی طرح بھاگنے دوڑنے اور کھانے پینے لگا۔ چند ہی دنوں میں وہ عام بچوں سے کہیں زیادہ تن و مند اور شریر ہو گیا۔ ادھورا اور عجیب و غریب ہونے کے باوجودوہ نہ جانے کیوں آنکھوں کو بھانے لگا تھا اور اس کے سارے بہن بھائی (چوزے) اس کے ساتھ بہت ہی خوش رہتے تھے۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا اس کی جسامت تمام بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھنے لگی۔ مرغی کو کوئی اور فکر تو نہیں تھی البتہ وہ سوچتی تھی کہ اگر وہ گھر سے باہر نکلا تو اس عجیب و غریب چوزے کو دیکھ کر کوئی نہ کوئی اسے اچک لے گا اور پھر معلوم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہو اس لئے اس نے سختی سے ہدایت کردی تھی کہ وہ گھر سے باہر ایک قدم بھی نہ نکالے۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے باقی چوزوں کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے اس بھائی کا خیال رکھیں اور اسے کبھی باہر نہ جانے دیں۔ سب چوزے اس کا ہر وقت دھیان رکھا کرتے تھے اور جب جب بھی وہ گھر سے باہر جانے کی کوشش کرتا، سب اسے پکڑ کر گھر میں لے آیا کرتے تھے۔
وقت گزرتا گیا اور ادھورا چوزہ حیرت انگیز طور پر اپنی جسامت بڑھاتا گیا۔ ایک دن جب صبح ہی صبح مرغی اور اس کے چوزے بیدار ہوئے تو اس ادھورے چوزے کو انھوں نے اپنے درمیان نہ پاکر ایک دم پریشانی کا اظہار کرنا شروع کردیا۔ سب مل کر گھر سے باہر نکل کھڑے ہوئے اور پورے گاؤں میں اسے تلاش کیا لیکن اس کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ رودھو کر گھر آ گئے۔ کوئی بڑے سے بڑا غم ہی کیوں نہ ہو ایک دن صبر آہی جاتا ہے۔ کئی دنوں کی تلاش کے بعد جب وہ نہ ملا تو آخر صبر آہی گیا۔
اب اس ادھورے بچے کا احوال بھی سنو۔ وہ ایک غریب کسان کے ہاتھ لگ گیا۔ پہلے تو اسے دیکھ کر وہ خوف زدہ ہوا کہ کہیں یہ کوئی بلا ہی نہ ہو۔ اتنا بڑا مرغا اس نے زندگی میں نہیں دیکھا تھا اور وہ بھی ادھورا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ یہ عجیب الخلقت مرغا، مرغا ہی ہے تو اس نے اسے کسی نہ کسی ترکیب سے پکڑ ہی لیا۔ اس نے سوچا کہ وہ اسے گھر میں تو رکھ ہی نہیں سکتا اس لئے کہ اسے دیکھ کر اس کے بچے کہیں ڈر ہی نہ جائیں۔ لہٰذا کیوں نہ اسے گاؤں کے زمیندار کے کے پاس لے جاؤں ممکن ہے کچھ اچھی رقم مل جائے۔ گاؤں کے زمید ار نے ایسے حیرت انگیز اور منفرد مرغے کو دیکھا تو بہت ہی حیران ہوا اور اچھی رقم کے عوض اسے خرید لیا۔ اس کیلئے ایک بہت ہی خوبصورت پنجرہ بنایا اور اسے اس میں قید کردیا۔ مرغی کے اس بچے نے قید کی زندگی کب دیکھی تھی۔ رات دن اسے اپنے بہن بھائی اور ماں یاد آتی اور وہ سوچتا تھا کہ اگراس نے اپنی ماں کی ہدایت پر عمل کیا ہوتا اور گھر سے باہر نہ نکلا ہوتا تو آج یہ دن کیوں دیکھنے پڑتے۔ یہی غم اس کی موت کا سبب بن گیا۔ لیکن ایک عجیب و غریب بات یہ ہوئی کہ اس کا بدن کسی دھات کی طرح سخت ہو گیا، وہ نہ تو گلا اور نہ ہی سڑا۔گاؤں کے زمیندار کو کئی دن بعد خبر ہوئی تو وہ مرغے کی اس بدلی ہوئی حالت دیکھ کر دنگ رہ گیا کیونکہ اسے دفن بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اچانک اس کو ایک ترکیب سمجھ میں آئی کہ کیوں نہ اسے ہوا کا رخ جاننے کیلئے کسی گھومنے والی سلاخ میں گھر کی چھت پر لگالیا جائے تاکہ پورے گاؤں کو ہوا کا رخ معلوم ہو سکے اور وہ فصلوں پر دوائیوں کا اسپرے کرتے ہوئے ہوا کے رخ کا خیال رکھ سکیں۔ چنانچہ اس نے اس مرغے کو گھر کی چھت پر نصب کر دیا۔
بھائی بہنوں (چوزوں) کا کیا حال رہا ہوگا اللہ ہی جانے لیکن ماں تو ماں ہی ہوتی ہے۔ ایک دن وہ اپنے بچوں کو ساتھ لیکر پھر سیاپنے بچے کی تلاش میں نکلی تو دور سے اسے زمیندار کے گھر کی چھت پر اپنے بچے جیسا ایک مرغا ہوا کا رخ بتاتے دکھائی دیا۔ قریب پہنچ کر بات سچ ثابت ہوئی۔ اسے اپنے بچے کے مرجانے کا بہت صدمہ تو ہوا لیکن یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ مرنے کے بعد بھی پورے گاؤں والوں کے کام آرہا ہے۔

حصہ