اللہ کا فیصلہ

956

سید مہرالدین افضل
سورۃ الانفال کے مضامین کا خلاصہ
انیسواں حصہ
( تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الانفَال حاشیہ نمبر :25،26، 27،28،29،30 )
سورۃ الانفال آیت 30 تا 38 :
ان آیات میں خطاب اہلِ ایمان سے ہے لیکن طرزِعمل اہلِ کفر کا بیان کیا جارہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ غلط فہمیاں دور کی جائیں… اور دنیا اور آخرت کے برے انجام سے قبل از وقت آگاہ کردیا جائے۔
اللہ پر بھروسا:
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ سے باغی انسان اس قدر غالب تھے کہ وہ یہ فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھ گئے کہ آپؐ کو قید کریں؟ ملک بدر کریں؟ یا قتل کردیں؟ اور سب نے مل کر آپؐ کے قتل کا فیصلہ کرلیا، قتل کے لیے آدمیوں کا انتخاب بھی ہوگیا، اور وقت بھی مقرر کردیا گیا… یہاں تک کہ جو رات اس کام کے لیے تجویز کی گئی تھی، اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا۔ یہی موقع ہے جسے اللہ تعالیٰ یاد دلا رہا ہے: ’’وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کردیں یا قتل کرڈالیں یا جلا وطن کردیں‘‘(سورۃ الانفال، آیت 30)۔ لیکن ان کا ہاتھ پڑنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی مدد سے، ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے، اور ان کی بنی بنائی تدبیر عین وقت پر ناکام ہوکر رہ گئی۔ ’’وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا، اور اللہ سب سے بہترین چال چلنے والا ہے‘‘ (سورۃ الانفال، آیت 30)۔ پیغام یہ ہے کہ یہ تحریک تو اُسی دن ختم ہوسکتی تھی اگر اللہ کافروں کی چال کامیاب ہونے دیتا۔ اہلِ ایمان کو یہ موقع یاد رکھنا چاہیے، اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت قیامت تک کے لیے ہے… اور یہ دین بھی قیامت تک کے لیے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کس طرح اور کتنی جدوجہد کررہے ہیں اور ہمارا بھروسا اللہ پر کتنا ہے۔
قریش کی غلط فہمیاں:
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں قرآن کی آیات سناتے تو یہ کہتے کہ ’’ہاں سن لیا ہم نے، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں، یہ تو وہی پرانی کہانیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں‘‘ ( سورۃ الانفال، آیت 31)۔ انہیں غلط فہمی یہ تھی کہ اگر واقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہوتے اور قرآن اللہ کا کلام ہوتا، تو اس کو نہ ماننے کی صورت میں ہم پر عذاب آجاتا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چیلنج دیتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو لے آئو عذاب۔ اور اللہ سے دعا کرتے تھے ’’خدایا اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ‘‘ (سورۃ الانفال، آیت 32)۔ یہ دعا نہ تھی بلکہ چیلنج تھا…کہ اگر واقعی یہ حق ہوتا، اور اللہ کی طرف سے ہوتا، تو اس کے جھٹلانے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم پر آسمان سے پتھر برستے، اور عذابِ الیم ہمارے اوپر ٹوٹ پڑتا۔ مگر جب ایسا نہیں ہوتا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نہ حق ہے… نہ اللہ کی طرف سے ہے۔ انہیں جواب دیا گیا کہ جب تک آپؐ مکہ مکرمہ میں موجود تھے… اور جب تک ایک ایک کرکے لوگ آپؐ کی دعوت قبول کررہے تھے، اُس وقت تک اللہ کا عذاب نہیں آیا، کیوں کہ ’’اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جب کہ تُو ان کے درمیان موجود تھا۔ اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کررہے ہوں اور وہ اُن کو عذاب دے دے‘‘ (سورۃ الانفال، آیت 33)۔ لیکن جب انہوں نے آپؐ کو مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور کردیا ، اور آپؐ کے ساتھ اہلِ ایمان بھی وہاں سے ہجرت کر گئے… اور انہوں نے عرب کے عام قاعدے کے برخلاف ان لوگوں کا مسجد حرام میں داخلہ بھی بند کردیا۔ پھر انہوں نے اس سے بھی سبق حاصل نہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ کر کیسی صالح معاشرت قائم کررہے ہیں ، اور کیسی عادلانہ حکومت چلا رہے ہیں، بلکہ ان کی غلط فہمیوں نے انہیں مزید غرور و تکبر پر ابھارا، اور انہوں نے مدینہ طیبہ پر حملہ کردیا۔ تب اللہ کا فیصلہ آگیا ’’پس اب لو، اِس عذاب کا مزاچکھو اپنے اُس انکارِ حق کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو‘‘ (سورۃ الانفال، آیت 35)۔ یہاں یہ غلط فہمی بھی دور کردی گئی کہ اللہ کا عذاب آسمان سے کسی اچانک مصیبت کے طور پر ہی آسکتا ہے… یا کسی بھی طرح قابو میں نہ آنے والی اچانک آفت کے طور پر آسکتا ہے۔ یہاں انہیں بتایا گیا ہے کہ جنگِ بدر میں اُن کی فیصلہ کن شکست، جس کی وجہ سے اسلام کے لیے زندگی… اور قدیم نظامِ جاہلیت کے لیے موت کا فیصلہ ہوا ہے… دراصل ان کے حق میں اللہ کا عذاب ہی ہے۔
اس موقع پر ایک اور چیز کو بھی عام عرب کے لیے اور رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لیے واضح کردیا گیا کہ: اللہ کے گھر کی دیکھ بھال اُن لوگوں کا کام ہے جو اللہ سے ڈرنے والے، پاکیزگی اختیار کرنے والے اور اپنی عبادات کو سنجیدگی سے ادا کرنے والے ہوں۔ سردارانِ قریش کی غلط فہمی تھی کہ… ہم اللہ کے گھر کے منتظم ہیں، بیت اللہ کی خدمت کرتے ہیں… اس لیے ہم پر اللہ کا خاص فضل ہے ۔ عام طور پر اہلِ عرب بھی اسی دھوکے میں تھے۔ اس کے رد میں ارشاد ہوا: ’’صرف وراثت کے حق سے کوئی شخص یا گروہ کسی عبادت گاہ کا جائز منتظم اور سرپرست نہیں ہوسکتا… بلکہ اس کے حق دار صرف خدا ترس اور پرہیزگار لوگ ہی ہوسکتے ہیں۔ جب کہ سردارانِ مکہ کا حال یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو، جو خالص خدا کی عبادت کرنے والے ہیں، وہاں آنے سے روکتے ہیں… جو کہ اللہ کی خالص عبادت کے لیے ہی وقف کی گئی تھی۔ اس طرح یہ لوگ خادم کے بجائے اس عبادت گاہ کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ اور اپنے آپ کو اس بات کا مختار سمجھنے لگے ہیں کہ جس سے یہ ناراض ہوں اسے عبادت گاہ میں نہ آنے دیں۔ یہ حرکت ان کے خداترس اور پرہیزگار نہ ہونے کی کھلی دلیل ہے۔ پھر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو عبادت یہ بیت اللہ میں کرتے ہیں ، اس کا اثر نہ ان کے دل پر ہے، نہ ان کے جسم پر ہے، نہ اللہ کی طرف توجہ ہے اور نہ ہی زبان پر اللہ کا نام ہے… بس ایک بے معنی شور شرابہ اور کھیل کود ہے جس کا نام انہوں نے عبادت رکھ لیا ہے۔ بیت اللہ کی ایسی نام نہاد خدمت اور ایسی جھوٹی عبادت پر یہ اللہ کے فضل کے نہیں بلکہ عذاب کے مستحق ہیں۔ ارشاد ہوا: ’’وہ اس مسجد کے جائز متولّی نہیں ہیں۔ اس کے جائز متولّی تو صرف اہلِ تقویٰ ہی ہوسکتے ہیں، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔ بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے، بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں‘‘ (سورۃ الانفال آیت 34۔35)۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ پر ایمان لانے والوں کی بیت اللہ میں کی جانے والی عبادت کو عام اہلِ عرب کے سامنے پیش کردیا گیا۔یہ ایک ایسا فرق تھا، جسے عام آدمی پہلی ہی نظر میں محسوس کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ مکانِ محترم کعبہ کا انتظام اب چند سال بعد ہی اہلِ ایمان کے ہاتھوں میں آنا تھا… اس لیے عام لوگوں کو بھی ذہنی طور پر اس کی حمایت کے لیے تیار کیا گیا، اور اہلِ ایمان پر بھی واضح کردیا گیا کہ مکانِ محترم کی دیکھ بھال کی ذمہ داری جب ہاتھ میں آئے تو تقویٰ کی روش کو نہ چھوڑیں۔ آیت نمبر 36، 37، 38 میں ارشاد ہوا: ’’جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لیے صَرف کررہے ہیں… اور ابھی وہ خرچ کرتے رہیں گے۔ مگر آخر کار یہی کوششیں اُن کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی… پھر وہ مغلوب ہوں گے… پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر کر لائے جائیں گے تاکہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے، اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے ، پھر اس پلندے کو جہنم میں جھونک دے، یہی لوگ اصلی دیوالیے ہیں۔ اے نبیؐ، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آجائیں تو جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اس سے درگزر کرلیا جائے گا، لیکن یہ اگر اُسی پچھلی روِش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہوچکا وہ سب کو معلوم ہے‘‘۔ اس سے بڑھ کر دیوالیہ پن اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسان جس راہ میں اپنا تمام وقت، تمام محنت، تمام قابلیت، اور پورا سرمایۂ زندگی کھپا دے، اُس کی انتہا پر پہنچ کر اسے معلوم ہو کہ وہ اسے سیدھی تباہی کی طرف لے آئی ہے… اور اس راہ میں جو کچھ اس نے کھپایا ہے اس پر کوئی سود یا منافع پانے کے بجائے اسے الٹا جرمانہ بھگتنا پڑے گا۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ