اللہ کے نور سے دیکھنے والے

531

سید مہرالدین افضل
سورۃ الانفال کے مضامین کا خلاصہ
اٹھارہواں حصہ
(تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الانفال حاشیہ نمبر:24 سورۃ الفرقان حاشیہ نمبر:2 سورۃ البقرہ حاشیہ نمبر:69 سورۃ الانبیا حاشیہ نمبر:50)
الفرقان:
فرقان کا لفظ قرآن مجید میں سات مقامات پر آیا ہے، سورۃ البقرہ آیت 53 میں ارشاد ہوا ’’ہم نے موسیٰ ؑ کو کتاب اور فرقان عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پا سکو۔‘‘ (خطاب بنی اسرائیل سے ہے اور اللہ انہیں اپنا احسان یاد دلا رہا ہے کہ ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دے کر تمہارے پاس بھیجا تاکہ اُن دونوں کے ذریعے تم دین کا وہ علم اور فہم حاصل کر و جس سے آدمی حق اور باطل کو الگ الگ کر لیتا ہے۔) سورۃ البقرہ آیت 185 میں ارشاد ہوا: ’’رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔‘‘ سورۃ آل عمران آیت 1 تا 4 میں ارشاد ہوا ’’ا۔ ل۔ م۔ اللہ، وہ زندۂ جاوید ہستی، جو نظامِ کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، حقیقت میں اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اُس نے تم پر یہ کتاب نازل کی، جو حق لے کر آئی ہے اور اُن کتابوں کی تصدیق کر رہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے تورات اور انجیل نازل کر چکا ہے اور اس نے وہ کسوٹی اتاری ہے جو حق اور باطل کا فرق دکھانے والی ہے۔ اب جو لوگ اللہ کے فرامین کو قبول کرنے سے انکار کریں، ان کو یقیناً سخت سزا ملے گی۔ اللہ بے پناہ طاقت کا مالک ہے اور بُرائی کا بدلہ دینے والا ہے۔ (ان آیات میں خطاب مسلمانوں سے ہے‘ انہیں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نے تمہیں حق اور باطل میں فرق دکھا دینے والی چیز عطا کی ہے۔ سورۃ انفال آیت 41 میں ارشاد ہوا ’’اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول ؐ اور رشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز، یعنی دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ کے دن، ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی،تو یہ حصہ بہ خوشی ادا کرو‘ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (یہاں غزوۂ بدر کے دن کو ’’یوم الفرقان‘‘ کہا گیا ہے یعنی وہ دن جس میں اللہ تعالی نے یہ دکھا دیا کہ حق کس کے ساتھ ہے اور کون باطل پر تھا۔)سورۃ الانبیا آیت 48 میں ارشاد ہوا ’’پہلے ہم موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور ’’ذکر‘‘ عطا کر چکے ہیں اُن متقی لوگوں کی بھلائی کے لیے جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈریں اور جن کو حساب کی اُس گھڑی کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔‘‘ (یہاں تما م انسانوں کو خطاب کرکے کہا جا رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو چیز پیش کر رہے ہیں، یہی ہم اس سے پہلے موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کو بھی دے چکے ہیں، لیکن اس سے فائدہ وہی اٹھا سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت کے حساب سے ڈرنے والے ہوں۔ سورۃ الفرقان کی پہلی ہی آیت میں ارشاد ہوا ’’نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو۔‘‘ (یہاں قرآن مجید اور حضورؐ کو معیارِ حق قرار دیا گیا ہے۔) اُن تمام مقامات کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اہل ایمان کو کسوٹی عطا کرنے کی پیش کش غزوۂ بدر میں کامیابی کے بعد ہوئی ہے کیوں کہ اب اُنہیں صرف مدینے ہی میں نہیں بلکہ پورے عرب میں اور پھر تمام عالم میں حکومت کرنی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس معیار پر لے آئیں جس کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں حق و باطل کے درمیان فرق جاننے کی صلاحیت عطا فرما دے۔
اہلِ ایمان کے لیے اللہ کی پیشکش:
سورۃ الانفال آیت 29 میں ارشاد ہوا ’’اے ایمان لانے والو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کرے گا اور تمہارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔‘‘ (عربی میں لفظ ’’فرقان‘‘ استعمال ہوا ہے مولانا مودودی ؒ نے اس کا ترجمہ ’’کسوٹی‘‘ کیا ہے جس کے معنی فیصلہ کرنے والی چیز اور معیار فیصلہ (Criterion) کے ہیں۔ اس سے پہلے یہ لفظ سورۃ الفرقان میں آیا ہے جہاں قرآن مجید اور حضورؐ کو فرقان قرار دیا گیا ہے۔ارشاد ہوا ’’نہایت متبرک ہے وہ جس نے یہ فرقان اپنے بندے پر نازل کیا تاکہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو۔‘‘ سورۃ الانفال اور سورۃ الفرقان کے نزول کے درمیان پانچ سال کا فاصلہ… یعنی اس پانچ سال کے عرصے میں اہلِ ایمان قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قر بت اور صحبت میں رہ کر یہ جان چکے ہیں کہ کو ن سے اعمال اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہیں اور کون سے اعمال اللہ کو نا پسند ہیں اور وہ ہر موقع پر ٹھہر کر یہ سوچتے ہیں کہ کہیں یہ قدم، یہ راہ اور یہ عمل اللہ کو ناپسند تو نہیں۔ اسی مشکل کا حل اہلِ ایمان کو اس پیش کش کے ذریعے دیا گیا ہے کہ اگر تم یہ ارادہ کر لو کہ تمہارا ہر عمل اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہو گا‘ تو ہم تمہارے اندر ایک ایسی چیز فٹ کر دیں گے جس سے ہر موقع پر تمہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ کون سا رویہ صحیح ہے اور کون سا غلط‘ کس رویے میں خدا کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضی۔ زندگی کے ہر موڑ، ہر دوراہے، ہر نشیب اور ہر فراز پر تمہاری اندرونی بصیرت تمہیں بتائے گی کہ کدھر قدم اُٹھانا چاہیے اور کدھر نہ اٹھانا چاہیے‘ کون سی راہ حق ہے اور خدا کی طرف جاتی ہے اور کون سی راہ باطل ہے اور شیطان سے ملاتی ہے۔ آج مسلمان ہو یا غیر مسلم اپنے اعمال کے بارے میں عدم اطمینان کا شکا ر ہے!!! ایک غیر مسلم‘ جس کو یہ فکر نہیں کہ اُس کے اعمال کا آخرت میں کیا نتیجہ نکلے گا‘ ا س لیے غیر مطمئن ہے کہ معلوم نہیں کہ جو کام یا اقدام وہ کر رہا ہے وہ اس کے لیے بہتر نتیجہ لائے گا یا نہیں؟ اس عدم اطمینان کی وجہ سے زیادہ تر لوگ تو اقدام کرنے سے ہی رک جاتے ہیں اور زندگی بھر پچھتاتے رہتے ہیں۔ جب کہ جو لوگ اقدام کرتے ہیں وہ یقین کے ساتھ اقدام نہیں کرتے بلکہ ’’رسک‘‘ لیتے ہیں۔ دونوں طرح کے لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں اہلِ ایمان کے لیے یہ پیش کش بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن اس نعمت کو پانے کے لیے ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن و سنت کا علم حاصل کرے۔ یہ علم ہی اُسے وہ قلبی کیفیت عطا کرے گا جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی مرضی کو جاننے کی خواہش اور پانے کی کوشش کرے گا۔ یہ کوئی فزیکل وجود رکھنے والی چیز نہیں جو خارج میں موجود ہو بلکہ یہ’’بِلٹ اِن‘‘ صلاحیت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے میں پیدا کر دیتا ہے۔ یہ پیشکش عام ہے اور ہر صاحبِ ایمان اسے حاصل کر سکتا ہے اور اس کے حصول کے لیے اسے درباروں اور خانقاہوں میں جانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کوئی چلّہ کاٹنے اور وظائف کا ورد کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ پر ایمان کے ساتھ ہی بندے کا تعلق اللہ سے جڑ گیا، اب اسے قرآن و سنت کا علم حاصل کرنا ہے۔ اس علم سے اسے یہ معلوم ہو گا کہ کچھ کام ایسے ہیں جن سے اللہ خوش ہو تا ہے‘ ان کاموں کو وہ کرے گا۔ اور کچھ کام ایسے ہیں جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے اُن کاموں کو وہ چھوڑ دے گا۔ لیکن بہت سے معاملاتِ زندگی ایسے ہوتے ہیں جن میں اُسے کوئی دو ٹوک ہدایت نہیں ملتی اور اس کی وجہ بھی اس کی کم علمی اور بعض اوقات کم فہمی ہوتی ہے۔ اس موقع پر اُس بندے کو دَر دَر کی خاک چھاننے کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے وہ کسوٹی عطا فرما دیتا ہے جس سے ہر موقع پر اُسے خود معلوم ہو جاتا ہے کہ کون سا رویہ صحیح ہے اور کون سا غلط، کس رویے میں خدا کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضی؟ کون سی تعلیم حاصل کرنی ہے اور کون سی نہیں؟ بچوں کو کیا تعلیم دلانی ہے؟ ضروریات سے بچا ہوا سرمایہ کہاں انویسٹ کرنا ہے؟ کہاں جائداد بنانی ہے؟ کون سا کاروبا ر کیا جاسکتا ہے اور کون سا نہیں؟کس سے دوستی کرنی ہے کس سے نہیں؟ اسی طرح اجتماعی معاملات میں جس سطح کا بھی وہ ذمے دار ہو اُسے صاف نظر آنے لگتا ہے کہ کن معاملات کو ابھی چھیڑنا ہے اور کن کو نہیں۔ کس گروہ اور جماعت سے قربت اختیار کرنی ہے اور کس سے نہیں۔ کس ملک سے کس طرح کے تعلقات قائم کرنے ہیں۔ غرض انسان وہی کرنے لگتا ہے جس سے اللہ خوش ہو اور ہر اُس چیز سے بھاگنے لگتا ہے جو اللہ کو ناپسند ہو اوراُسے زندگی کے ہر موڑ، ہر دوراہے، ہر مشکل اور ہر آسانی میں اس کی اندرونی بصیرت بتانے لگتی ہے کہ کدھر قدم اُٹھانا چاہیے اور کدھر نہ اٹھانا چاہیے، کون سی راہ حق ہے اور اللہ کی طرف جاتی ہے اور کون سی راہ باطل ہے اور شیطان سے ملاتی ہے۔ قرآن مجید تما م انسانوں کے لیے ہدایت ہے۔ اسلام سب کے لیے ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے رحمت ہیں۔ لیکن یہ پیش کش صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو اللہ اور رسولؐ پر ایمان رکھتے ہوں‘ اللہ اور رسولؐ کا حکم مانتے ہوں اور اللہ کی راہ میں اجتماعی جدوجہد کرتے ہوئے ایسے مقام پر پہنچ جائیں جہاں ہر قدم پر کئی موڑ آ جاتے ہوں۔ اُن مختلف راستوں میں سے درست راستے کا انتخاب وہی کر ے گا جو اللہ اور یومِ حساب سے ڈرتے ہوئے اپنا ہر فیصلہ کرے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ