عملے کی تربیت۔۔۔۔ تربیت کا عملہ

350

زاہد عباس
’’ہیلو ہیلو… کہاں ہو، جلدی سے آ جاؤ، میں اس وقت ویٹا چورنگی پر زخمی حالت میں پڑا ہوں، ایک رکشے نے مجھے مار دیا ہے، مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا، جلدی آجاؤ پلیز، بہت خون بہہ رہا ہے۔‘‘
اپنے کزن کا فون سنتے ہی میرے اوسان خطا ہوگئے… خدا خیر کرے کیا ہوا ہوگا، نہ جانے کہاں چوٹ آئی ہوگی… آواز سے تو وہ شدید زخمی معلوم ہورہا تھا۔ فون سنتے ہی میری اعصابی کیفیت میرے اختیار سے باہر ہونے لگی۔ مجھے کچھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا، بس اُس کی آواز سنتے ہی اپنی موٹر سائیکل کا رخ کورنگی انڈسٹریل ایریا کی جانب موڑ دیا اور گاڑیوں کے رش کو چیرتا ہوا تیزی سے ویٹا چورنگی جاپہنچا، جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد تو موجود تھی لیکن میرا کزن کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں پریشانی کے عالم میں کبھی ایک طرف تو کبھی سڑک کی دوسری جانب جا کر اپنے زخمی کزن کے بارے میں لوگوں سے پوچھتا رہا۔ اسی دوران سڑک کے ساتھ قائم ہوٹل کے عملے نے بتایا کہ یہاں ابھی ایکسیڈنٹ ہوا تھا، زخمی شخص کو ایدھی ایمبولینس لے گئی ہے… کہاں اور کس اسپتال لے گئی ہے کسی کے پاس بھی اس بارے میں کوئی خبر نہ تھی، جبکہ میرے کزن کا موبائل فون بھی مسلسل بند جارہا تھا۔ اب میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جلد سے جلد اُس اسپتال پہنچ سکوں جہاں اسے شفٹ کیا گیا ہے۔ ابھی اسی کشمکش میں تھا کہ مجھے فون پر اطلاع ملی کہ آپ کے کزن کو کورنگی کراسنگ کے نزدیک ایک این جی او کے زیرسرپرستی چلنے والے اسپتال میں پہنچا دیا گیا ہے۔ گو کہ آنے والی کال کسی دوسرے نمبر سے تھی لیکن میرے نزدیک نمبر سے زیادہ اہم کزن کے بارے میں ملنے والی اطلاع تھی، سو میں چند ہی منٹوں میں کورنگی کراسنگ پر قائم متعلقہ اسپتال کے شعبۂ حادثات جا پہنچا، جہاں کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے بتایا کہ یہاں رزاق نامی کوئی مریض نہیں لایا گیا۔
کہاں گیا ہوگا؟ میرے نمبر پر آنے والا فون کس کا تھا؟ اطلاع دینے والا کون تھا؟ یہ، اس جیسے کئی سوالات میں الجھا ذہن لیے اور اطلاع دینے والے کو کال ملاتے ہوئے میں جیسے ہی ایمرجنسی وارڈ سے باہر نکلا میری نگاہ سامنے اسٹریچر پر لیٹے درد سے کراہتے اپنے کزن پر پڑی۔ میں دوڑاتا ہوا اُس کے قریب جا پہنچا۔ اُس کے جسم پر لگے زخم دیکھ کر اُس کی انتہائی پیچیدہ حالت کا اندازہ ہورہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے کچھ بتاتا، میں اُس کا اسٹریچر کھینچتا ہوا ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوگیا، لیکن دوسرے ہی لمحے مجھے وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکال دیا گیا کہ اسپتال کے قانون کے مطابق شعبۂ حادثات کے لیے کاؤنٹر سے ٹوکن بنوانا لازمی ہے، یعنی قطار میں کھڑے ہوکر انٹری کروانے کے بعد ہی مریض چیک کروایا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے بنائے ہوئے قانون پر مسلسل بضد رہے، میں خاصی دیر تک اسپتال کے عملے خصوصاً سیکورٹی پر مامور افراد کی منتیں کرتا رہا، مگر اُن پر نہ تو میری التجاؤں کا کوئی اثر ہورہا تھا اور نہ ہی زخموں سے چُور شدید درد میں مبتلا میرے کزن کی بگڑتی حالت کا کوئی اثر… ابتدائی طبی امداد دینا تو دور کی بات ہے، اُن کے رویوں سے یوں ظاہر ہوتا جیسے یہ اسپتال انہی کی ملکیت ہو اور ان کے ذاتی پیسوں سے ہی چلایا جارہا ہو۔ میں کر بھی کیا سکتا تھا سوائے اُن کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کرنے کے…! سو میں بھی دوسرے مریضوں کی طرح ٹوکن کاؤنٹر پر لگی قطار میں جاکھڑا ہوا جہاں ٹوکن بنانے والے صاحب چائے کی چسکیاں لینے میں مصروف تھے۔ میں خاصی دیر اس قطار میں کھڑا رہا جہاں ٹوکن بنانے کے نام پر نہ صرف مریضوں کا بائیوڈیٹا اکٹھا کیا جارہا تھا بلکہ ان غریب مریضوں کی جانب سے دی جانے والی معلومات کو آن لائن بھی کیا جا رہا تھا۔ اس دوران میں کبھی ایمرجنسی کی راہداری میں پڑے اپنے کزن رزاق کو دیکھتا، تو کبھی ڈیٹا جمع کرنے والے کو… خیر، اللہ اللہ کرکے میرا نمبر بھی آگیا، اور تمام معلومات حاصل کرنے کے بعد مجھے بھی ایک کارڈ بناکر دے دیا گیا۔ ٹوکن ملتے ہی میں ایک مرتبہ پھر ایمرجنسی وارڈ جا پہنچا جہاں دُکھی انسانیت کی خدمت کی اہم ذمہ داری کے منصب پر فائز شخص نے مجھ سے ٹوکن لیتے ہوئے کہا: آپ باہر جاکر کھڑے ہوجائیں، جب آپ کا نمبر آئے گا تو آپ کے مریض کو دیکھ لیا جائے گا۔ نمبر آنے پر ایمرجنسی وارڈ سے باقاعدہ اعلانات کی صورت میں مریضوں کو پکارا جارہا تھا۔ اتنی دیر یہاں گزارنے کے بعد میں سمجھ چکا تھا کہ اس اسپتال کے عملے کی جانب سے دی جانے والی ہدایات آخری اور حتمی ہوا کرتی ہیں، لہٰذا خاموش ہورہا… اور پھر دھتکارے جانے سے کہیں بہتر خاموش رہنا ہی تھا۔ سخت سردی، اس پر کھلی جگہ… یہ عوامل کسی بھی مرض میں مبتلا مریض کے لیے ویسے ہی خطرناک ہوا کرتے ہیں، پھر یہاں تو زخموں سے چُور ایکسیڈنٹ زدہ اُس شخص کو نظرانداز کیا جارہا تھا جس کی چیخوں کے گواہ اسپتال کے در و دیوار بھی تھے۔ میں بار بار رزاق کو ایمرجنسی وارڈ میں لے جانے کی التجا کرتا رہا لیکن ہر بار مجھے ناامید ہی لوٹنا پڑتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حالت مزید خراب ہوتی جارہی تھی، تقریباً تین گھنٹے ایمرجنسی وارڈ کے سامنے گزارنے کے بعد مجھے بھی دوسرے مریضوں کی طرح بذریعہ مائک اندر جانے اجازت دے دی گئی۔
وارڈ میں تعینات عملے کا رویہ بھی اپنے پیٹی بھائیوں سے کچھ مختلف نہ تھا۔ ان کی جانب سے بھی کسی قسم کی کوئی طبی امداد فراہم نہ کی گئی۔ خیر خاصی دیر بعد کیے جانے والے ایکسرے اور ضروری ٹیسٹوں کے نتیجے میں جسم پر آنے والے گہرے زخموں سمیت ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ جانے کی تشخیص ہوگئی۔ یہاں بھی مریضوں سے متعلق تمام ریکارڈ یعنی شوگر، بلڈ پریشر، خون و ایکسرے سمیت کی جانے والی تمام رپورٹس کو ایک فائل کی صورت کمپیوٹر میں محفوظ کیا جارہا تھا۔
اب چونکہ تشخیصی عمل مکمل ہو چکا تھا اس لیے میں رزاق کے لیے طبی امداد کے انتظار میں تھا۔ میری آنکھیں ابھی ڈاکٹر کی راہیں تک ہی رہی تھیں کہ مجھے بیڈ خالی نہ ہونے کا کہہ کر جناح اسپتال جانے کے احکامات دے دیے گئے۔ اس طرح کے احکامات دوسرے مریضوں کو بھی دیے جارہے تھے۔ کئی گھنٹے سے زخمی مریض کو طبی امداد دیے بغیر جناح اسپتال لے جانے کی ہدایت بجلی گرنے سے کم نہ تھی۔ لیکن پھر خاصی منت سماجت کے بعد اسے بیڈ دے دیا گیا اور دو دن بعد آپریشن ہوگیا۔ رزاق آپریشن کے بعد چنگا بھلا ہوکر گھر آگیا، لیکن جب تک وہ وہاں داخل رہا دورانِ علاج وہ عملے کے منفی رویّے کی ہی شکایت کرتا رہا۔
میرا کزن کے ایکسیڈنٹ کے متعلق لکھنا کورنگی کراسنگ پر این جی او کے زیر سرپرستی چلنے والے اسپتال میں ہونے والی بدانتظامیوں اور مریضوں کے ساتھ عملے کے تضحیک آموز رویوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ گو کہ اس اسپتال میں غریبوں کا علاج مفت کیا جا رہا ہے، لیکن عملے اور انتظامیہ کا رویہ این جی او کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔ ظاہر ہے دنیا بھر میں شعبۂ حادثات کے معنی ہی فوری طبی امداد کے ہوا کرتے ہیں، جہاں حادثات کا شکار ہوکر آنے والوں کو بہتر طبی امداد فراہم کی جاتی ہے، جبکہ کورنگی کراسنگ پر قائم اس اسپتال کے شعبۂ حادثات میں آنے والوں کا ٹوکن کے حصول کے لیے لمبی قطار میں کھڑا ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے اقدامات سے نہ صرف ایمرجنسی کا مقصد فوت ہوجاتا ہے بلکہ آنے والے مریضوں کی زندگیوں کو بھی انتہائی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ’گڑ نہ دو،گڑ جیسی بات ضرور کرو‘۔ کسی بھی مریض کے ساتھ دو میٹھے بول بولنے سے اس کی آدھی بیماری ویسے ہی رخصت ہوجاتی ہے، اور پھر یہ پیشہ تو ویسے بھی انسان دوست اور دکھی انسانیت سے محبت کرنے کا پیشہ ہے۔ ایسی صورت میں مسیحاؤں کی جانب سے دھتکارا جانا کسی بھی مریض کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ شاید یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہر جگہ اَنا پرستی کا مظاہرہ کرتے ہیں،فلاحی ادارے غریبوں کی مالی مدد کے ساتھ ساتھ صحت و تعلیم کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ بے شک یہ انسانیت کے لیے بڑا کام ہے، اس سلسلے میں کسی بھی این جی او کے سربراہ یا گورننگ باڈی پر شک نہیں کیا جاسکتا، یہ خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غریبوں کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ کسی بھی فلاحی ادارے میں پیدا ہونے والے بگاڑ کے پیچھے اس سے منسلک عملے کا بڑا کردار ہوا کرتا ہے، مثلاً ایک ٹرانسپورٹر عوام کے لیے اچھی اور محفوظ بس سروس شروع کرتا ہے، ظاہر ہے بس تو ڈرائیور کو ہی چلانی ہوتی ہے، اب بس سروس تو معیاری ہو اور لوگوں کے ساتھ عملے کا رویہ بہتر نہ ہو، اس صورتِ حال میں وہ بس سروس ناکام ہوجائے گی۔ اس سروس کی ناکامی کے پیچھے کسی بھی طرح اس ٹرانسپورٹ کمپنی یا اس کے مالک کا کوئی کردار نہ ہوگا۔ دنیا بھر میں چلائی جانے والی ایئرلائنز کی مثال ہی لے لیجیے، اس شعبے میں ائیرہوسٹس کی باقاعدہ تربیت ہوا کرتی ہے، اسی لیے ایک بس کنڈیکٹر اور ایئرہوسٹس کے رویّے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، یعنی اچھی تربیت ہی اچھے اخلاق کی بنیاد ہے، اور پھر فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے کہ تم میں سب سے بڑھ کر ایمان اُس شخص کا ہے جو لوگوں میں اخلاق کے لحاظ سے بہتر ہے، اور جو نرمی اور شفقت کے ساتھ پیش آنے والا ہے۔
ہمارے ہاں جب تک تعلیم کے ساتھ تربیت کا عمل جاری رہا، اس میں عمدہ اخلاق کی تربیت کو بنیادی اہمیت حاصل رہی، اور ایک نسل کے اعلیٰ اوصاف دوسری نسل کو منتقل ہوتے رہے۔ یوں معاشرتی استحکام، رواداری اور بھائی چارے کی فضا قائم رہی۔ لیکن بدقسمتی سے جب ہمارے معاشرے میں اخلاقی اوصاف زوال پذیر ہوئے اور ان کی جگہ مادیت کا دور شروع ہوا، تو بنیادی انسانی اوصاف اور حسنِ کردار جو دلوں کو جوڑنے کا باعث بنتے ہیں، ہم اس سے عاری ہونا شروع ہوگئے۔ ظاہر ہے جب حسنِ کردار کو نظرانداز کیا جانے لگا تو بے چینی، معاشرتی انتشار اور بے امنی کا دور دورہ شروع ہوگیا۔ لہٰذا ہماری نسلیں ان بنیادی اخلاقی قدروں سے بہت دور ہوگئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں حسنِ اخلاق کہیں نظر نہیں آتا۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ جو کام ہمیں ہی کرنا ہے، وہ اخلاص سے کیوں ناں کرلیں۔
میری تحریر کا دوسرا مقصد اُن اداروں یا صاحبِ حیثیت لوگوں کو اس صورت حال آگاہی دینا ہے، تاکہ وہ عملے خصوصاً سیکورٹی پر مامور افراد کے رویوں میں تبدیلی کے لیے منصوبہ بندی کرسکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر تمام عملے کے لیے تربیتی پروگراموں کا سلسلہ شروع کیا جائے، جس کے لیے ایسے افراد کو منتخب کیا جائے جو باقاعدہ طور پر عملے کو ٹریننگ دے سکیں۔ ساتھ ساتھ ایمرجنسی وارڈ سے ٹوکن سسٹم ختم کرکے آنے والے مریضوں کو فوری طبی امداد دینے کا طریقہ کار اپنایا جائے۔ اسی طرح سے حقیقی خدمتِ خلق کی جاسکتی ہے۔

حصہ