حیا کا کلچر عام کرنا۔۔۔۔

985

قدسیہ ملک
آخری قسط
بچوں سے حقیقی تعلق:
والدین بچوں سے اپنے تعلق کو یقینی بنائیں۔بچوں کو کہانیاں سنانا سب سے اہم سرگرمی ہے۔یہ کام مائیں سب سے بہتر سر انجام دے سکتی ہیں۔ کہانیاں سناناچاہے وہ حقیقی ہوں یا تصوری—اپنے بچے کے ساتھ گھلنے ملنے کا ایک تفریحی طریقہ ہے۔کہانی سنانا جادوئی عمل ہو سکتا ہے۔ کہانیوں سیآپ کے بچے کی تخلیقی اور تخیالتی نشو و نماکے ساتھ ساتھاردگردکی دنیاکو سمجھنے میں مددملتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ بچے کی افسردگی کم کرنے اور ان کی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کے ساتھ مزید راحت کا احساس پیدا کرنے میں مدد کا ایک بہترین طریقہ بھی ہے۔ آخر میں، کہانیاں ایک طاقتور طریقہ ہے جس سے آپ کے بچے کو آپ کی گھریلو زبان بہتر طور پر سمجھنے میں اور بولنے میں مدد ملتی ہے – اور اس سے انہیں نئی زبان سیکھنے میں مددملے گی۔کہانیاں سنانے کے حوالے سے مشوریدرج ذیل ہیں۔
واضح اور آسان زبان استعمال کریں۔ آپ کا بچہ جو بھی کہے اس کو دہرائیں، تاکہ آپ کے بچے کو دکھائی دے کہ آپ کو کیا سمجھ میں آرہا ہے۔نئے الفاظ اور خیاالت سیکھنے میں اپنے بچے کی مددکریں۔جان پہچان کے لوگوں، جگہوں اور چيزوں کے بارے میں بات کریں۔نئے الفاظ اور خیاالت سیکھنے میں اپنے بچے کی مددکریں۔ ذاتی طور پر بامعنی چيزوں کے بارے میں بات کرنے کے مواقع فراہم کریں۔ سواالات پوچھیں اور سواالت کے جواب دیں۔ اپنے گھریلو زبان میں باتیں سنیں اور ساتھ مل کر بات کریں۔اپنے بچے کی پسندیدہ کہانیاں بار بار سنائیں۔ جب بھی ممکن ہو اپنے گھریلو زبان میں کہانیاں سنانے سے لطف اندوز ہوں۔
والدین کے کردار کی پاکیزگی:
والدین بچوں کے سامنے پاکیزگی اختیار کریں۔حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کھلی جگہ (میدان میں) ننگے نہاتے ہوئے دیکھا تو آپؐ منبر پر تشریف لائے، اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نہایت باحیا اور ستر پوش (عیب پوش) ہے، وہ حیا اور پردے کو پسند کرتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی شخص نہائے تو پردہ کرے۔‘‘ (سنن دائود،جلد سوئم کتاب الحمام:4012۔ مسلم، کتاب الفضائل:751)
’حضرت ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ایک مرد دوسرے مرد کی ستر کو نہ دیکھے، اور نہ ہی عورت دوسری عورت کی ستر کو دیکھے، اور کوئی مرد دوسرے مرد کے ساتھ اور عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لپٹے۔‘‘ (مسلم، کتاب الحیض)
عورت کے پردے کا تصور:
عورت کیلیے پردہ اسلامی شریعت کا ایک واضح حکم ہے اور اس کامقصد بھی بالکل واضح ہے اسلام نے مسلمان عورت کا پردہ اور لباس: انسانی فطر ت کیعین مطابق یہ فیصلہ کیاہے کہ عورت اور مرد کے تعلقات پاکیزگی وصفائی اور ذمہ داری کی بنیادوں پراستوار ہوں اور اس میں کہیں کوئی خلل نہ آنے پائے، اسی بناء پر ان تمام اسباب ومحرکات پر مکمل قدغن لگائی ہے جوغلطی کا بیش خیمہ ہیں انہی میں سے ایک چہرے کاپردہ بھی ہے کہ اسی سے فتنے جنم لیتے ہیں۔نماز اور غیرنماز میں عورت کے پردے میں بھی بہت فرق ہے۔اسکا ہمیں ادراک ہونا چائیے تاکہ بئی نسل و سکھا اور بتاسکیں۔
موبائل کا فتنہ: ٹی وی ہو یا انٹرنیٹ یا موبائل فون کے جو موجد تھے ان اقوام نے اسے اپنی ترقی کے لئے بھی استعمال کیا لیکن ٹیکنالوجی کی یہ ترقی ہمارے لئے وجہ خسران ہی ثابت ہوئی.موبائل فون ہو یا انٹرنیٹ مغرب کا تصور ”پرا ئیویسی” اسکی بنیادی شرط ہے جو درحقیقت دلدل کا پہلا قدم ہے والدین نے ان خطرناک اژدھوں کے ساتھ اپنی اولاد کو تنہا چھوڑ دیا ہے. اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے بچے اس ٹیکنالوجی کی دانائی میں جتنی دور نکل گئے ہیں والدین اسکے حروف ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں وہ بچوں کے نیٹ کے ساتھ وقت گزارنے کو انکی قابلیت تصور کرتے ہیں. کم عمر بچوں کو اس ٹیکنالوجی کے حوالے کرنا در حقیقت انہیں گہری کھائی میں دھکیلنے کے مترادف ہے اور بچے والدین کی کسی بھی مداخلت یا مانیٹرنگ کو جاسوسی خیال کرتے ہیں. ہماری نوجوان نسل میں حیا کا یہ فقدان اور پورے معاشرے کا بے حیائی کے کلچرکو قبول کرلینا بہت بڑا خسارہ ہے. یہ اولاد ہمارے پاس ایک امانت ہے یہ امت کا قیمتی سرمایہ ہے. یہ وہ عظیم الشان نعمت ہے جسکی التجا پیغمبروں نے اپنے رب کے حضور کی.دجالی فتنوں کے اس دور میں اپنی آئندہ نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت اور حیا جو بنیادی اخلاقی صفت ہے اسکو انکی شخصیت کا جز بنانا ایک ایسی اہم ذمہ داری ہے جسکا اہتمام فوری اور ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے. اگر حیا کا عنصر من حیث القوم ہم سے چھن گیا تو اس گراں قدر سرمائے سے محرومی ہمارے لیے دونوں جہاں کا خسارہ ہے. درحقیقت اس وقت اپنے جی کی چاہ پوری کر رہے ہیں کیونکہ نبی پاک نے فرمایا ”جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو”.
ماہرین نفسیات(کلینکل سائیکولوجسٹ) کے مطابق بچوں کو موبائل فون دینے کی درحقیقت کوئی خاص عمرمتعین نہیں ہے لیکن سب سے اہم چیز بچوں کے ہاتھوں میں موبائل فون دینے سے قبل ان کی سماجی اور ٹیکنالوجی سے آگہی(Social and Technology Awareness) کا جائزہ لینا ضروری ہوتاہے۔کلینکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر ببرک کے مطابق والدین کے لئے بچوں کو موبائل فون دینے سے قبل درجہ ذیل امور پر نظر رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔
(1)والدین کو اس بات کا علم ہو کہ کیابچہ اپنی چیزوں کی حفاظت کے قابل بھی ہوا ہے یا نہیں۔ کیا بچے کو اپنی چیزیں کھو نے، بھولنے یا چھوڑکر آنے کی عادت تو نہیں ہے۔ قصہ مختصر اگر اسے کسی شئے کے قیمت اور اہمیت بتائی جائے تو کیا وہ اس کی حفاظت کرنے کا اہل بھی ہے یا نہیں۔
(2)کیا بچہ کسی بھی فضول شئے یا فضول خرچی اور فضولیات سے خود کو محفوظ رکھنے کا متحمل ہے یا نہیں۔
(3)کیا بچہ سماجی خطرات (Social Cues)کا ادراک رکھتا ہے۔مثلاًکیا وہ لوگوں کی باڈی لینگویج (جسمانی اشارات)،انداز گفتگو،لب و لہجہ،دوران گفتگو لوگوں کی جانب سے استعمال کیئے جانے والے ذومعنی الفاظ کے مطالب،حرکات و سکنات چہرے کے تصورات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔
(4) کیا بچہ گفتگو کے آداب سے واقف ہے؟ اگربچہ گفتگو کے آداب نہیں جانتا ہے تو یہ کمی آگے چل کر اس کے لئے میسجنگ اور سوشل میڈیا پر انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
(5) ٹیکنالوجی کے بارے میں بچے کی سوجھ بوجھ کتنی ہے۔وہ جو کچھ پوسٹ کر رہا ہے کیا اس سے وہ باخبر ہے۔کیا اسے علم ہے کہ وہ جو کچھ پوسٹ کر رہا ہے اسے کون کون دیکھ سکتے ہیں۔کیا بچے کو اس بات کا علم ہے کہ اس کی سوشل میڈیا ایکٹیویٹی پر دوسروں کی نظر رہتی ہے۔
(6)کیا بچہ اسکرین ٹائم کے اصولوں کا پابند ہے یا نہیں۔کیا انٹرنیٹ اور موبائل فون سے مقررہ وقت کے بعد گلو خلاصی حاصل کرنے میں اسے دقت کا سامنا ہے یا نہیں۔ بچے کمپیوٹر گیمز،موبائل فون یا ٹی وی اسکرین سے ہر وقت چپک کر رہنے لگ جائیں تو آگے چل کر ان کو موبائل فون سے دور کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
گھروں میں مردان خانہ کا تصور:
یہ کوئی پرانی بات نہیں، چند ہی سال پہلے ہمارے معاشرتی خدوخال میں حیا موجود تھی۔ گھروں میں عورتیں دوپٹے اتارنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ گھرکے مرد گھر میں داخل ہونے سے پہلے کھانستے کھنکارتے تھے کہ عورتیں اپنی چادریں درست کرلیں۔گھروں میں مردان خانے اورزنان خانے الگ الگ ہوا کرتے تھے۔ بھائی بہنوں کو بے پردہ ساتھ لے جانے میں معترض ہوتے تھے،شادی بیاہ کی تقریبات میں عورتوں اور مردوں کے لیے علیحدہ اہتما م کیا جاتا تھا، مخلوط تقریبات کا تصور تک موجود نہ تھا۔ گھر کی خواتین کے لباس پر بزرگوں کی روک ٹوک کا ایک مسلسل عمل جاری رہتا تھا، جس کی وجہ سے خواتین اپنے لباس کے بارے میں محتاط رہتی تھیں۔ عورتوں کے بازار میں کوئی مرد داخل ہوجاتا تو لوگ اسے مشکوک نظروں سے دیکھتے، یہاں تک کہ اُسے ٹوک دیا جاتا کہ بھائی تمہارا یہاں کیا کام اور بعض اوقات ایسے بے حیا مردوں کی مرمت بھی کردی جاتی تھی۔عورتیں اپنا لباس علاقے، محلے کی سلائی کرنے والی عورتوں سے سلواتی تھیں، حتّٰی کہ مرد ڈاکٹروں سے چیک اپ کروانے کو بھی برا تصور کرتی تھیں۔ علاقے اور محلے میں بے پردہ گھومنے والی عورت سے گھر کی عورتوں کو میل جول رکھنے سے منع کیا جاتا کہ مبادا اس کی صحبت سے ہمارے گھر میں بھی بے پردگی نہ آجائے۔
آج ہمارے معاشرے میں اسلامی احکامات کی سرِعام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، اور کوئی نہیں جو اس بے حیائی کے شیطانی طوفان کو روکے، کوئی نہیں ہے جو اُمّتِ محمدیّہ کے خُلق کو بچائے،حیرانی ان رہبانیانِ دین پر ہوتی ہے جو بڑے بن ٹھن کر مارننگ شو میں بیٹھے بے پردہ عورت کو دینی تعلیمات کے بارے میں انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں،یہ انٹرویو نہیں ہوتا بلکہ یہ علما کی طرف سے بے حیائی کو جاری کیا جانے والا سرٹیفکیٹ ہوتا ہے کہ سجی سنوری اینکرز پرسن کا یہ مارننگ شو اسلامی فقہ کے مطابق جائز ہے(مَعَاذَاللہ!)۔ان بے دینوں نے اللہ کے ماہِ رمضان المبارک پر بھی تابڑ توڑ حملے کیے ہوئے ہیں۔ رمضان المبارک کا یہ تصور پیش کیا جارہا ہے کہ روزے میں وقت گزاری ہی سب سے اہم کام ہے اور وقت گزاری کا بہترین مصرف یہ ہے کہ سحر ہو یا افطار آپ ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہیں اور رمضان نشریات کے نام پر ان کے حیا باختہ پروگرام دیکھتے رہیں(نَعُوْذُبِااللہ!)۔ میرے بھائیو! خدارا ہوش کے ناخن لو! یہ اہلِ مغرب تم سے تمھارا خلق چھیننے کے درپے ہیں۔ ان کا ہتھیار عورت ہے اور یہ ہتھیار انھوں نے ہمارے میڈیا کے ہاتھ میں تھمادیا ہے۔ ہمارا میڈیا یہ ہتھیار اپنے ہاتھ میں اٹھائے اسلامی خلق پر اندھا دھند فائرنگ کر رہا ہے اور بہت تیزی سے کروڑوں مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہا ہے۔آج ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چپے چپے پر حیا برائے فروخت ہے۔ عورت کا چہرہ اپنی خبریں بیچ رہے ہیں، اپنے پروگرام بیچ رہے ہیں، عورت کی نمود ونمائش کو عزت اور فخر بنارہے ہیں اور دھیرے دھیرے اسلامی خُلق کو مٹارہے ہیں۔اے امّتِ محمدیّہ اس فحاشی و عریانی کے سیلاب کو روکنا بہت ضروری ہے۔آئیے ہم سب ملکر اس بیحیائی کے طوفان پر بند باندہیں تاکہ روزقیامت ہم آنحضورﷺ کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔

اٹھووگرنہ حشر بپاہوگانہ پھر کبھی
دوڑوزمانہ چال قیامت کی چل گیا

حصہ