اکادمی ادبیات پاکستان سندھ کا مشاعرہ اور مذاکرہ

349

اکادمی ادبیات پاکستان سندھ کے زیراہتمام سندھی زبان کے عظیم صوفی شاعر حضرت شہید شاہ عنایت کی یاد میں محفل مشاعرہ کا انعقاد کراچی میں کیا گیا جس کی صدارت کینیڈا سے تشریف لائے معروف شاعر سید منیف اشعر ملیح آبادی نے کی۔ مہمان خصوصی اقبال سہوانی تھے۔ سید منیف اشعر ملیح آبادی نے کہا کہ شاہ عنایت شہید برصغیر کے اہم صوفی بزرگ تھے جو مغل دور میں اپنے صوفیانہ فکر و فلسفے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ آپ ٹھٹھہ سے میراں پور تشریف لائے جو پہلے جھوک کے نام سے مشہور تھا۔ آپ نے اصلاح نفس اور تزکیۂ باطن کے لیے ایک خانقاہ کی بنیاد ڈالی جو بعدازاں زہد و عرفان کا مرکز بن گئی اور دور دراز سے ہزاروں طالبان حق جوق در جوق یہاں آتے اور فیض پاتے۔ آپ کی تعلیمات میں ایسی کشش تھی کہ اُس دور کی دوسری خانقاہوں کی چمک دمک اس کے سامنے ماند پڑ گئی یہاں تک کہ سادات بلڑی کے مریدین بھی آپ کے حلقہ بگوش ہونے لگے۔ اس موقع پر اقبال سہوانی نے کہا کہ صوفیائے کرام کے ساتھ شاہ عنایت کا پیغام بھی کانوں میں نغمگی بکھیرتے ہیں۔ اپنے عام فہم مطلب کی وجہ سے ان الفاظ کو ان پڑھ بھی سمجھ لیتا ہے اور دانش ور ان کے گہرے فلسفے کی وجہ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس موقع پر ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ صوفیا نے ہمیشہ غزل ہی نہیں لکھی بلکہ انہوں نے پاکستان کے مقامی اصناف میں بھی شاعری کی ہے۔ اس موقع پر شعرائے کرام سید منیف اشعر ملیح آبادی‘ اقبال سہوانی‘ ناز عارف‘ معصومہ شیرازی‘ سید علی اوسط جعفری‘ تاج علی رعنا‘ فہمیدہ مقبول‘ وحید محسن‘ نصیر سومرو‘ فرح کلثوم‘ جمیل ادیب سید‘ محمد علی زیدی‘ اقبال افسر غوری‘ الطاف احمد‘ محمد رفیق مغل شجاع الزماں خان ڈاکٹر رحیم امروز ‘ ذوالفقار جسکانی‘ اخلاق احمد‘ اویس طائر‘ محمد صالح نیاز سلاتی نے اپنا کلام سنا کر شہید عنایت شاہ کی عظمت کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس تقریب کی نظامت قادر بخش سومرو نے کی اور ادبیات پاکستان کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔

فنون لطیفہ میں شاعری ایک اہم ادارہ ہے، پروفیسر شاداب احسانی

فنون لطیفہ کے شعبوں میں شاعری بہت اہمیت کی حامل ہے تمام اصناف سخن کی اپنی اپنی افادیت ہے لیکن غزل کی اہمیت اس حوالے سے بھی ہے کہ اس کے دو مصرعوں میں بڑے سے بڑا مضمون بیان کیا جاسکتا ہے اس کا ہر شعر الگ مفہوم دیتا ہے اس صنف سخن نے ہر دور میں اپنا نام روشن کیا اس کی ترقی کا سفر جاری ہے ہر زمانے میں شاعری کا مزاج تبدیل ہوتا رہتا ہے، اب غزل کے روایتی مضامین کے ساتھ معاشرتی، سیاسی اور سماجی مسائل بھی نظم ہورہے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ شاعری اور زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے جو شاعر اپنے معاشرے سے کٹ کر شاعری کرتا ہے وہ ادبی منظرنامے سے بہت جلد غائب ہوجاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے ایک نشست میں کیا جس میں اختر سعیدی، سلمان صدیقی، یاسین اختر، راقم الحروف ڈاکٹر نثار، صفدر علی انشا، عارف شیخ عارف، عاشق شوکی اور علی کوثر نے شرکت کی۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے مزید کہاکہ ہمارا ملک 20لاکھ افراد کی قربانیوں کا ثمر ہے خدا کا شکر ہے کہ ہم اس اسلامی مملکت میں اپنی سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں یہاں مختلف قبائل اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں لیکن اردو زبان ان سب کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے تاہم اب ہم اردو سے دور ہوتے جارہے ہیں یعنی ہم پاکستانی بیانیے سے روگردانی کررہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم ہورہے ہیں۔ سماجی اور تاریخی مشاہدات بتاتے ہیں کہ جس قوم کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان کا قیام ملی تصور پر ہوا جب کہ وطنی تصور کو بیانیے میں اس طرح جگہ نہیں دی گئی جس طرح اس کا حق بنتا تھا۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے اقتدار کے لیے انگریزی بیانیے کو جاری کیا اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستانی بیانیے کو آگے بڑھائیں۔

بزم یاور مہدی کی 144 ویں نشست

بزم یاور مہدی کی 144 ویں نشست امریکا سے آئی ہوئی شاعرہ تسنیم عابدی کے اعزاز میں سجائی گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے صدارت کی، انھوں نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ تسنیم عابدی ایک خوش کلام و خوش فکر شاعرہ ہیں، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرتی مسائل اجاگر کیے یہ ہجر زدہ نہیں ہیں بلکہ ہجر یافتہ ہیں۔ مہمان خصوصی پروفیسر سحر انصاری نے کہاکہ کراچی میں جو لوگ ادب کی خدمت کررہے ہیں ان میں یاور مہدی ایک اہم نام ہے یہ ہر ماہ ایک ادبی پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ آج کا پروگرام تسنیم عابدی کے اعزاز میں ہے جو کہ بہت عمدہ اشعار کہہ رہی ہیں، ان کی شاعری روایت سے جڑی ہوئی ہے یہ دیار غیر میں رہتے ہوئے پاکستانی ثقافت کی علم بردار ہیں۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہاکہ تسنیم عابدی کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ساتھ غزل کے تمام مضامین جلوہ گر ہیں ان کا اپنا انداز بیان ہے انھوں نے کسی کا لب و لہجہ مستعار نہیں لیا۔ نسیم نازش نے کہاکہ تسنیم عابدی ایک سچی اور کھری شاعرہ ہیں، یہ مشرقی روایات کی پاسداری کرتی ہیں، انھیں اردو اور پاکستان سے عشق ہے جس کا اظہار ان کی شاعری میں نظر آتا ہے، ڈاکٹر ثروت رضوی نے تسنیم عابدی کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ ناظم مشاعرہ انیق احمد نے کہاکہ تسنیم عابدی کی شاعری دلوں میں اتر جاتی ہے کیونکہ یہ زندگی کو لکھ رہی ہیں ان کی تازہ کاری ان کو اپنی ہم عصر شاعرات سے ممتاز کررہی ہیں، انھوں نے مزید کہاکہ یاور مہدی تواتر سے ادبی نشستیں سجا رہے ہیں اور یہ کسی سے کوئی تعاون نہیں لیتے۔ اس موقع پر بزم یاور مہدی کی جانب سے تسنیم عابدی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ راشد عالم نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ ندیم ہاشمی نے مہمانان کو خوش آمدید کہا، اس تقریب میں طاہر سلطانی نے نعت رسولؐ پیش کی۔

حصہ