آرٹس کونسل کراچی کی ادبی کمیٹی’’ شعر و سخن‘‘ کا پہلامذاکرہ

401

(رپورٹ: نیل احمد)
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی ادبی کمیٹی شعر و سخن کے زیراہتمام مذاکرہ جس کا عنوان ’’21ویں صدی اور اردو شاعری کی صورتحال‘ تقاضے اور مسائل پر گفتگو‘‘ تھا۔ شرکائے گفتگو میں محترم ڈاکٹر پیرزادہ قاسم محترم سحر انصاری محترم خالد معین محترم اجمل سراج محترمہ ڈاکٹر رخسانہ صبا اور سید کاشف رضا صاحب شامل تھے، مذاکرے کے آخری حصے میں احمد شاہ صاحب نے بھی شمولیت فرمائی۔ اس مذاکرے کی نظامت محترمہ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر صاحبہ نے انجام دی . جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے اس پروگرام کا مقصد اکیسویں صدی میں اردو شاعری کو درپیش برقیاتی اور معاشی چیلنجز ہیں، اکیسویں صدی میں اردو ادب کی صورتحال بدلتے ہوئے تقاضے اور پیش آنے والے مسائل سے کس طرح سے نبرد آزما ہونا چاہیے اس حوالے سے تمام مقررین نے اہم نکات کی طرف توجہ مبذول کروائی۔جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سلسلے میں آنے والے مسائل کو سرسیداحمدخان صاحب نے پہلے ہی محسوس کرلیا تھا اور اس سے پیدا ہونے والے جمود کو توڑنے کے لیے کوششیں شروع کردی تھیں۔ لفظ جدید ایک عہد زمانی کا تعین کرتا ہے اور قدیم کی ضد ہے ، ہر نئی صدی زبان و ادب پر اثر انداز ہوتی ہے عصری تغیرات نئی حیثیت کو جنم دیتے ہیں اور انسانی زندگی پر نفسیاتی دباؤ کا سبب بنتے ہیں اوراسی دباؤ میں ہماری زبان وادب بھی آتا ہے۔زبان انسان کے ذہنی ارتقا کے ساتھ ساتھ اس کی جبلت کی بھی ترجمانی کرتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا آج کا شعری اظہار عصری تغیرات، حسیاتی دائرے، اور فکری عناصر کو داخلی اور خارجی طور پر سمیٹ رہا ہے؟ شاعری تہذیب کی زبان ہے کیا یہ تہذیبی روایت انحراف ہے؟ بیسویں صدی میں ایک عہد کی معنویت دوسرے عہد سے جڑی ہوئی نظر آتی ہے ہر جدید ادب قدیم کے مقابلے میں نئی معنویت پیدا کرتا ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے عہد کے سفید وسیاہ سے جدا بھی نہیں رہ سکتے۔ شرکا کا کہنا تھا کہ پہلے شاعری کے بنیادی تکلم کا دھارا یا مین اسٹریم ہماری تہذیب اور معاشرے سے، نجی زندگی سے اور ذاتی وابستگیوں سے جڑی ہوا نظر آتا ہے مگر آج کا ادب ایسا کرنے میں ناکام ہے اب شاعری الگ اور نجی معاملات الگ محسوس کیے جاتے ہیں ، اس ضمن میں شرکائے گفتگو نے سوشل میڈیا کو خاص طور پر موضوع بحث رکھا ، چونکہ عصری تغیر پذیری یا تہذیبوں کا زوال شعری تہذیب پر انداز ہوتا ہے اور شعر و ادب کی نشوونما کا ذریعہ بھی بنتا ہے مگر خلش یا کسک جو شعری روایت میں شامل ہیں ناپید ہے اور جو کسی تہذیب کو پروان چڑھانے میں سود مند ثابت ہوتی ہے۔ احساس کی سرشاری کو لفظوں کے اظہار میں لانا اہم ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے بین الاقوامی روابط کے باوجود تخلیقی تنہائی بڑھ گئی ہیں اور اجتماعی سائبان کی جگہ کم ہو گئی ہے اور یہ مرحلہ ہمیں تشنگی کی طرف لے جا رہا ہے ، شخصیت میں ہمہ جہتی کا سلسلہ بھی نایاب ہو گیا ہے۔ شرکاکا کہنا تھا کہ یہ گلوبل چلنجز کے ہوتے ہوئے محض نظم یا شعر کہنے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے اس کا حل یہ ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ہماری فکری روایت کیا ہے؟ اور اس کو کیسے صحیح طور پر آگے بڑھایا یا منتقل کیا جاسکتا ہے ، محض ایک غزل یا نظم کہہ دینا فکری تہذیب کے رچاؤ اور بڑھاؤ کے لیے کافی نہیں۔ اقدار حیات، رواداری، تعلقات، محبت، یہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے اور اس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ برقیاتی نظام نے برقیاتی نسل پیدا کی ہے جو صبر و برداشت سے عاری نسل ہے، ادبی منافقت کا بول بالا نظر آتا ہے ہر شخص اپنی حیثیت میں کہیں نہ کہیں کرپٹ ہے اور منافقت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا یا فیس بک کے شعراکی چلبلاہٹ اور بلبلاہٹ مسائل کا حل نہیں۔ سوشل میڈیا نے جنوئن اور نان جنوئن شعرا کی پہچان بھی مشکل بنا دی ہے اور شعر کی تہذیبی روایت سے انحراف جدیدیت نہیں بلکہ روایت سے جڑے رہ کر نئے امکانات اور رویوں کو شعر میں برتنا زبان کا صحیح استعمال اور الفاظ کا چناؤ ہی ہمیں معتبر بناتا ہے۔ جیسا کہ ہر عہد اپنے منفی اور مثبت رخ کے ساتھ انسانی جبلت کے نئے زاویے اور ذہن کی نئی خیال آفرینی کے ساتھ آتا ہے بالکل ایسے ہی فکر اپنے عہد کی معنویت دوسرے ادوار کی معنویت سے منسلک کرکے ایک شعور پیدا کرنے کی قوت بناتی ہے۔ جدید تخلیقی کام قدیم کے تقابل میں ایک نئی معنویت پیدا کردیتا ہے مگر شاعر یا ادیب وہی زندہ رہتا ہے جو اپنے تخلیقی جوہر اور تہذیب سے جڑا رہتا ہے۔13فروری 2019 کی شام چھ بجے ہونے والا یہ مناظرہ نہایت معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد علمی بھی تھا توقع سے زیادہ پسندیدگی نظر آئی۔ ادب سے تعلق رکھنے والے بہت سے شعرا ادیب ڈرامہ نگار افسانہ نگار ناول نگار اور نوجوان نسل کے شعر نے بھی یہ مذاکرہ بہت دلچسپی سے سنا اور اس طرح کے مزید پروگرام کرنے کی دلچسپی ظاہر کی۔ شرکائے گفتگو کے اظہار خیال کے بعد مذاکرہ کے آخری حصے میں حاضرین نے اپنے اپنے سوالات اٹھائے اور شرکائے گفتگو نے تشفی بخش جوابات دیے۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کو اور امرینہ سیب امبر صاحبہ کو مذاکرے کی شاندار کامیابی پر بہت مبارکباد۔

حصہ