مال اور اولاد سامان آزمائش

698

سید مہرالدین افضل
سورۃ الانفال کے مضامین کا خلاصہ
سترہواں حصہ
( تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃالانفال حاشیہ نمبر :22 :23 ، سورۃ نساء حاشیہ 88)
سورۃالانفال آیت 27 میں ارشاد ہوا ’’اے ایمان لانے والو! جانتے بوجھتے اللہ اور اُس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت نہ کرو، اپنی امانتوں میں غداری کے مرتکب نہ ہو ۔‘‘ (یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہدایت اُس وقت دی جارہی ہے جب ریاستِ مدینہ قائم ہو چکی ہے، اب سیاسی، معاشی اور معاشرتی استحکام کے لیے ادارے قائم ہونے ہیں اور ذمے داریوں کا تعین ہونا ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ابھی تو آپؐ بہ نفس نفیس موجود ہیں، لیکن کچھ ہی عرصے بعد آپؐ کو بلا لیا جائے گا۔ آپؐ کے ہوتے ہوئے تو اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اجتماعی ذمے داریاں نا اہل لوگوں کو دی جائیں۔ لیکن آپؐ کے بعد چوں کہ مسلمانوں کو خود اپنے اجتماعی ذمے داروں کا تعین کرنا ہے اس لیے اس موقع پر یہ ہدایت دی گئی۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اسلام سے پہلے اجتماعی ذمے داریاں وراثت میں ملتی تھیں اور اس کے قائم رہنے اور مضبوط ہونے کا انحصار طاقت کے زور پر ہوتا تھا۔ یعنی جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ اسلام نے اُسے تبدیل کیا اور آج زندگی کے جس شعبے میں‘ جو بھی ترقی ہوئی ہے‘ اُسی اہم اور بنیادی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ پھر جب مسلمانوں نے اس ہدایت کو بھلا دیا تو پھر وہی وراثت اور قبضہ گروپ کا راج ہو گیا اور زندگی کے جس شعبے میں جتنا اس ہدایت کو نظر انداز کیا گیا، وہاں اتنی ہی گراوٹ پیدا ہوئی اور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہاں ’’اپنی امانتوں‘‘ کے مفہوم کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ ایک امانت تو بطور انسان سب کے پاس ہے اور وہ ہے خلافت کی ذمے داری۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی آبادکاری اور حُسنِ انتظام کے لیے اپنی بے شما ر مخلوقات کو ہمارے قابو میں کر دیا ہے اور ہمیں بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اس اعتبار سے ہر انسان اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے لیکن اجتماعیت میں جہاں سب کو مل جل کر کام کرنے ہیں، ہر کوئی اپنی خلافت کی طاقت استعمال نہیں کر سکتا، اگر سب ہی خلیفہ کے طور پر کام کرنے لگیں تو زمین کا انتظام بننے کے بجائے بگڑ جائے گا، اس لیے ضروری ہے کہ سب مل کر کسی کو اپنا ذمے دار بنائیں۔ اس طرح یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں امانت سے مراد وہ تمام ذمے داریاں ہیں، جو کسی پر اعتبار (Trust ) کر کے اس کے سپرد کی جائیں چاہے وہ عہدِ وفا کی ذمے داریاں ہوں یا اجتماعی معاہدات کی یا جماعت کے رازوں کی یا شخصی و جماعتی اموال کی یا کسی ایسے عہدے اور منصب کی جو کسی شخص پر بھروسہ کرتے ہوئے جماعت اُس کے حوالے کرے۔ اس سے پہلے سورۃ النساء میں یہود کی دینی اور اخلاقی برائیوں کی تفصیل بتانے کے بعد مسلمانوں کو اسلامی سوسائٹی کی تعمیر کے لیے بنیادی ہدایات دی گئی ہیں جو اسلامی معاشرت کی جان اور بنیاد ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان اُن برائیوں سے بچے رہیں جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے۔ ان میں سب سے پہلی ہدایت امانت کے بارے میں ہے، سورۃ النساء آیت 58 میں ارشاد ہوا ’’مسلمانو! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو۔‘‘ بنی اسرائیل کے زوال کا آغاز ہی اس طرح ہوا کہ انہوں نے اپنی امانتیں، یعنی ذمے داری کے منصب‘ مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے (Positions of trust) ایسے لوگوں کو دینے شروع کر دیے جو نااہل، کم ظرف، بداخلاق، بد دیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ برے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں اُن لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں، یعنی جن میں بارِِ امانت اُٹھانے کی صلاحیت ہو۔
آج دنیا میں ہر طرف امانت اور دیانت کی مانگ ہے‘ زمین کا کوئی خطہ بھی ہو‘ جو فرد یا گروہ انسانی سے کسی عہدے اور ذمے داری کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے‘ وہ لوگوں کو اپنے امانت دار اور دیانت دار ہونے کا یقین دلاتا ہے‘ جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا اُس وقت بھی امانت اور دیانت کے فقدان کو اسلام نے آکر پورا کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے انسانوں کا قافلہ ترقی اور کمال کے راستے پر چل پڑا، جس کی قیادت اسلام کر رہا تھا۔ لیکن پھر وہی ہوا کہ اہلِ اسلام نے امانت کو اہلیت سے کاٹ دیا، اسی لیے ہم مسلمانوں کی دنیا پر حکمرانی کے ایک بڑے عرصے کو اسلام کی حکومت نہیں بلکہ مسلمانوں کی حکومت کے طور پر یاد کرتے ہیں اور پھر مسلمانوں کا عروج زوال کا شکار ہو گیا۔ آج بھی اگر انسانوں کی یہ فطری طلب اور ضرورت پوری ہو سکتی ہے تو وہ اہلِ ایمان کے ذریعے سے ہو سکتی ہے۔ وہ جن کے دلوں میں اللہ کا خوف اور اس کی محبت ہو‘ جنہیں اللہ سے ملاقات کا شوق ہو اور جو اپنے ہر عمل کا اجر اللہ سے لینے کے خواہش مند ہوں۔
مال اور اولاد سامان آزمائش:
آیت 28 میں ارشاد ہوا ’’اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں… اور اللہ کے پاس اجر دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔‘‘ یہ ہدایت اُن کے لیے بھی ہے جو اجتماعی ذمے داریوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور اُن کے لیے بھی جو اجتماعی ذمے داروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اجتماعی ذمے دار اپنے مالی مفاد اور اولاد کے مستقبل کے تحفظ اور آسائش کے لیے بددیانتی کرتے ہیں جب کہ اجتماعی ذمے داری کا انتخاب کرنے والے بھی انتخاب کرتے ہوئے اپنے اور اپنی اولاد کے مالی مفاد کا خیال رکھتے ہیں۔ اس طرح بد دیانت لوگ لالچ اور دھمکی کے ذریعے اجتماعی مناصب حاصل کر لیتے ہیں۔ اولاد اور مال کی محبت انسان کی فطرت میں ہے، اس لیے اسے اپنے مالی مفاد اور اپنی اولاد کے مفاد سے دل چسپی ہوتی ہے۔ لیکن اس دل چسپی کا حد سے بڑھ جانا انسان کو اپنے ایمان کے مطابق پرفارم کرنے سے روکنے والی سب سے پہلی چیز ہے۔ یہی دل چسپی ہے جو انسان کو ایمان سے منافقت‘ وفا داری سے غداری اور امانت میں خیانت کی طرف لے جاتی ہے اسی لیے فرمایا کہ یہ مال اور اولاد، جن کی محبت میں پھنس کر تم عام طور پر سیدھے راستے سے ہٹ جاتے ہو، دراصل یہ دنیا کی امتحان گاہ میں تمہارے لیے سامانِ آزمائش ہیں۔ جسے تم بیٹا یا بیٹی کہتے ہو حقیقت کی زبان میں وہ دراصل امتحان کا ایک پرچہ ہے اور جسے تم جائداد یا کاروبار کہتے ہو، وہ بھی درحقیقت ایک دوسرا پرچہ امتحان ہے۔ یہ چیزیں تمہارے حوالے کی ہی اس لیے گئی ہیں کہ تمہارا امتحان ہو کہ تم کہاں تک حقوق اور حدود کا لحاظ کرتے ہو۔ کہاں تک اپنے نفس کو‘ جو اِن دنیاوی چیزوں کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے، اپنے قابو میں کر تے ہو کہ پوری طرح اللہ کی بندگی کا حق بھی ادا کرو اور ان چیزوں کے حقوق بھی اُس حد تک ادا کرو جس حد تک اللہ تعالیٰ نے اُن کا حق مقرر کیا ہے۔ تجربے کی بات ہے کہ مال اور اولاد دونوں ہی کی بے وفائی کی داستانیں عام ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو یہ یقین دلاتا ہے کہ اس کے پاس تمہیں دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ تم اپنی نادانی میں انہی چیزوں میں الجھ کر نہ رہ جائو۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘آمین ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

حصہ