پانی رے پانی، کراچی میں فراہمی آب کا مسئلہ کب حل ہوگا؟

491

محمد انور
میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ملک کے سب سے بڑے شہر کے ساتھ محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اگر ضرورت کے مطابق پینے کا پانی فراہم کردے تو یہ بھی جمہور پر بڑا احسان ہوگا۔ ویسے تو وفاق اور صوبے نے مل کر بھی آج تک کوئی منصوبہ وقت پر مکمل نہیں کیا۔ گزشتہ 5 سالوں سے جاری گرین لائن بس ٹرانزٹ کا پروجیکٹ ‘ سیوریج کے نکاسی کا عظیم منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا اور نہ جانے کب تک ہوگا اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کو دیکھتے ہوئے 2004 میں ہی ’’کے فور‘‘ منصوبہ تیار کرلیا گیا تھا مقصد یہ تھا کہ اس پروجیکٹ پر 2008 تک کام شروع کرکے تین سال کی مدت 2011 تک اس کی تکمیل کردیا جائے۔ مگر جب نیتوں میں فتور ہو تو کوئی کام وقت پر شروع ہوسکتا ہے اور نہ ہی مکمل ہوسکتا ہے۔ یہی حال کے فور کے پروجیکٹ کے ساتھ بھی ہوا۔ اس منصوبے کی ڈیزائننگ وغیرہ کا کام تو 2007 میں ہی مکمل کرلیا گیا تھا مگر اس پر باقاعدہ کام کا آغاز سات سال کی تاخیر سے جون 2015 میں شروع کیا گیا۔
2008 تا 2013 تک وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی اور کراچی کو اس کا حق دلانے کی دعویدار ایم کیو ایم کی مشترکہ حکومتیں رہیں مگر اس شہر کی پانی کی بنیادی ضرورتوں تک کو پورا نہیں کیا جاسکا۔ ایم کیو ایم تو طاقت ور گروپ کے طور پر پرویز مشرف کے دور اور اس سے پہلے بھی حکومتوں کا حصہ رہی مگر اس کے باوجود کراچی کو اس کے حقوق نہیں مل سکے۔
2008 تا 2013 تک ایم کیو ایم اسمبلیوں میں رہنے کے باوجود وہاں رہنا کا کوئی مقصد حاصل نہیں کیا۔ کراچی کی صنعتوں سے خارج ہونے والا زہریلے پانی کو صاف کرنے کے لیے کمبائنڈ ایفولینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تنصیب کا پروجیکٹ اس کی مثال ہے۔ یہ پروجیکٹ 2002 میں شوکت عزیز اور پرویز مشرف کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے تیار تو کرلیا گیا تھا مگر شوکت عزیز کے وزارت عظمٰی کا عہدہ چھوڑنے کے بعد سے نظر انداز ہوتا گیا جس کی وجہ کراچی کے منتخب نمائندوں کی اس حوالے سے عدم دلچسپی بتائی جاتی ہے۔
کراچی کو ضرورت کے مطابق کبھی بھی پینے کا پانی نہیں مل سکا۔
تاہم سو ملین گیلن اضافی پانی کی فراہمی کا منصوبہ” کے تھری ” 2001 تا 2005 تک رہنے والے جماعت اسلامی کے منتخب سٹی ناظم نعمت اللہ خاں کی کوششوں سے اسی دور میں شروع ہوا اور ان ہی کے دور میں مکمل ہوا۔یہ اور بات ہے کہ اس منصوبے کا افتتاح پرویز مشرف دور کے دوسرے سٹی ناظم مصطفٰی کمال نے کیا۔
گو کہ 2001 کے بعد 18 سالوں کے دوران کراچی میں پینے کے پانی کا کوئی دوسرا منصوبہ نہیں مکمل ہوسکا۔
بہرحال کے فور پر کام کا آغاز تو 2013 کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والے وزیراعظم میاں نواز شریف کی دلچسپی سے شروع ہوسکا مگر ان کی پارٹی کی پانچ سالہ حکومت ختم ہونے کے چھ ماہ بعد بھی اس منصوبے کا کام مکمل نہیں ہوسکا۔
اب اس پروجیکٹ کے حوالے سے تشویشناک اطلاعات ہیں کہ یہ پروجیکٹ آئندہ دس سال تک بھی مکمل نہیں ہوسکے گا۔ روزنامہ جسارت کی خبر کے مطابق کراچی کو پانی کی فراہمی کے عظیم تر منصوبے” کے فور ” کی تکمیل کے حوالے سے وفاقی اور سندھ حکومت میں واضح اختلافات پیدا ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے خدشات ہیں کہ یہ منصوبہ آئندہ دس سالوں میں بھی نامکمل رہے گا اور منصوبے کے نام پر سندھ گورنمنٹ کے افسران کروڑوں روپے کے اخراجات کرتے رہیں گے۔ خیال رہے کہ کے فور کا منصوبہ مجموعی طور پر 650 ملین گیلن ڈیلی ( ایم جی ڈی ) کا ہے اور اسے تین مراحل میں مکمل کیا جانا ہے۔ ابھی اس منصوبے کے پہلے مرحلے پر کام جاری ہے تاہم یہ تنازعات کا شکار ہوگیا ہے۔ پہلا مرحلے کے تحت 260 ملین گیلن اضافی پانی شہر کو ملنا ہے۔ لیکن منصوبے کی مقررہ کردہ مدت جون 2018 ختم ہونے کے باوجود اس پر صرف 35 فیصد کام مکمل ہوا ہی تھا کہ اس میں فنڈز اور فنی رہنمائی کی عدم دستیابی کی وجہ سے رکاوٹیں سامنے آچکی ہیں جبکہ وفاقی حکومت کی خواہش ہے کہ یہ منصوبہ یکمشت 260 کے بجائے 650 ایم جی ڈی میں تبدیل کردیا جائے۔ وفاق کی اس خواہش کے تناظر میں صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ کراچی کے لیے 12 کیوسک یا 650 ملین گیلن پانی کے لیے وفاق کو اپنے سندھ کا پانی کا کوٹہ بڑھانا پڑے گا بصورت دیگر صوبہ کراچی کو اپنے موجودہ پانی میں سے ایک قطرہ پانی فراہم نہیں کرے گا۔ ان دنوں صوبائی حکومت کراچی کو اس کے کوٹے کے مطابق 12 سو کیوسک پانی دے رہی ہے۔جبکہ کے فور کے بعد منصوبے کے تحت مزید 12 سو کیوسک یومیہ پانی کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ 2025 تک ملک میں پانی کی کمی کے خدشات کی بازگشت کے ساتھ ملک کے سب سے بڑے شہر کو مزید پانی دینے کے حوالے سے تنازعات شروع ہوچکے ہیں۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاق اور اس کا ایک ادارے کی خواہشات اپنی جگہ لیکن فی الحال وفاق پہلے مرحلے کی لاگت میں ہونے والے اضافے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کسی قسم کی اضافی رقم دینے سے انکار کرچکی ہے۔ ایسی صورت میں سندھ گورنمنٹ کی کوشش ہے کہ وہ اپنے ذرائع سے یہ مرحلہ مکمل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس ضمن میں صوبائی وزیراعلٰی مراد علی شاہ دلچسپی لیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں لیکن ان کی اس پروجیکٹ کے حوالے سے سنجیدگی اس لیے مشکوک ہے کہ انہوں نے وفاق سے سندھ کے پانی کے کوٹے میں اضافے کا مطالبہ کردیا ہے۔ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعلٰی سندھ یہ بات دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ اگر سندھ کو مزید پانی نہیں دیا گیا تو کراچی کو کسی طور پر بھی مزید 12 سو کیوسک پانی نہیں دے گا۔ دوسری طرف سندھ حکومت نے ” کے فور ” پروجیکٹ کو ایک نان انجینئر افسر اسد ضامن کے حوالے کیا ہوا ہے جو منصوبے کی فنی معلومات سے بھی مبینہ طور پر نابلد ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ منصوبے پر کام اب بند ہوچکا ہے جبکہ اس کے کنسلٹنٹ کو ہی ڈی جی نے کنسلٹینسی اور سپروائزنگ کا کام تکمیل کیے بغیر فارغ کردیا۔ اس کے باوجود صوبائی حکومت ہی جی ڈی سے بازپرس بھی نہیں کررہی۔ حالانکہ نان انجینئر کی مذکورہ پروجیکٹ پر تعیناتی کو سپریم کورٹ خلاف قانون قرار دے چکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کے فور کی تکمیل کے حوالے سے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی گزشتہ ماہ اجلاس طلب کیا تھا اور اس کی تکمیل کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم اب تک مذکورہ کمیٹی قائم ہی نہیں کی جاسکی۔ یادرہے کہ کے فور پروجیکٹ کے پہلے مرحلے کے تین سالہ کام کا سنگ بنیاد جون 2015 رکھا گیا تھا۔
کے فور کے منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے آئندہ سالوں تک کراچی میں پانی کی قلت بدستور رہے گی بلکہ اس کی شدت میں مزید اضافہ بھی ہوگا۔
شہر میں ان دنوں پانی کی طلب مجموعی طور پر کم ازکم 12 ملین گیلن یومیہ ہے لیکن شہر میں صرف زیادہ سے زیادہ 435 ملین گیلن یومیہ دریائے سندھ سے حاصل ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ ذریعہ سے 650 ایم جی ڈی پانی کراچی کو فراہم کیا جاتا ہے مگر گزشتہ 18 سالوں سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا نظام مذکورہ مقدار میں پورا پانی حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بلکہ یہ 550 ایم جی ڈی پانی لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منظور شدہ سو ملین گیلن یومیہ پانی لیا ہی نہیں جارہا ہے۔ اس پانی کو سسٹم میں شامل کرنے کے لیے 65 ایم جی ڈی کے ایک منصوبے پر 2008 سے کام جاری ہے مگر تاحال یہ منصوبہ بھی مکمل نہیں کیا جاسکا۔ اطلاعات کے مطابق صوبائی وزیر سعید غنی نے اس منصوبے کو رواں سال جون تک مکمل کرنے کا ہدف دیا ہے۔ یقینا اس 65 ایم جی ڈی پانی حاصل ہونے کے بعد شہریوں کو فائدہ ہوگا لیکن اس کے باوجود ضرورت کے مطابق پانی نہیں ملے گا۔
شہر میں پانی کی کمی کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ متعدد علاقوں میں ایک ہفتہ یا 15 دن بعد لائن کے ذریعے پانی آتا ہے۔
پانی کی قلت سے سب سے زیادہ ضلع غربی کے اورنگی ٹاؤن ، بلدیہ ٹاؤن ، سائیٹ کے علاقے متاثر ہیں۔ یہاں اب لائنوں کے ذریعے پانی نہیں آتا۔ ان علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی کی وجہ حب ڈیم سے فراہمی آب بند ہونا ہے ۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے ڈیم خشک ہوچکا ہے۔

ایم ڈی خالد محمود شیخ کا مؤقف

واٹر بورڈ کے ایم ڈی خالد محمود شیخ کا کہنا ہے کہ ڈیم کے علاقے میں بارشیں ہونے کی صورت میں ہی یہاں سے دوبارہ سو ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی شروع ہوسکتی ہے۔ شہریوں کو چاہیے کہ بارشوں کے لیے دعائیں کریں اور نماز استسقاء ادا کریں۔ان کا کہنا تھا کہ واٹر بورڈ دستیاب پانی کی شہریوں کو منصفانہ تقسیم کررہا ہے۔ خالد شیخ نے بتایا ہے کہ 65 ایم جی ڈی پانی کا منصوبہ مکمل ہو تو شہریوں کو اس پانی کے اضافے سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔

حصہ