’’چاچا بندو تُو مدینے جا رہا ہے‘‘

474

زاہد عباس
’’چاچا بندو! کیا بات ہے، ماشاء اللہ بڑی صحت بنا رکھی ہے، لگتا ہے تگڑی خوراکیں کھا رہا ہے۔‘‘
’’ارے بیٹا آؤ آؤ، کیا حال ہیں، کب آئے دبئی سے؟‘‘
’’میں کل رات ہی پہنچا ہوں، ابھی بازار کی طرف نکلا تھا، سوچا چاچا کی خیریت ہی معلوم کرتا چلوں۔ اور سناؤ کیسی گزر رہی ہے۔‘‘
’’تیری مہربانی جو تُو پوچھنے چلا آیا۔ تجھے دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی ہے، ورنہ آج کے دور میں کون کسی کو پوچھ رہا ہے! سگی اولاد بھی پلو نہیں پکڑاتی، اللہ تجھے خوش رکھے۔‘‘
’’ارے چاچا کیسی باتیں کررہا ہے، تُو تو ہمارا بڑا ہے اور بزرگوں کی وجہ سے ہی تو گھروں میں رحمتیں اور برکتیں ہوتی ہیں۔ اللہ تجھ کو حیاتی دے، تُو ہمارے محلے کی رونق ہے۔‘‘
’’بیٹا اب کیا رونقیں لگانی ہیں! سارا دن گھر میں ہی پڑا رہتا ہوں، عمر کا تقاضا ہے، اور پھر اس عمر میں تو مسجد سے گھر اور گھر سے مسجد کی دوڑیں ہی لگائی جاتی ہیں۔‘‘
’’ہاں چاچا تُو بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے، ساری عمر کام کرتے ہی گزاری ہے، اب گھر میں آرام کر، نعتیں سن، اور اللہ کاگھر دیکھنے کی دعائیں کر۔ اچھا چاچا اب میں چلتا ہوں، کل تڑکے ملنے آؤں گا۔‘‘
’’اچھا بیٹا، جیتا رہ۔‘‘
پھٹا میرے غم سے سمندر کا بھی سینہ
نہ تھی میری قسمت کہ دیکھوں مدینہ
مدینے والے سے میرا سلام کہنا
مدینے والے سے میرا سلام کہنا
’’واہ چاچا واہ، تُو نے تو سویرے سویرے ہی مدینے جانے کی تیاری پکڑلی ہے۔ ابھی کل ہی بات ہورہی تھی اور تُو نے اتنی جلدی وہاں جانے کا پروگرام بھی بنالیا۔‘‘
’’بیٹا خیریت تو ہے ناں، اتنی صبح صبح؟‘‘
’’ہاں چاچا سب خیریت ہے، تیرے گھر سے آتی نعتوں کی آواز سن کر سوچا دیکھو چاچا کیا کررہا ہے، بس یہی سوچ کر آن پہنچا، پر تُو رو کیوں رہا ہے؟‘‘
’’بیٹا دل جلا رہا ہوں اور اپنی قسمت کو بیٹھا رو رہا ہوں۔ اس نعت کے شعر میرے دل کی آواز ہیں۔ میری بھی کیفیت کچھ ایسی ہی ہے۔ میں ہر روز باقاعدگی سے یہ نعت سنتا ہوں، اپنی قسمت کو کوستا ہوں، اور اپنے رب کے گھر نہ جاسکنے کے غم میں اس کے حضور آنسو بہاتا ہوں۔‘‘
’’رب خیر کرے ایسا کیا ہوگیا جس پر تُو اتنی افسردہ اور ناامیدی کی باتیں کررہا ہے! اللہ زندگی کرے، تیرا بلاوا آئے گا اور تُو اُس کی بارگاہ میں ضرورحاضری دے گا۔‘‘
’’نہ بیٹا نہ، میں اللہ کی ذات سے ناامید نہیں ہوں، وہ تو بڑا غفور و رحیم ہے، وہی غریبوں کی سننے والا ہے۔ میں تو حکمرانوں کو کوس رہا ہوں جنہوں نے مجھ جیسے غریبوں کو حج کی سعادت سے بھی محروم کردیا ہے۔‘‘
’’چاچا پہلی بات تو یہ ہے کہ جب بھی تیرا بلاوا آئے گا تُجھ کو اڑ کر پہنچ جانا ہے، تیرا راستہ روکنا کسی بھی حکومت کے بس میں نہیں… اور پھر سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اللہ کے گھر جانے سے بھلا کیونکر روکے گی؟‘‘
’’نذیر پتر تُو یہاں نہیں رہتا، تیرا کیا ہے تُو آج ہے کل چلا جائے گا، اس لیے تجھے یہاں کی کوئی خبر نہیں۔ یہ بڑی ظالم حکومت آئی ہے جس نے غریب آدمی کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ مہنگائی کا وہ طوفان آیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ پہلے ہی دووقت کی روٹی کمانا مشکل تھا، اب تو ایک وقت کا گزارا کرنا بھی انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ اس پر دینی فرائض کی انجام دہی پر بھی روک لگائی جارہی ہے۔‘‘
’’چاچا وہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن فرائضِ دین کی ادائیگی پر حکومتی مداخلت والی بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ ساری دنیا کے ممالک میں مذہبی رسومات اور عبادات کرنے کی آزادی ہوتی ہے اور تُو ایک ایسے ملک کے حکمرانوں پر اتنا بڑا الزام لگا رہا ہے جس کا قیام ہی لاالٰہ الااللہ کہ بنیاد پر ہوا تھا۔‘‘
’’نذیر بیٹا میں کسی پر کوئی الزام یا بہتان نہیں لگا رہا، میں تو حقیقت بیان کررہا ہوں۔ میں نے خود اپنے اِن گناہ گار کانوں سے ٹیلی ویژن پر سنا ہے کہ ایک طرف تو وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ وہ خود حج پراسیس کو مانیٹر کریں گے اور حاجیوں کو دی جانے والی سہولیات پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے، تو دوسری طرف حکومت کی جانب سے حاجیوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے کیے گئے فیصلوں کے مطابق رواں برس ایک لاکھ 84 ہزار 210 پاکستانی فریضۂ حج ادا کریں گے جس میں سرکاری کوٹہ 60 فیصد اور نجی ٹور آپریٹرز کا کوٹہ 40 فیصد رکھا گیا ہے۔ حج اخراجات کو جن دو زونز میں تقسیم کیا گیا ہے اس کے مطابق اِس سال شمالی زون کے حج اخراجات 4لاکھ36 ہزار 975 روپے، جبکہ جنوبی زون کے اخراجات 4 لاکھ 27 ہزار 975 روپے ہوں گے، جبکہ گزشتہ برس شمالی ریجن سے جانے والے عازمین حج نے 2 لاکھ 80 ہزار، جبکہ جنوبی ریجن سے تعلق رکھنے والے عازمین حج نے 2 لاکھ 70 ہزار روپے جمع کروائے تھے۔ یوں گزشتہ برس کے مقابلے میں اس حکومت نے حج اخراجات میں ایک لاکھ 56 ہزار روپے تک اضافہ کردیا ہے۔ اب تُو بتا اس خبر کو سن کر میں کیا سمجھوں؟ اور میں نے کیا غلط کہا؟ موجودہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ غریبوں کو حج کی سعادت حاصل کرنے سے بھی روکنا چاہتی ہے۔ تُو خود سوچ کہ جن غریبوں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پر حاضری دینے کی چاہت میں پہلے ہی بڑی مشکل سے رقم کا بندوبست کیا ہو، وہ مزید ایک لاکھ 56 ہزار کہاں سے لائیں؟‘‘
’’چاچا اگر ایسا ہے تو یہ بڑی ناانصافی ہے۔ ساری دنیا میں عازمینِ حج وعمرہ کے لیے آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں، لیکن تیری باتیں سن کر تو دل ہول کر رہ گیا ہے۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے حاجیوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔‘‘
’’بیٹا حج کی سعادت سے روک کر یہ حکمران اپنے لیے خود ہی جہنم کے راستے کا انتخاب کررہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایسی ہی سوچ رکھنے والے نہ صرف صحابہ کرام پر بلکہ رحمت للعالمین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی مکہ جانے پر پابندی لگا چکے ہیں، قرآن مجید کی سورۃ الفتح اس کی گواہی کچھ یوں دے رہی ہے:
’’یہ وہی ہیں جنہوں نے انکار کیا اور تمہیں مسجدِ حرام جانے سے روکا، اور قربانی کے جانوروں کو اُن کی قربان گاہ تک جانے سے بھی روکا۔‘‘
حکومت مسلمانوں کے ساتھ تو یہ سلوک کررہی ہے، جبکہ دوسری طرف غیر مسلموں پر اس قدر مہربان ہے کہ انہیں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے راہداریوں کی صورت میں آسانیاں فراہم کررہی ہے۔ ماضی میں سکھ یاتریوں کو کرتارپور پہنچنے تک 24000 روپے کے اخراجات برداشت کرنا پڑتے تھے، آج اس حکومت کی مہربانی کے نتیجے میں وہ صرف 6 ہزار روپے میں گردوارہ گرونانک صاحب پہنچ کر اپنی مذہبی رسومات ادا کرسکتے ہیں۔ بے شک ہر مذہب کے ماننے والوں کو عبادات کرنے کی اجازت ہونی چاہیے، لیکن اس کا مقصد یہ نہیں کہ ایک مسلم ریاست میں رہنے والے مسلمانوں پر ٹیکس اور سبسڈی کے نام پر ایسی سختیاں کی جائیں جس کے نتیجے میں وہ حج جیسے فرائض بھی ادا نہ کرسکیں، اور تو اور، پھر اس پر مسلسل یہ بھی کہا جائے کہ جس کے پاس پیسے ہوں وہ حج کرے۔ یہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں مسلمانوں کی دل آزاری نہیں تو اور کیا ہے! کیا حکومت فنکاروں کے لیے ہیلتھ کارڈ اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کرتی؟ کیا صحافیوں، وکلا، واپڈا، ایف بی آر، یونیورسٹیوں، تینوں مسلح افواج اور بہت سے دیگر محکموں کے لیے ریلوے اور پی آئی اے میں رعایتی ٹکٹ، ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹس اور دیگر سہولیات کی مد میں مراعات نہیں دی جاتیں؟ اُس وقت کیوں دلائل نہیں دیے جاتے کہ یہ سب لوگ اپنے خرچ پر سفر کریں، اپنے خرچے سے پلاٹ خریدیں۔
بیٹا ان ظالم حکمرانوں سے ہمیں کسی قسم کی کوئی امید نہیں۔ ہمارا مددگار تو اللہ ہے، اور وہی ہمارے لیے راستے بھی نکالے گا۔ ظلم و جبر کا یہ نظام زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بنائی جانے والی پالیسیوں کے نتائج انتہائی خطرناک نکلیں گے، غریبوں کی آہوں اور سسکیوں کے نتیجے میں ایسا طوفان آئے گا جو حکمرانوں کے تخت وتاج سمیت ناانصافی کے اس نظام کو بھی بہا کر لے جائے گا۔‘‘
’’چاچا بندو تُو صبر کر، اپنا دل چھوٹا نہ کر۔ رب کی ذات بہترین انصاف کرنے والی ہے۔ پریشان نہ ہو، تُو مدینے جانے کی تیاری کر، تیرے پیسوں کا بندوبست ہوجائے گا، جو کمی ہوگی ان شاء اللہ وہ میں پوری کردوں گا، وہاں جاکر میرے لیے دعا کرنا، سرکارؐ کے روضۂ اقدس پر میرا بھی سلام کہنا۔‘‘
نذیر کی جانب سے کی جانے والی مالی مدد کے طفیل چاچا بندو نے تو مدینے جانے کی تیاری پکڑ لی، لیکن حکومت کی جانب سے اعلان کردہ حج پالیسی کے نتیجے میں نہ جانے کتنے حجاج کرام سرزمینِ حجاز جانے سے محروم ہوگئے۔ ہر مسلمان کی دلی آرزو ہوتی ہے کہ وہ فریضہ حج ضرور ادا کرے۔ بے شک حج صاحبِ استطاعت پر ہی فرض ہے، لیکن غریبوں کے لیے حج اخراجات میں سہولیات اور ان کے لیے مالی آسانیاں پیدا کرنا بھی حکمرانوں کی ذمے داری ہے۔ حکومت کو حج اخراجات پر دی جانے والی سبسڈی تو خزانے پر بوجھ نظر آتی ہے، جبکہ دوسری طرف وزیروں، مشیروں کی شاہ خرچیوں سمیت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دی جانے والی مراعات دکھائی نہیں دیتیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ سیاحت کے نام پر ہانگ کانگ، سنگاپور، بینکاک اور دبئی جانے والوں کے لیے خصوصی پیکیج کے اعلانات کیے جاتے ہیں، لیکن خانہ کعبہ، مسجدِ نبوی اور غارِ حرا جیسے مقدس مقامات کی زیارت کی دلی خواہش رکھنے والوں کے لیے کوئی پلاننگ نہیں کی جاتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت حج اخراجات میں دی جانے والی سبسڈی اور لگائے جانے والے اضافی ٹیکسوں پر نظرثانی کرے، اور فریضہ حج و عمرہ کی ادائیگی کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے نہ صرف حکومتی سطح پر اقدامات کرے بلکہ سعودی حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی کرے، تاکہ زیادہ سے زیادہ پاکستانی اس دینی فریضے کی ادائیگی کی سعادت حاصل کرسکیں۔

حصہ