ابراہیم فہمی

277

تنویراللہ
سردی کے موسم میں اسلام آباد کی فضا زیادہ خاموش اور اداس ہوجاتی ہے۔ ٹھنڈ جسم میں گھستی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ میں حسبِ معمول عشاء کی نماز کے لیے وضو کررہا تھا، فون کی گھنٹی بجنے پر میں نے اپنے بیٹے حسن سے کہا: دیکھو اسکرین پر کیا نام آرہا ہے؟ اس نے بتایا: نامعلوم نمبر ہے۔ میں نے کہا: فون ریسیو کرو اور نام پوچھو۔ حسن کی آواز آئی: کوئی قدیر صاحب ہیں۔ نامعلوم کیوں میرا دھیان اپنے سابقہ دفتری ساتھی میڈیا لائن کے قدیر کی طرف گیا۔ میں نے گیلے ہاتھوں سے فون کان پر لگاکر سلام کیا، جواب میں آواز آئی: تنویر بھائی بری خبر ہے، ابراہیم فہمی کا انتقال ہوگیا ہے، رات دس بجے نمازِ جنازہ ہوگی۔ موسم کی سختی تو صرف جسم کو چیر رہی تھی، اس جملے سے دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا۔ میں واش روم سے باہر آکر بیٹھ گیا اور خاصی دیر خاموش رہ کرکوشش کرتا رہا کہ آنسو آنکھ سے باہر نہ آنے پائے۔ ضبط کی اس کوشش میں کچھ کامیابی ہوئی اور پانی کا ایک قطرہ پارے کی طرح دل پر زور سے جاگرا۔ میں نے خود پر قابو پایا۔ اپنا حوصلہ جتانے کے لیے بچوں کے سامنے اپنے آپ کو باندھ کر رکھنا پڑتا ہے۔کیفیت بحال ہونے پر بیٹے سے کہا: میرا اور ابراہیم کا بہت طویل ساتھ رہا تھا۔
ہماری روایت ہے کہ دُنیا سے رخصت ہونے والے کی خوبیوں کو یاد کیا جاتا ہے… عزیزوں، دوستوںکی محفل میں اس کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
ابراہیم میں ان خوبیوں کو تلاش کرنا کچھ مشکل نہیں ہے، اللہ نے اُنھیں اُن ساری خوبیوں اورصلاحیتوں سے نوازا تھا جو ایک بھرپور زندگی گزارنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔
1990ء کے ابتدائی برسوں میں محمد شاہد کے ذریعے میری ابراہیم سے ملاقات ہوئی تھی۔ پھر اس ملاقات پر بہت تیزی سے شناسائی اور دوستی کا رنگ گہرا ہوگیا۔
ابراہیم روزنامہ جسارت میں منیجر اشتہارات تھے، وہ کم وقت میں نتیجہ خیز کام کی صلاحیت رکھتے تھے۔ انھیں کسی میٹنگ یا پریزنٹیشن کے لیے زیادہ تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ادارے کے چیف ایگزیکٹو کے کمرے میں ابراہیم چند کاغذات اٹھائے داخل ہوئے، اور ایک بھرپور میٹنگ کرکے ہنستے مسکراتے باہر آکر ہمیں کوئی نہ کوئی خوش خبری سنادی۔ جس وقت ابراہیم نے بحیثیت منیجر ذمے داری سنبھالی تھی، اخبار اشتہارات کی قلت کا شکار تھا۔ کلاسی فائیڈ اشتہار نہ ہونے کے برابر تھے۔ ابراہیم نے اس حوالے سے اپنے نائب عبدالرئوف میمن کو اعتماد دیا اور ان کے ساتھ ایجنسیز کے دورے کیے۔ ابراہیم ملاقات کے ماہر تھے، جس سے ملنے جاتے وہاں اُن کی خوب خاطر مدارات ہوتی، بقایاجات کی وصولی بھی ہوتی اور آئندہ کے لیے بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی ملتی۔ ابراہیم کا لگایا ہوا پودا خوب پھولا پھلا۔ الحمداللہ آج کلاسی فائیڈ جسارت کی لائف لائن ہے۔
مصروفیت، مصائب، یا سادہ الفاظ میں خودغرضی گزشتہ سات برسوں سے ہمارے تعلقات میں حائل ہوگئی تھی، اس دوری میں بھی ابراہیم سے اُنسیت اور احترام میرے دل میں رہا۔ کچھ دنوں سے مجھے حساب کتاب میں دقت ہورہی تھی، ان کے انتقال سے دو دن پہلے خیال آیا کہ ابراہیم میری اس میں مدد کرسکتے ہیں، اور ایسا بخوشی کریں گے، میں اپنے کھاتے اُن کے پاس لے کر جائوں گا اور کہوں گا: ابراہیم بھائی یہ مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ یہ نہیں پوچھیں گے کہ اتنے دن سے کہاں تھے؟ پالتی مار کر بیٹھ جائیں گے اور اپنا چشمہ اُتار کر کاغذ پر نظریں جماکر گُتھی سلجھانے لگیں گے اور کہیں گے مسئلہ حل ہوگیا۔ وہ ایسے ہی کام آنے والے دوست تھے۔
نوّے کی دہائی کا کوئی سال تھا، جماعت اسلامی پاکستان کا اجتماعِ عام مینارِ پاکستان پر ہورہا تھا۔ لاہور کی یخ بستہ رات تھی، کچھ لوگوں کا ارادہ ہوا کہ سردی میں ٹھٹھرنے کے بجائے رات کسی ہوٹل میں ہیٹر اور آرام دہ بستر پر گُزاری جائے، ابراہیم بھی اس شب بسری کے منتظمین کی فہرست میں شامل بلکہ سرفہرست تھے۔ ابراہیم کو دعوت دی گئی تو باوجود اصرار اور حکم کے انھوں نے جانے سے انکار کردیا اور جواب دیا کہ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہیں رہوں گا۔ وہ ایسے ہی تھے… مشکل، آسانی میں ساتھ نبھانے والے۔ ہر سلوک کا کوئی نہ کوئی خراج ضرور ادا کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ابراہیم کے اس سلوک کے خراج کی ادائیگی میں نے ہمیشہ اپنے اوپر لازم رکھی۔
ابراہیم زور، زبردستی، اختیار سے کوئی کام نہیں کرتے تھے، ہمارا اپنی اشتہاری ایجنسی کے کام سے اسلام آباد سفر ہوتا تھا، میری کوشش رہتی تھی کہ کاروبار کے ابتدائی دن ہیں لہٰذا کفایت شعاری سے کام لیا جائے، جہاز سے آگئے ہیں تو ٹرین سے واپس چلے جائیں۔ ہمارے کام اور کاروبار میں ابراہیم کی رائے کو تقریباً فیصلے کا درجہ حاصل تھا، لیکن وہ کبھی بھی فیصلہ صادر نہیں کرتے تھے، کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتے اور کہتے: ادھر آئیں، وہی کریں گے جو آپ کہہ رہے ہیں لیکن دونوں ذریعے سے سفر کے خرچ کا حساب لگاتے ہیں۔ اور اُن کی ہی جمع تقسیم ہمیشہ درست نکلتی تھی اور میں لاجواب ہوجاتا تھا۔ وہ ایسے ہی تھے، سب کو راضی رکھنے کی کوشش کرنے والے۔ اللہ اُن سے راضی ہو۔
میں نے سرکاری اسکول سے پڑھا، اور ہم اتنا ہی سوچ سکتے تھے۔ بڑے نام والے پرائیویٹ اسکول ہماری جیب اور حوصلے دونوں سے باہر تھے۔ میری بیٹی مریم اور ابراہیم کی بیٹی ماریہ تقریباً ہم عمر ہیں، ابراہیم نے اپنی بیٹی کو حبیب گرلز میں پڑھانے کا ارادہ کیا تو مجھ سے کہا کہ آپ بھی اپنی بیٹی کو اسی اسکول میں داخلہ دلائیں۔ میں نے جواب دیا: یہ ہمارے لیے نہیں ہے۔ انھوں نے میری نہ سنی اور بااصرار مریم کا داخلہ ٹیسٹ دلوایا اور داخلے تک مسلسل نگرانی کرتے رہے۔ ابراہیم کے دیئے ہوئے حوصلے کے نتیجے میں میرے بقیہ تین بچوں نے اسی طرح کے تعلیمی اداروں میں پڑھا۔ ابراہیم ایسے ہی حوصلہ دینے والے اور بڑھانے والے تھے۔
تعلق کی کسوٹی پر پورا اُترنے والے ابراہیم دفتر کی طرح اپنے گلی، محلے، برادری کا نیوکلیئس تھے۔ سیاسی انتخاب ہو، محلے میں کوئی سماجی تقریب ہو، یا برادری کا الیکشن… ابراہیم ہر جگہ اپنے ہونے کا ثبوت دیتے تھے۔ برادری کی تنظیم میں جناب لالہ گلشیر کی صدارت میں اُن کے جنرل سیکریٹری تھے۔ تنازعات کے فیصلے، جماعت کی مساجد کے معاملات، سماجی تقریبات، کسوٹی، بیت بازی… ان سب میں ابراہیم کا خاص کردار ہوتا تھا۔ پی ٹی وی کی طرز پر کسوٹی کے پروگرام میں وہ بوجھنے والے ہوتے تھے، شاید ہی کبھی وہ ناکام ہوئے ہوں۔ بیت بازی کے مقابلے میں استاد شعرائے کرام کے اشعار درست تلفظ، برموقع، الفاظ کی روح کے مطابق لہجے سے پڑھتے تھے۔ وہ ایسے ہی تھے، ہر جگہ اپنا کردار ادا کرنے والے۔
ابراہیم کے دوستوں میں پیپلز پارٹی اور لیفٹ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد ہے، لیکن ابراہیم خود جماعت اسلامی کو پسند کرتے تھے، اس کے مقصد، پروگرام سے اتفاق رکھتے تھے اور عملاً اس کی سرگرمیوں میں شریک ہوتے تھے۔ ایک بلدیاتی انتخاب میں انھوں نے جماعت اسلامی کی طرف سے کونسلر کے انتخاب میں حصہ بھی لیا تھا۔ وہ ایسے ہی تھے، اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے نظریات و خیالات کا احترام کرنے والے۔
ابراہیم ہرطرح کے آدمی کو برت لیتے تھے، کوئی تعلیم یافتہ ہو، ناخواندہ ہو، سوٹڈ بوٹڈ ہو، بڑا عہدے دار ہو، چپراسی ہو، سرمایہ دار ہو، کنگال ہو، نخرے والا ہو، بے تکلف ہو، کم آمیز ہو، گلنے ملنے والا ہو،مہذب ہو، بے دھڑک ہو، کم گو ہو یا باتونی ہو، خواہ وزیراعظم ہو یا عام مزدور ہو… اس کو سمجھنا، اس کی سطح کے مطابق اس سے ڈیل کرنا ان کی بہت بڑی خوبی تھی جو میں نے اب تک کسی اور میں نہیں دیکھی۔
ابراہیم خود بتاتے تھے کہ گھر میں اُنھیں جب غصہ آتا تھا تو وہ ’’شاوٹ‘‘ کرتے تھے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ آپ شاوٹ کرتے کیسے نظرآتے ہوں گے یہ میں اندزاہ نہیں کرپاتا۔ عمومی طور پر ابراہیم اپنے خاندان کے ساتھ نرم خو تھے۔ بیوی سے محبت تو اور بھی لوگ کرتے ہیں، ابراہیم اپنی بیوی کی عزت بھی کرتے تھے۔ ان کا ذکر جب بھی کرتے تو اچھے الفاظ میں کرتے تھے۔ ابراہیم کے والدین ان کے بچپن میں ہی دُنیا سے رخصت ہوگئے تھے، ان کی ساس کا چند سال پہلے انتقال ہوا، ابراہیم نے اس حوالے سے اپنی بیوی کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ ایسے ہی تھے، اپنے اہل وعیال کے لیے ڈھال، سایہ دار درخت کی طرح۔
ابراہیم خوش خوراک آدمی تھے۔ کھانے میں ترتیب، یکسانیت، تنوع کی ان کے دسترخوان پر کوئی اہمیت نہ تھی۔ کولڈڈرنک کے ساتھ چائے، کافی کے ساتھ آئس کریم، شیرمال کے ساتھ ربڑی، برگر کے ساتھ نہاری سب اُن کو بھاتا تھا۔ پاکستان کے ہر کونے کے اچھے ذائقے سے وہ باخبر تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہم اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھود رہے ہیں۔
’’معاف کرنا یار، ہم تو صرف بدنام ہیں، جو بولتا ہے وہ قدر کھوتا ہے اور جو چُپ رہتا ہے وہ مقدر کھوتا ہے‘‘ ابراہیم کے خاص جملے تھے۔ ابراہیم فہمی زمانہ شناس تھے لیکن ان کی خودشناسی میں کچھ کمی تھی، انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو اس طرح نہیں برتا جیسا کہ برتا جانا چاہیے تھا۔
محمد حسین بلوچ (لالہ گلشیر)، نعیم سولجر، ذوالفقار مکھی، ضیاء الدین پرواز، قدیر احمد بھوجانی، امتیازنارنجا، اقبال فرید بابل، جمیل چوہان، فرحت مٹھووالا، ڈاکٹر زین العابدین، جمیل بھوجانی، اورنگزیب بھائیا،کامل فرید، اعجاز نارنجا، زین العبادین مٹھو، علی اکبر کاظمی، راجا علی، نورالمارفین، نجم الثاقب لالہ، شاہد امین ساٹھی، ابرار چوہان، زاہد باوا ابراہیم سے قریب تھے۔ دل چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں کی جائیں، لیکن زمینی فاصلے درمیان میں حائل ہیں۔
خان محمد کا بیٹا اویس، مزمل، ماریہ کا باپ، خیرالنساء کا شوہر، ہم سب کا دوست اس دُنیا سے رخصت ہوگیا۔ عقیدت، محبت، تنقید واختلاف، پسندوناپسند کا ہر تعلق اب ابراہیم سے ختم ہوگیا ہے، صرف دعا کا سفارتی تعلق باقی ہے جس کا ایک سرا ہمارے ہاتھ میں، دوسرا اللہ کے دربار میں ہے۔ اللہ ابراہیم کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنائے، ان کی غلطیاں معاف فرمائے، ان کے بیوی بچوں، دوستوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے، اور مَیں اُن کے ساتھ جو اچھا کرسکتا تھا، نہ کر سکا، اس پر مجھے معاف فرمائے، اور اس غفلت پر تلافی کی راہ بنائے۔آمین (مضمون کی تیاری میں قدیر بھوجانی کا تعاون شامل رہا)

حصہ