وہ ایک شاندار انسان تھے، ابراہیم فہمی بھی رخصت ہوئے

327

اعجازاللہ خان
بہت عرصے سے بیماری والی کیفیت میں رہے اور بار بار ہمت کرکے کھڑے ہوجاتے تھے۔ دوبارہ منصوبہ بندی شروع کرتے تھے اور پھر بیماری… وہ ایک شان دار انسان تھے۔ جو شخص بھی ایک بار اُن سے ملتا تھا وہ اُن کا دوست اور گرویدہ ہوجاتا تھا۔ میرا تعلق ان سے 33 سال پرانا تھا جب میں جمعیت کا کارکن اور وہ جماعت کے کارکن تھے۔ وہ جسارت میں جاب کرتے تھے اور میں طالب علمی کے دور سے گزر رہا تھا۔ چوں کہ ابراہیم فہمی اور گزدر آباد میں اُس وقت کے دیگر کارکنانِ جماعت اسلامی جمعیت طلبہ کے بڑے خیرخواہ تھے جن میں برادر جاوید آدم، برادر عارف، برادر حنیف محمد بھائی اور بعد میں جمیل چوہان صاحب اور اعجاز علی نارنجا شامل تھے۔ مگر ابراہیم فہمی کو جمعیت سے خاص رغبت تھی۔
وہ مجھ سے اس بات کا اظہار کئی بار کرچکے تھے کہ کاش وہ بھی جمعیت کے کارکن رہے ہوتے۔ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں مَیں نے اور ابراہیم بھائی نے حافظ مقبول صدیقی صاحب (گارڈن) والے کے حلقے میں ایک ساتھ خاصا کام کیا اور ہماری قربت اسی مہم میں بڑھی۔
ویسے تو ابراہیم فہمی کی برادری کے نوجوان آج کل خاصے تعلیم یافتہ ہیں اور انجینئرنگ اور میڈیکل کے شعبے میں بہت سارے نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں یا خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن ابراہیم فہمی اپنی برادری میں، اپنی قبیل اور اپنے دور میں چند پڑھے لکھے لوگوں میں سے تھے، یا شاید MBA کرنے والے تو کم از کم پہلے ہی فرد تھے۔ ابراہیم بھائی کی برادری اصل میں اس شہر کی معمار ہے۔ ابتدائی طور پر کراچی میں جو تعمیراتی کام ہوتے تھے، بالخصوص پتھر کی تعمیرات، وہ ابراہیم بھائی کی برادری یعنی ’’مسلم سلاوٹ مارواڑی جماعت‘‘ ہی کے کاری گر کرتے تھے، اسی وجہ سے ایک زمانے میں گزدر آباد تعمیراتی مشینری کے حوالے سے بھی بہت معروف رہا ہے، اور ہم کو جمیلہ اسٹریٹ یا گزدرآباد میں جا بجا روڈ رولر، کرین اور مکسچر مشینیں کھڑی نظر آتی تھیں۔ ابراہیم بھائی کا اصل نام ابراہیم چوہان تھا، لیکن وہ اپنی فہم و فراست کی وجہ سے ’’ابراہیم فہمی‘‘ کے نام سے معروف ہوگئے۔
ابراہیم بھائی نے گورنمنٹ کامرس کالج سے بی کام کرنے کے بعد ایک انشورنس کمپنی ’’ایسٹ ویسٹ انشورنس‘‘ میں ملازمت اختیار کی تھی کہ جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے اور اپنے شوقِ مطالعہ کی وجہ سے بہت جلد بہت ساری کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اور پھر یہ فکر غالب آئی کہ انشورنس کمپنی کا کام ٹھیک نہیں ہے، لہٰذا وہ جاب چھوڑ دی اور نئی جاب کی تلاش میں جسارت تک پہنچے، اور شعبہ اکائونٹ میں ملازمت اختیار کی۔ ابراہیم بھائی اپنے ابتدائی دور سے ہی تمام اسٹاف کے ہر دل عزیز ساتھی رہے۔ جسارت ابتدائی طور پر ایک بہت بڑی افرادی قوت رکھتا تھا اور ہر شعبے میں بڑی تعداد میں لوگ خدمات انجام دے رہے تھے۔ ابراہیم بھائی ہر شعبے میں یکساں طور پر اچھے تعلقات کی وجہ سے بہت مقبول تھے۔ ابراہیم بھائی کا جسارت میں دورِ اوّل 1989ء تک تھا۔ جب جسارت میں نئی انتظامیہ نے بڑے پیمانے پر لوگوں کو فارغ کیا تو ابراہیم بھائی بھی دیگر افراد کی طرح ’’سنہری ہاتھ‘‘ ملا کر جسارت سے رخصت ہوگئے۔ ان کے جانے کے فوراً بعد دسمبر 1989ء میں مَیں جسارت میں جاب کے لیے انٹرویو دینے آیا، مگر دروازے پر ہی علم ہوگیا کہ مَیں جس جاب کے لیے آیا تھا وہ تو پُر ہوگئی ہے۔ ابھی میں وہیں کھڑا تھا کہ جمعیت کا ایک نوجوان نظر آیا۔ سلام کے بعد پوچھا کہ کیسے آئے؟ میں نے بتایا کہ ایک پوسٹ تھی، مگر اب کسی اور کو رکھ لیا ہے لہٰذا چلتے ہیں… اجازت دیں۔ اُن صاحب نے جو شاید عمر میں مجھ سے چھوٹے اور کردار، ظرف اور مرتبے میں مجھ سے بہت بڑے ہیں، کہا کہ ابھی صبر کریں میں کچھ کرتا ہوں۔ وہ اندر گئے اور دو منٹ میں ہی واپس آگئے اور کہا کہ آپ اندر جائیں CEO صاحب سے مل لیں۔
میں اندر گیا، وہاں اپنے دور کے ایک عظیم انسان محترم معظم علی قادری صاحب (مرحوم) موجود تھے۔ اُن سے جاب کی بات کی تو انہوں نے معمولی انٹرویو کیا اور مجھے ملازمت پر رکھ لیا، اور ساتھ ہی ایک دل چسپ بات بھی بتائی۔ انہوں نے کہا کہ اس جاب پر میں نے ابھی تھوڑی دیر قبل ایک صاحب کو رکھا تھا۔ وہ مجھ سے سب کچھ طے کرکے باہر گئے اور پھر پانچ منٹ بعد واپس آکر کہا کہ جاب ان کو نہیں کرنی، آپ کسی اور کو رکھ لیں۔ اور پھر آپ آگئے۔
آج ہمارے وہ دوست پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل میں نیوز پروڈیوسر کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور تیس سال قبل کی طرح آج بھی اتنے ہی ظرف کے مالک ہیں، اور ایسے ہی محبت اور ایثار سے کام لینے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، آمین۔
معظم بھائی سے انٹرویو میں میرے لیے کوئی باقاعدہ کام طے نہیں ہوا تھا، بس انتظامی کام کرنے تھے، اور ابتدائی طور پر کچھ کام کے لیے راشد عزیز صاحب کو اور کچھ کام کے لیے برادر شاہد میاں کو رپورٹ کرنا طے ہوا۔ یہ دونوں حضرات بہت ہی شفیق، محبت کرنے والے اور مخلص استاد کی طرح میرے جسارت کی ٹیم میں شامل ہونے میں معاون ثابت ہوئے۔ میں ان کا شکر گزار ہوں۔ اگلے چند ہی دنوں بعد معظم بھائی نے مجھ سے کہا کہ شعبہ اشتہار میں سب کو فارغ کردینے کی وجہ سے وہاں بہت دنوں سے اشتہارات کے بل نہیں بن سکے، اس کام کے لیے برادر مقبول عالم کو رکھا گیا تھا مگر نئے ہونے کی وجہ سے اُن کے لیے بھی بل بنانا اور ان کو صحیح مقام تک پہنچانا اتنا آسان نہ تھا۔ میں دو، تین دن تک تو ان کے ساتھ کوششوں میں لگا رہا، مگر جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو گزدر آباد آگیا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بادامی مسجد کے نیچے مشتاق کے ہوٹل پر برادر ابراہیم فہمی مل گئے۔ ان سے اپنی مشکل بیان کی تو انہوں نے وہیں سب کچھ مجھے بتادیا کہ ایسے کرو، ایسے کرو… سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں نے بے تکلفی کا فائدہ اٹھایا اور کہا کہ میرے ساتھ چلیں، وہاں چل کر سمجھا دیں۔ انہوں نے ایک لمحہ نہیں لگایا اور کہا کہ چلو میں چلتا ہوں۔ ورنہ ہمارا مجموعی مزاج تو اپنے پرانے اداروں کے لیے کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
اگلے کئی دن تک میں صبح ان کو لیتا تھا، آفس آتا تھا، ان کے لیے چائے منگواتا تھا اور ان سے بہت سا کام لیتا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں تمام کام کنٹرول میں آگیا۔ ایک دن معظم بھائی صبح آگئے اور اپنے مخصوص انداز میں ابراہیم سے پوچھا کہ ’’آپ کیسے؟‘‘ تو ان سے پہلے میں نے CEO صاحب کو بتایا کہ یہ سارا کام انہی کی بدولت ممکن ہوا، تو انہوں نے ابراہیم فہمی کا ہاتھ پکڑا اور کہا میرے آفس میں آئیں۔ خاصی دیر بعد ابراہیم بھائی اور معظم بھائی آئے اور انہوں نے کہا کہ اعجاز، ابراہیم صاحب شعبہ اشتہارات کے انچارج ہوں گے اور آپ ان کے معاون ہوں گے۔ یہاں سے میرا دوست میرا استاد بن گیا۔ ویسے تو مجھے کہنا چاہیے کہ میرا دوست میرا باس بن گیا، لیکن وہ کبھی باس نہیں بنا… نہ صرف میرا بلکہ کسی کا بھی باس نہیں تھا۔
شعبہ اشتہارات میں عبدالرئوف میمن، افتخار کبیر، محمد شاہد، سعود اختر‘ امتیاز نارنجا ‘عبدالشکور اور تنویر اللہ خان بھی ان کے ماتحت رہے، مگر وہ دوست ہی رہے، صرف دوست… اور اسی دوستی کے ماحول نے کام کو چار چاند لگائے الحمدﷲ۔
اور پھر جسارت کی تاریخ میں شعبۂ اشتہارات سب سے بڑی ٹیم اور سب سے بڑے بزنس کے ساتھ ریکارڈ پر موجود ہے، اور ابراہیم بھائی اور ان کی ٹیم جو کہ کراچی میں محترم مختار گوہر صاحب، صمد ممتاز صاحب، تنویر اللہ خان، سعود اختر، محمد شاہد اور دیگر بہت سارے لوگوں پر مشتمل تھی، جب کہ کراچی سے باہر بھی اسلام آباد کے ایس ایم خالد، سیالکوٹ کے ریاض (مرحوم)، گوجرانوالہ کے عبدالحفیظ طاہر، لاہور کے فاروق چوہان اور رائو جاوید اقبال صاحب، پشاور کے عبدالحسیب، اور اسی طرح کے پاکستان بھر کے بے شمار لوگ ابراہیم فہمی کی ٹیم کا حصہ رہے اور ایک خاندان کی طرح مصروفِ عمل رہے۔ ابراہیم فہمی اپنی علمیت، قابلیت، خوش گفتاری اور خوب صورت اندازِ تکلم کی وجہ سے اپنی برادری میں بھی بہت مقبول تھے، اسی لیے برادری کے کئی بار ذمے دار رہے اور صدر، سیکریٹری اور مختلف خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ میرے استاد تھے، میں اپنی گفتگو میں ہمیشہ ابراہیم فہمی کی جانب سے سکھائی اور سمجھائی جانے والی باتیں اور کام کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ ابراہیم بھائی کے ہمراہ میں نے تقریباً پورا ملک ہی گھوما، وہ ایک اچھے ہم سفر بھی تھے۔ انہوں نے مجھے سفر میں کوئی تکلیف نہ ہونے دی۔ قربانی دینا ان کو اچھی طرح آتا تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ ابراہیم بھائی سے جھگڑا کئی بار ہوا لیکن میں نے صلح کبھی نہیں کی، کیوں کہ وہ اس کا موقع ہی نہیں دیتے تھے، وہ خود پہل کرتے تھے اور چاہے میری ہی غلطی کیوں نہ ہو، وہ آکر ایسے بات کرتے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔
ایک بار شعبہ کمپیوٹر میں میری اور ان کی بہت شدید تکرار ہوگئی اور لوگوں نے سمجھا کہ شاید بات اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کو دیکھیں گے بھی نہیں۔ ابراہیم بھائی اٹھ کر چلے گئے، میں وہیں بیٹھا تھا کہ اس شعبے کے ایک فرد نے مجھ سے کہا کہ آپ دونوں اتنے قریبی دوست ہیں، اب کیا ہوگا، آپ نے تو بہت ہی زبردست لڑائی کرلی۔ تو میں نے کہا کچھ نہیں ہوگا، آئو میں تم کو دکھاتا ہوں کہ اب کیا ہوگا۔
میں نے ان صاحب کو کہا کہ وہ پیچھے سے صرف نظارہ دیکھیں، بولیں کچھ نہیں۔ میں ابراہیم بھائی کے کیبن میں گیا، ان کے سامنے بیٹھا اور کہا ’’یار چائے تو منگوا…‘‘ انہوں نے کچھ کہے بغیر انٹرکام اٹھایا اور کینٹین میں ملانے سے پہلے یہ کہا ’’اچھا تو سموسے تُو منگوا لے۔‘‘ یہ دیکھ کر وہ صاحب اپنا سر پیٹ کر وہاں سے رخصت ہوگئے۔ ایسا کئی بار دیکھا لوگوں نے۔ ہم نے ایک ساتھ دس سال جسارت میں گزارے۔
میں اشتہارات، انتظامیہ، پبلی کیشن، پروڈکشن اور لاہور بیورو میں خدمات انجام دیتا رہا۔ ابراہیم بھائی شعبہ اشتہارات کے منیجر رہے۔ انتظامی لحاظ سے میں بہت کم عرصے ان کا ماتحت رہا، مگر میں اور ابراہیم فہمی ہمیشہ ایک جوڑی کے طور پر جانے جاتے رہے، بالخصوص ابراہیم بھائی کی وجہ سے۔ ابراہیم بھائی کے ساتھ کام کرنے والے جسارت کے پرانے کارکنان جن میں جاوید احمد خان صاحب، سعید احمد صدیقی صاحب، ضیا الاسلام صاحب، اجمل صاحب، احمد خان صاحب، افتخار کبیر صاحب و دیگر دوستوں کی محفل میں ابراہیم بھائی کی وجہ سے مجھے بھی جانے کا موقع ملا اور میں وہاں بہت محظوظ ہوا اور محفل کا مستقل شریک ٹھیرا۔ جب کہ جسارت کے ان دس سال میں محترم شاہد ہاشمی صاحب کی قیادت میں ایک بہت ہی شان دار ٹیم تیار ہوئی جس میں مہرالدین افضل صاحب، ابراہیم فہمی، مقتدراللہ صاحب، تنویر اللہ خان صاحب، محمد شاہد صاحب، سہیل بلخی صاحب، عرفان احمد صاحب، شاہد میاں صاحب، عبدالقادر کوڈواوی انتظامی شعبے سے تعلق رکھتے تھے، جب کہ شعبہ ادارت میں اس دور میں بے شمار بڑے ناموں نے جسارت سے جڑنے کو اپنا اعزاز جانا۔ ابراہیم بھائی کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ بہت ہی پُراعتماد شخصیت کے مالک تھے اور کسی بھی سطح پر جسارت کی نمائندگی ان کے لیے ایک سادہ سی بات ہوتی تھی۔ ان کے دور میں اشتہاری کمپنیوں نے اپنے دروازے جسارت کے لیے کھولے۔ افراد کو جانچنا ہو تو ان کے ساتھ وقت گزارا جاتا ہے یا معاملات کیے جاتے ہیں، ابراہیم بھائی کی ایک اچھی بات یہ تھی کہ وہ آپ کے حق میں بہت جلد دست بردار ہوجاتے تھے چاہے اس میں ان کا نقصان ہی کیوں نہ ہو… اور ایسا ہم نے کئی بار دیکھا۔
ابراہیم فہمی نے اپنے گھر میں اپنے دوستوں کی تصویرکشی بہت عمدہ کی تھی، لہٰذا ان کے گھر والے بالخصوص ان کی اہلیہ ان کے دوستوں کے بارے میں بہت اچھا تاثر رکھتی تھیں۔ یہ بھی ابراہیم بھائی نے اہتمام کرکے کیا تھا۔
ابراہیم بھائی کا سب سے بڑا بیٹا اویس چوہان جب دو یا تین سال کا تھا اور اس کو چوٹ لگنے کی وجہ سے اسپتال میں ٹانکے لگے تھے، ان کے اسپتال پہنچنے کے ساتھ ہی میں بھی اسپتال پہنچ گیا تھا۔ اب اویس ماشاء اللہ خود صاحبِ اولاد ہیں، مگر وہ جب مجھے اویس کے ساتھ ملے تو انہوں نے اویس کو یہ بات پھر یاد دلائی کہ اعجاز انکل تمہارے لیے سب سے پہلے اسپتال پہنچے تھے۔ خود بھی شکر گزار اور اپنی اولاد کو بھی اس کی تربیت دی۔
باتیں تو بہت سی ہیں مگر کتنا لکھا جائے… سب اچھا ہی ہے میرے دوست کا۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان کی آگے کی منزلوں کو آسان کرے، اور ہم کو جنت میں ملا دے جہاں میں ان سے کہوں ’’چائے منگوا‘‘ اور وہ مجھ سے کہیں کہ ’’چل سموسے تُو منگوا لے۔‘‘

حصہ